بحیثیت ماں اگر آپ اپنے بچے کی زندگی اور مستقبل کو سنوارنے کی خواہش مند ہیں اور ہونا چاہیے تو آپ کو تربیت کے گُر اور بچے کی بنیادی نفسیات کے علم کے ساتھ ساتھ اپنے ماں ہونے کا شعور و احساس بھی ہونا چاہیے۔
یہ شعور و احساس اور تربیت اولاد کی اہمیت ہمیں اس وقت معلوم ہوگی جب ہم اس سلسلے دینی ہدایات کا مطالعہ کریں گے۔ ایک اچھی ماں ایک اچھی مربی ہوتی ہے اور یہی بات ہے جسے حضور پاکؐ نے ’’راعیۃ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ ایک اور جگہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ والدین جو بہترین تحفہ اپنی اولاد کو دے سکتے ہیں وہ اچھی تربیت ہے۔ اولاد کی اچھی تربیت ایک طرف تو دنیا میں سکون و چین کی زندگی کا ذریعہ بنتی ہے دوسری طرف والدین کے لیے موت کے بعد صدقۂ جاریہ بھی۔ اگر والدین اپنی دنیا و آخرت دونوں سنوارنا چاہیں تو اولاد کی تربیت ان خطوط پر کرنے کا عزم کریں جو اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں بتائے ہیں۔
اس مضمون میں کچھ عملی باتوں کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے اس تاکید کے ساتھ اس سلسلے کی ضروری رہنمائی ہمیں قرآن کی سورئہ لقمان سے خاص طور پر ملتی ہے اور رسول کی سیرت اس کا عملی مظہر ہے۔
اس سلسلے میں جو بنیادی بات ہم کہنا چاہیں گی وہ یہ ہے کہ ماں کو اپنی روایتی سوچ کو تبدیل کرکے علم و عمل کی بنیاد پر اس کام کو انجام دینا ہے اور عمر کے بالکل ابتدائی دنوں سے ہی اس طرف توجہ دینی ہے۔ سخت گیری اور شدت پسندی چھوڑ کر لچک دار رویے اور محبت بھرے انداز میں اپنا کام انجام دینا ہے۔ موجودہ دور کی خواتین کا المیہ یہ ہے کہ ان کے پاس ٹی وی اور موبائل کے لیے تو وقت ہے، شاپنگ اور دیگر غیر اہم کاموںکا تو خیال ہے ،مگر اپنے ہی بچوں کے لیے وقت نہیں اور نہ ان کی فکر ہے۔ اس لیے ہر ماں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے وقت کو منظم کرے اور ترجیحی اعتبار سے اپنے لیے دن بھر کا ٹائم ٹیبل سیٹ کرے جس میں گھر کے کاموں اور دیگر ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ بچوں پر بھرپور توجہ کے لیے وافر وقت ہو۔
بچوں کی پرورش و تربیت ایک طویل مدتی عمل ہے جو ایک ماں سے بے پناہ صبر و تحمل اور قوتِ برداشت کا متقاضی ہوتا ہے۔ وہ مائیں جو بےصبری، جلد باز، چڑچڑی اور کمزور قوتِ برداشت کی حامل ہوتی ہیں وہ ایک تو اپنے رویوں میں بھی اس کا مظاہرہ کرتی ہیں دوسری طرف وہ بہت جلد مایوس ہوکرہمت ہار جاتی ہیں۔ نتیجے کے طور پر اُن کے بچے بھی اُن ہی کی طرح غصیلے، جھگڑالو، بدتمیز اور بے صبرے ہوجاتے ہیں۔
تعریف و ستائش
بحیثیت ماں آپ کو چاہیے کہ اکثر اپنے بچے کی حوصلہ افزائی کے لیے اس طرح کی باتیں ضرور کریں کہ
”تم بہت بہادر ہو، ہمت اور حوصلے والے ہو۔ میرا بیٹا تو بہت strong ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں، چیزوں اور تکلیفوں سے بالکل نہیں گھبراتا۔ میرے بیٹے جیسا تو کوئی بھی نہیں ہے۔ تم بہت اچھے، پیارے اور منفرد ہو۔“اس سے بچے کو نہ صرف خوشی ہوتی ہے بلکہ اس کے اندر ایک قسم کی خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔
اگر بچہ کوئی سوال پوچھے تو کہیں ”واہ میرا بیٹا کتنا ذہین ہے، بہت اچھا سوال پوچھا ہے اس نے۔‘‘ اگر باربار سوال پوچھے تو پھر اُس کے سوال پر آپ سوال کریں یعنی cross questions کریں۔
بچے کی خوبیوں، صلاحیتوں، کاموں اور کوششوں کی تعریف کریں ”واہ بہت عمدہ کوشش ہے، بہت اچھا کام کیا، تم بہت کچھ کرسکتے ہو، تم میں ذہانت بھی ہے اور کام کرنے، آگے بڑھنے کا جذبہ بھی۔“ بچے کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے اُسے بتائیں کہ مجھے تمھارے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگتا ہے۔
اگر کبھی بچے کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اپنے ساتھ، توجہ اور محبت سے رہنمائی کا احساس دلا کر بچے کو اس مسئلے کا حل خود تلاش کرنے میں رہنمائی دیں، اور اسے بتائیں کہ ہر مسئلے، مشکل یا پریشانی کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہوتا ہے، تمھارے مسئلے کا بھی ہوگا، کوشش کرو۔ یاد رکھیں بچے کو مشکلوں، پریشانیوں اور مسائل سے دور نہ رکھیں بلکہ ان کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کریں تاکہ کل وہ دنیا کو اپنے زورِ بازو سے تسخیر کرنے کے عزم و حوصلے اور اعتماد کے ساتھ عملی زندگی کا آغاز کرے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تعریف و ستائش ایک اچھی چیز ہے لیکن غلطیوں پر شفقت کے ساتھ ٹوکنا اور درست کرانا بھی اہم ہے تاکہ زندگی کے دونوں پہلو اس کے سامنے رہیں۔
یہ جملے ہرگز نہ کہیں
بچے کی ساری دنیا اُس کے والدین، گھر اور اُس کی چیزیں ہوتی ہیں۔ آپ(والدین) کی توجہ، محبت اور حوصلہ افزائی اُسے مطمئن، پُرسکون اور متوازن شخصیت کا مالک بناتی ہے، اور ماں باپ کی عدم توجہ اور حوصلہ شکنی بچے کی شخصیت اور نفسیات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتی ہے۔
بحیثیت ماں اپنے بچے سے دوسروں کے سامنے ہی نہیں اکیلے میں بھی ایسے جملے ہرگز نہ کہیں: ابھی مت بتاؤ، میرے پاس وقت نہیں ہے، مجھے تنگ مت کرو، اپنا کام کرنے دو، فضول باتیں نہ کرو، میں بہت تھکی ہوئی ہوں، کبھی خاموش بھی ہوجایا کرو، ہر وقت دماغ کھاتے ہو، وغیرہ۔ یاد رکھیں آج جو باتیں آپ بچے سے کہیں گی، کل بچہ وہی آپ کو لوٹائے گا۔
بچے کو ہر وقت اور بلا ضرورت اپنی مثالیں نہ دیں، نہ بچے پر اپنے تجربات مسلط کریں۔ ضروری نہیں ہے کہ پرورش و تربیت کے جو روایتی طریقے آپ کے دور میں رائج تھے وہ آج بھی کارگر ہوں۔ ”تمھارا دھیان ہر وقت کہاں رہتا ہے! تمھاری سمجھ میں کوئی بات ایک بار بتانے سے کیوں نہیں آتی! آخر تم اتنے کند ذہن کیوں ہو!“ اس قسم کے جملوں اور رویوں سے بچے میں احساسِ کمتری پیدا ہوتا ہے، وہ خود کو بےوقوف، نالائق اور کند ذہن سمجھنے لگتا ہے: ”ہٹو، میں خود کرلوں گی، تم سے کام کہہ کر میں تو مصیبت میں پھنس جاتی ہوں، تم سے کام کروانے سے بہتر ہے میں خود کرلیا کروں“ وغیرہ-
ہر وقت اپنے بچے کا موازنہ دوسرے بچوں سے کرکے اُسے احساسِ کمتری، چڑ، حسد اور ضد میں مبتلا نہ کریں۔ یہ جذبے رفتہ رفتہ نفرت میں تبدیل ہوکر آپ کے بچے کی شخصیت اور زندگی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔
اگر اپنے بچے سے متعلق اس طرح کے جملے آپ دوسروں کے سامنے کہنے کی عادی ہیں تو یاد رکھیے کہ آپ بچے کی منفی عادات کی حوصلہ افزائی کررہی ہیں۔ بعض اوقات بچے میں دوسروں سے جو ایک جھجک، لحاظ اور شرم ہوتی ہے وہ ختم ہوجاتی ہے اور بچہ زیادہ بےخوف اور خودسر ہوجاتا ہے، یا کبھی کبھی ماں کو ستانے، اس کی جھنجھلاہٹ اور بےبسی محسوس کرنے کے لیے بھی اور زیادہ ایسی حرکتیں کرتا ہے- یاد رکھیں بچے بڑوں سے زیادہ ذہین، سمجھدار اور حساس ہوتے ہیں۔ بحیثیت ماں آپ کی کہی ہوئی ہر بات، ہر جملہ، ہر لفظ آپ کے بچے کی شخصیت اور ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی صحت پر مثبت یا منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔
پانچ قیمتی سال
وہ مائیں جن کے بچے پانچ سال، یا اس سے کچھ کم عمر کے ہیں اچھی طرح سے یہ بات سمجھ لیں کہ بچے کی زندگی کے ابتدائی پانچ، چھ سال خصوصی اہمیت کے حامل اس لیے بھی ہوتے ہیںکہ اس عرصے میں جسم کے ساتھ ساتھ اس کی دماغی نشوونما بھی ہورہی ہوتی ہے۔
عمر کے اس حصے میں بچے کا ذہن کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے جس پر گھر اور ماحول کے ہر طرح کے اچھے برے، مثبت منفی، اور ضروری غیر ضروری نقوش ثبت ہورہے ہوتے ہیں۔ اس عمر ہی میں بچے کی شخصیت کی بنیاد پڑتی ہے جس پر آئندہ زندگی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ عمارت مضبوط ہو تو ”بچہ“ مثبت، متوازن اور مضبوط شخصیت اور کردار کا حامل بنتا ہے، بصورتِ دیگر کمزور اور غیر متوازن شخصیت کے ساتھ اس کی زندگی ہمیشہ مختلف مسائل کا شکار رہتی ہے۔ غصہ کرنے، چڑچڑا ہونے اور الجھنے کے بجائے خوش دلی کے ساتھ بچے کی اس ”ضرورت“ کو پورا کرنا آپ اور آپ کے بچے کو مسائل سے دور اور زندگی، صحت اور خوشیوں سے قریب تر کرے گا۔
آپ کے بچے کی زندگی کے یہ ابتدائی پانچ چھ سال اس لیے بھی اہم ہیں کہ یہ پلٹ کرنہیں آئیں گے، مگر ان برسوں میں آپ کی جانب سے ہونے والی بے احتیاطی، غفلت اور عدم توجہ کا خمیازہ بچے کو عمر بھر بھگتنا پڑے گا۔
مندرجہ بالا چند باتیں نہ صرف بچوں کی پرورش و تربیت کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، بلکہ بچےکے کسی ذہنی و نفسیاتی، جذباتی و جسمانی یا تعلیمی مسئلے کے بروقت و مناسب حل میں بھی آسانی پیدا کرتی ہیں، اور خود آپ کی شخصیت کی دلکشی، نکھار اور وقار کا باعث بھی بنتی ہیں۔
آپ بھی کوزہ گر کی مانند ہیں۔ جس طرح اُس کے ہاتھ چاک پر رکھی گیلی مٹی کو ذہن میں سوچی گئی چیزوں کی شکل میں مہارت سے گھڑتے چلے جاتے ہیں، بالکل اسی طرح اپنی گود میں پلنے والے گیلی مٹی جیسی بچوں کی شخصیت کو حسین و بےمثال اور باعثِ فخر بنانے میں اپنی پوری جان لگا دیں اور ان کی ذات اور شخصیت میں کسی کمی، خامی یا کجی کو گوارا نہ کریں کہ یہ بچے کا حق اور آپ کا فرض تو ہے ہی، ”ماں“ کے منصبِ جلیلہ کا تقاضا بھی ہے۔
ویڈیو دیکھنے کے لیے کلک کریں!
تربیت اولاد اور حضرت لقمان ؑ کی نصیحتیں
مزید پڑھیں!
https://hijabislami.in/7545/
https://hijabislami.in/7416/