بچے کی تربیت

ڈاکٹر خورشید عالم

ابھی تک ایک عام تاثر یہ ہے کہ بچے ناسمجھ ہوتے ہیں۔ ان میں نہ تو جذبات ہوتے ہیں اور نہ وہ کسی بات کا اثر لیتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ بچے کی تربیت اور اس کے گھر کا ماحول بچے کے جذباتی، سماجی اور دماغی نشو ونما میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جدید نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائڈ نے سب سے پہلے اس حقیقت کو پہچانا کہ بچپن کے دوران حاصل ہونے والے تجربات بچے کی شخصیت کی تعمیر میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فرائڈ کے اس نظریہ نے اس وقت ایک تہلکہ سا مچادیا کیونکہ اس وقت بھی لوگ عام طور سے یہی سمجھتے تھے کہ بچے نہ تو اپنی کوئی سوچ رکھتے ہیں اور نہ ہی جذبات — لہٰذا محض ان کے کھانے پینے کی ضروریات پورا کرنا ہی ضروری سمجھا جاتا تھا۔

فرائڈ نے اپنے کلینک میں آنے والے مریضوں کا برسوں مشاہدہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ کسی بھی شخص کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ اس نے کس انداز کا بچپن گزارا ہے اور اس دوران اس کے تعلقات لوگوں سے کیسے رہے ہیں۔ ان تجربات کی روشنی میں ہی اس نے یہ بات کہی کہ کسی شخص کو سمجھنے کے لیے اس کے بچپن کو سمجھو۔

آج یہ بات پوری طرح تسلیم کی جاچکی ہے کہ بچپن کے تجربات اور تربیت انسان کی شخصیت کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم آج ازسرِ نو اس بات پر غور کریں کہ ہم اپنے بچوں کو تربیت کس طرح کررہے ہیں۔

ذمہ داری مل کر نبھائیں

بچہ اپنے ماں باپ سے بے حد متاثر ہوتا ہے۔ اس کی شخصیت پر دونوں کی ہی چھاپ ہوتی ہے۔ لہٰذا دونوں کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے پر اچھے تاثرات نقش کریں اور اپنی اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائیں۔ تاہم ہندوستانی سماج میں عمومی طور پر اور مسلمان گھرانوں میں خصوصاً یہ دیکھا جاتا ہے کہ بچوں کی پرورش میں باپ کا کردار بیحد محدود بلکہ کبھی کبھی تو صفر ہوتا ہے۔ درمیانہ درجے کے گھرانوں کے ایک جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے صرف ڈیڑھ فیصد گھرانوں میں بچوں کی تربیت و پرورش میں ابا حضور اپنا حق ادا کرتے ہیں۔ ہمیں اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے کیونکہ اگر بچے کو باپ کی طرف سے توجہ، پیاراور تربیت نہیں ملتی تو اس کے اثرات عمر بھر نظر آتے ہیں۔

لڑکا، لڑکی ایک ہیں

ہمیں کبھی بھی لڑکے یا لڑکی میں تفریق نہیں کرنی چاہیے۔ کچھ گھرانوں میں اپنی ضروریات، سماجی تقاضوں یا خاندانی وجوہات کی بنا پر یا تو لڑکے کو لڑکی پر یا لڑکی کو لڑکے پر فوقیت دی جاتی ہے۔ اس طرح کا تفریقی برتاؤ بچوں پر غلط اثر ڈالتا ہے۔ بچوں کے ذہن میں اس قسم کے خیالات نہیں بٹھانے چاہئیں کہ لڑکے مضبوط اور ہمت والے ہوتے ہیں، لڑکیاں کمزور اور کم ہمت ہوتی ہیں، لڑکے اپنی من مانی کرتے ہیں، کھلنڈرے ہوتے ہیں، پڑھائی میں اچھے نہیں ہوتے جبکہ لڑکیاں فرمانبردار، گھریلو اور پڑھائی میں تیز ہوتی ہیں۔ صنف یا جنس سے متعلق اس قسم کے خیالات بچوں کے ذہن کو نہ صرف بوجھل کرتے ہیں بلکہ غلط اثرات بھی مرتب کرتے ہیں۔

ایک شخص ایک کام

بیک وقت اپنے بچے کی ماں اور باپ بننے کی کوشش نہ کریں۔ ماں کو چاہیے کہ ماں کا کردار ادا کرے اور باپ پر لازم ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔ نہ تو باپ بیک وقت ماں اور باپ بن سکتا ہے اور نہ ہی ماں دونوں کردار بخوبی ادا کرسکتی ہے۔ یعنی گھر میں ایک ٹیم ورک کی طرح کام ہو۔ ماں باپ اپنی اپنی ذمے داریاں تقسیم کرلیں اور انھیں نبھائیں۔

آزادی ضروری ہے

شروع ہی سے بچے کو آزادانہ طور پر اپنا کام کرنے کی تربیت دی جانی چاہیے۔ تاہم اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کتنی عمر میں کس طرح کی آزاد تربیت دی جائے۔ بچے کی عمر کی مناسبت سے اسے اپنا کام خود کرنے، اپنے جائز حقوق مانگنے، اپنے طور پر باہر جانے، راستہ پہچاننے، لوگوں سے ملنے اور اپنی مرضی کی بات کرنے کی آزادی دینی چاہیے تاکہ اس کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو۔ بچے پر ہر کام کے واسطے اجازت کی پابندی لگانے سے بچے کی خود مختاری کو ٹھیس پہنچتی ہے ایسے بچے تمام عمر دوسروں کے مشوروں اور رہنمائی کے محتاج رہتے ہیں۔ ان میں فیصلہ کرنے کی قوت نہیں پنپ پاتی۔

نرم گرم

بچے کی تربیت نرم گرم انداز سے ہونی چاہیے۔ یعنی اچھے کام پر شاباشی، پیار اور تحفہ تو غلط کام پر تنبیہ، سختی اور سزا۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ پیار، شاباشی اور حوصلہ افزائی سے بچے کو زیادہ بہتر تربیت دی جاسکتی ہے۔ بچے کے کام پر اگر اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور مزید بہتر کرنے کی تلقین ہو تو اکثر بچہ مشکل سے مشکل کام بھی کرڈالتا ہے۔ لیکن یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ بے جا یا ہر وقت کی شاباشی اور تعریف بھی بچے کے لیے مضر ہوتی ہے، جو اسے ہمیشہ تعریف اور جیت کا عادی بنادیتی ہے۔ نیز وہ من مانی کرنے لگتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر اس پر بہت زیادہ سختی کی جائے تو وہ سختی یا سزا اپنا اثر کھودیتی ہے۔ بچہ نافرمان، ضدّی نیز دیگر منفی رجحانات کاپیکر بن جاتا ہے۔ لہٰذا ان دونوں انداز کے بیچ ایک مناسب توازن کے ساتھ بچے کی تربیت ہونا چاہیے۔

تبدیلی کا استقبال

بچے کی بلوغت کا دور اس کی زندگی اور کردار سازی میں ایک اہم رول ادا کرتا ہے تاہم بدقسمتی سے ہمارے گھرانوں میں اس دور کے لیے بچے کو تیار کرنے اور تربیت دینے کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا۔ عموماً لڑکیاں ۱۱ سے ۱۳ سال کی عمر اور لڑکے ۱۳ سے ۱۵ سال کی عمر کے درمیان بلوغت میں داخل ہوتے ہیں۔ لڑکیوں میں ماہواری کی شروعات اور لڑکوں میں منھ پر بال آنے اور شب خوابی یعنی نیند کے دوران مادّہ منویہ (منی) کا خارج ہونا اس کی علامات ہیں۔ یہ تبدیلی محض جسمانی ہی نہیں ہوتی بلکہ جذباتی اور نفسیاتی بھی ہوتی ہے۔ اکثر بچے ناواقفیت کی وجہ سے اس تبدیلی کو برا سمجھتے ہوئے ایک احساس جرم میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ اس سے ڈرنے لگتے ہیں، گھبراتے ہیں۔ ایسے میں ناواقفیت ان کو اکثر گمراہ کردیتی ہے۔ دوستوں کے غلط مشورے ان کے ذہن میں غلط خیالات اور غلط رجحانات پیدا کردیتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ ان میں سے جو بھی بچوں کے زیادہ نزدیک ہو، وہ ان کو اس تبدیلی کے بارے میں بتائے۔ ذہنی طورپر انہیں تیار کرے نیز اس سلسلے میں ضروری احتیاط جو کہ مذہبی اور سماجی اعتبار سے لازم ہیں، انھیں سمجھائے۔ غلط روش کے باعث ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرے۔

بچہ خاندان کا چشم و چراغ ہوتا ہے۔ والدین کو، رشتے داروں کو، اس سے بہت سی توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سماج اور ملک میں اچھا مقام حاصل کرے۔ ان کی خواہشات کی تکمیل اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب ہم شروع سے ہی بچے کی تربیت پر توجہ دیں اور اس کی شخصیت کو متناسب اور متوازن بنائیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146