ایک بچے کے لیے ماں کی محبت اور توجہ اتنی ہی بنیادی اور ضروری ہے جتنی کسی پودے کے لیے دھوپ اور پانی۔ کسی بھی ماں کے لیے سب سے پہلی ترجیح اس کے بچے ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایک مخصوص انداز میں ماں پر انحصار کرتے ہیں۔ بچے کے ساتھ گزارے جانے والے وقت کا عرصہ اتنا اہم نہیں جتنا وقت کا مناسب مصرف اور انداز ہے۔ جب کسی کے پاس بچوں کے لیے کم وقت ہو تو اسے میسر وقت کا بہترین استعمال کرنا چاہیے تاکہ بچے مطمئن ہوسکیں۔ بچوں کی تربیت مثال کے ساتھ ہونی چاہیے۔ بچے غیر معمولی طور پر چیزوں کو سمجھنے اور جھوٹ یا بناوٹ کا سراغ لگا نے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر وہ آپ پر اعتماد کرتے ہیں اور آپ کا احترام کرتے ہیں تو وہ چھوٹی سی عمر میں بھی آپ سے تعاون کریں گے۔
والدین اور گھر کے دیگر افراد کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ بچے کے سامنے اچھے کردار کا مظاہرہ کریں تاکہ بچہ عمدہ کردار اور اعلیٰ صفات کا مالک بن جائے۔ والدین کو ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بچہ نقالی میں بڑا ماہر ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ بڑوں کو کرتے ہوئے دیکھتا ہے، ہو بہو وہی کچھ کرنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے ایک اچھے اور شریف خاندان کے بچے عموماً اچھے اور شریف النفس ہوتے ہیں اور برے اور پست خاندان کے بچے عموماً برے اور پست خیالات کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ گھر کی تربیت بچے کی زندگی پر کافی حد تک اثر انداز ہوتی ہے۔ اسی چاردیواری میں اس کی عادتیں بنتی اور سنورتی ہیں اور اسی میں اس کی شخصیت پروان چڑھتی ہے۔ لنکن کا کہنا تھا کہ ’’جو کچھ میں ہوں اور جو کچھ میں ہوں گا، اپنی مشفق اور مہربان ماں کی تربیت کی وجہ سے ہوں اور ہوں گا۔‘‘
انسانی سیرت و کردار کی تعمیر میں بچپن کا زمانہ نہایت اہم مانا گیا ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے، جس میں انسانی عادات و اطوار کی ابتدا ہوتی ہے اور پھر ان کی نشو ونما ہوتی ہے۔ اس نشو ونما کے ساتھ ساتھ جذبات اور احساسات بھی ترقی کرتے ہیں۔ اگر ان تمام کی نشوونما صحیح طور پر کی جائے تو متوازن شخصیت پروان چڑھے گی لیکن ایسی پرورش میں والدین کی تعلیم و تربیت کو کافی دخل حاصل ہے۔
عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ بچہ پانچ سال کی عمر تک بڑی آزادی سے بڑھتا، پھولتا اور نشوونما پاتا ہے۔ جذباتی اور احساساتی لحاظ سے اس پر کسی قسم کی روک ٹوک نہیں ہوتی۔ لیکن جونہی وہ پانچ چھ سال کی عمر کو پہنچتا ہے، اس کی تمام آزادی کا خاتمہ کردیا جاتا ہے۔ اور وہی والدین جنھوں نے اسے ہر قسم کی آزادی دے رکھی تھی اور اسے محبت و شفقت کا مرکز بنایا تھا، اس کی تمام آزادی کو سلب کردیتے ہیں۔ پہلے پہل تو یہ حال ہوتا ہے کہ بچے نے جو کچھ کھانے پینے کو چاہا وہ لاکر حاضر کردیا۔ جس قسم کے کھلونے پسند کیے وہ مہیا کردیے، جس کسی بات پر ضد کی، اسے جھٹ مان لیا۔ غرض یہ کہ بچے کو کسی قسم کی تکلیف میں مبتلا نہ ہونے دیا اور اسے ناز و نعم میں پالتے رہے، لیکن جب بچہ پانچ سال کی عمر میں والدین کے تیور بدلتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کی آرزوؤں اور امنگوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ بچہ مسکراتا ہوا چہرہ دیکھنے کا عادی بن چکا ہوتاہے، اگر اسے لمحہ بھر کے لیے بھی غضب ناک چہرہ نظر آجائے تو چیخنا چلانا شروع کردیتا ہے اور اس وقت تک چیختا چلاتا رہتا ہے، جب تک کہ کوئی دوبارہ اسے مسکراہٹ سے نہ دیکھ لے اور اسے محبت کی آغوش میں نہ لے۔ اسے یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے کوئی ہمدرد اور مونس اس سے روٹھ کر چلا گیا ہے اور اب اس کی جگہ کسی نامہربان اور اجنبی نے لے لی ہے اور اس کا اب دنیا میں کوئی بھی سہارا نہیں رہا۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو تنہا خیال کرنے لگتا ہے۔ ایک ایسے فرد کی مانند جسے نازونعمت سے محروم کردیا گیا ہو، وہ اس ناز و نعمت کے لیے بے قرار رہتا ہے اور اس ہمدردی کا متلاشی ہوتا ہے، جو اسے پہلے نصیب تھی۔ ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے والدین کا یہ فرض ہے کہ وہ بچوں کو آزادی سونپتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں یہ آزادی شتر بے مہار آزادی بن کر بچے کے ذہن پر اثر انداز نہ ہو۔ خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ بچے کو کسی بات کا پابند کرنا ہو تو شروع سے ہی آزادی کچھ احتیاط اور کچھ پابندی کے ساتھ دی جانی چاہیے۔
دورِ حاضر میں اکثر لوگ مطلق آزادی کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جہاں تک ہوسکے بچوں کو آزاد چھوڑ دینا ہی بہتر ہے۔ بالفاظ دیگر بچوں کو لاڈ پیار سے پالنا اور انہیں ہر قسم کے ناز و نعمت سے نوازنا بچے کی شخصیت کو سنوارتا ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر بچے کی ہر خواہش کو پورا نہ کیا گیا تو عین ممکن ہے کہ وہ آئندہ زندگی میں کسی ذہنی الجھن میں مبتلا ہوجائے۔ لیکن جہاں تک نفسیاتی نقطۂ نظر کا تعلق ہے، آزادی کا یہ راستہ بچوں کے ذہن کی متوازن تعمیر کے لیے کسی صورت بھی مفید نہیں ہے، بلکہ مہلک ہے، جہاں تک ہوسکے، والدین کو ایسی آزادی سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔ جن نفسیات دانوں نے مختلف بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی الجھنوں کا مطالعہ کیا ہے، وہ اس بات پر متفق ہیں کہ اکثر بچے اور نوجوان جو الجھنوں میں مبتلا نظر آتے ہیں وہ دراصل بچپن میں اسی بے مہار آزادی کا شکار تھے اور ان کی پرورش بڑی ناز و نعمت میں ہوتی تھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا طریقہ ہے، جس کی مدد سے بچوں کی صحیح اور متوازن پرورش کی جاسکتی ہے اور انہیں معاشرے کا مفید فرد بنایا جاسکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی تر بیت کا دارومدار خود والدین پر ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ والدین نے بچوں کے ساتھ کتنی مناسبت پیدا کررکھی ہے۔
وہ بچوں کی صحیح اور متوازن پرورش کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ایک لائحۂ عمل کے تحت چلنا ہوگا، ایک ایسا لائحۂ عمل جس کی مدد سے بچوں کو صحیح اور مناسب راستے پر گامزن کیا جاسکے۔ جب کبھی وہ آزادی کے مستحق ہوں تو انہیں آزادی دے دی جائے اور جب انہیں کسی بات کاپابند کرنا ہو تو ان کے ساتھ سختی سے پیش آیا جائے۔ یہ نہیں کہ انہیں ہر من مانی کرنے کی آزادی نصیب ہو اور یہ چیز ان کے اخلاق و کردار کو بگاڑ کر رکھ دے۔ جہاں تک اخلاق کو سدھارنے اور ان کی مناسب پرورش کا تعلق ہے، والدین کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ بچوں کی بری عادات کی روک تھام کریں او ران کے لیے معاشرے میں بہتر جگہ پیدا کریں۔ زیادہ لاڈ پیار تو کسی صورت بھی مفید نہیں، ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار بچے کی ذہنی تعمیر کے لیے مہلک ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو بچے والدین سے والہانہ محبت ہو اور وہ بڑے چاؤ چونچلے سے پلے ہوں، ان کی غیر موجودگی میں اکثر اوقات پریشانی و اضطراب کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ ہر لمحہ انہیں دیکھنے کے متلاشی ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایسے بچوں میں اکثر بے خوابی بھی دیکھنے میں آتی ہے، جس کے باعث وہ روز بروز لاغر ہوتے جاتے ہیں، بھوک غائب ہوجاتی ہے اور وہ گرد وپیش کی کسی چیز میں بھی دلچسپی نہیں لیتے۔ ان کی بیماری کا واحد علاج یہی ہوتا ہے کہ انہیں دوبارہ وہی محبت نصیب ہو، جس سے وہ محروم ہوچکے ہیں۔
اس کے برعکس بچے کے ساتھ بے جا سختی کا برتاؤ بھی اس کی مناسب تربیت کے منافی ہے۔ بچے کو ہر لمحہ جھڑکنے او رمارنے پیٹنے سے اس میں بغض و کینہ کا جذبہ ابھرتا ہے اور وہ ضدی اور ہٹ دھرم بن جاتا ہے اور اکثر اوقات وہ بغاوت پر بھی آمادہ ہوجاتا ہے۔ والدین کی چوری چھپے حکم عدولی کرتا ہے۔ ایسی حالت میں بچے کے بگڑنے کازیادہ احتمال ہے۔ ایسے بچے گھر کے ناسازگار ماحول کے باعث گھر سے باہر ہی وقت گزارنے میں مسرت محسوس کرتے ہیں اور اکثر اوقات وہ بری صحبت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بچے کو مناسب محبت کے برتاؤ کی بدولت کسی بھی بات پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر آپ ایک بچے کو اپنی شفقت اور محبت کا سہارا دیتے ہیں تو اس میں تحفظ کا احساس لازماً برقرار رہے گا اور اسے دلی سکون محسوس ہوگا۔ چنانچہ ایسی حالت میں یہ عین ممکن ہے کہ وہ ایسی محبت و شفقت کے عوض آپ کی اس بات کو بھی ماننے کے لیے تیار ہوجائے جو اسے ہرگز پسند نہیں۔ اسے ذاتی مطابقت کا نام دیتے ہیں یعنی بچہ اپنی ذات اور والدین کی ذات میں مطابقت پیدا کرلیتا ہے۔ ان کا ہر حکم مانتا اور ان کی عادات و اطوار کو اپناتا ہے۔
ان تمام باتوں کے علاوہ والدین کا وقتی طور پر جذبات کی رہ میں بہہ جانا بھی مفید نہیں رہتا۔ وقتی خوشی اور جوش کی حالت میں کسی بچے کو مکمل آزادی دے دینا اور اسے کسی بات سے منع نہ کرنا اور دوسرے وقت جب کہ بچہ وہی چیز دہرارہا ہو تو غصے کی حالت میں اسے جھڑکنا اور اسے سزا دینا کسی حالت میں بھی مفید نہیں رہتا، ایسا کرنے سے بچے پر یہ کبھی واضح نہیں ہوتا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔بچہ آواز،بولنے کے انداز اور چہرے کے تاثرات کو پرکھنے کا عادی ہوتا ہے اور اسی پرکھ اور مطالعے کے مطابق اپنا کردار بناتا ہے۔ جب کبھی وہ تضاد دیکھتا ہے تو اسے سخت اضطراب لاحق ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس پر خوف طاری ہوتا ہے اور تحفظ کا احساس بھی جاتا رہتا ہے۔
گھر میں ماں باپ کی ناچاقی اور نااتفاقی بھی بچوں کے لیے مہلک ہے۔ جب کبھی ماں نے بچے کو سرزنش کی اور اسے ٹوکا تو بچے نے چیخنا چلانا شروع کردیا اور باپ کے پاس جاکر آہ و فریاد کی۔ باپ نے اسے فوراً دلاسا دیا اور اسے ہر بری سے بری عادت ڈالنے کی آزادی دے دی اور اس طرح اس کی کسی ضد کو بھی قابلِ اعتناء خیال نہ کیا۔ اسی طرح اگر باپ نے کچھ سختی سے کام لیا تو ماں نے اسے لاڈ پیار سے چھاتی سے لگایا۔ ایسی حالت میں ماں اور باپ کے سلوک میں کافی تفاوت ہوتا ہے۔ جب ایک آدمی گھر میں بچے کے ساتھ سختی سے کام لیتا ہے تو دوسرا اس کی ضد کے باعث محبت و شفقت کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے، جس کا نتیجہ لازماً یہ ہوتا ہے کہ بچے کے ذہن پر یہ چیز گہرے نقوش چھوڑجاتی ہے۔ وہ ایک فرد کو اپنا دشمن اور دوسرے کواپنا ہمدرد اور ساتھی خیال کرنے لگتا ہے۔ چنانچہ وہ دوسرے فرد کے ساتھ اپنی محبت وابستہ کردیتا ہے۔ اس کے نزدیک وہی اس کی محبت کا مرکز اور اس کی امیدوں اور آرزوؤں کا گہوارہ ہوتا ہے۔ اس بات کا آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ نہایت خود سر اور ضدی بن جاتا ہے۔ وہ ہر بات کو منوانے کا عادی بن جاتا ہے، خواہ وہ کتنی ہی ناجائز اور نامناسب کیوں نہ ہو۔ کیونکہ اسے یہ تسلی ہوتی ہے کہ اس کا مونس اور ہمدرد گھر میں موجود ہے، جو اس کی ہر ناجائز بات بھی سننے کے لیے تیار ہے۔ اس کے علاوہ گھر میں والدین کی مسلسل ناچاقی بچے کو ماحول سے بیزار کردیتی ہے۔ وہ گھر سے باہر کی دنیا پسند کرتا ہے۔ چنانچہ ایسے اکثر بچوں کے آوارہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
بچوں کی پرورش کے سلسلے میں والدین کا اہم فریضہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ بچوں کے سامنے کبھی ایسا مظاہرہ نہ کریں جس کے باعث وہ گھر سے باہر بیزاری کا اظہار کرنے لگیں۔ چنانچہ والدین کے تعاون، ہمدردی اور خندہ پیشانی سے یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔
بچہ ابتدائی پانچ سال کے دوران گھر کے ہر فرد کا غائر مطالعہ کرتا ہے اور اس طرح ان کے متعلق اپنی رائے قائم کرلیتا ہے۔ رائے قائم کرنے کے بعد وہ اس کے مطابق اپنا کردار بھی بناتا ہے۔ اگر بچے کو ایسی صورت میں کسی قسم کی رکاوٹ پیش نہ آئے تو وہ ماحول سے جلد مناسبت پیدا کرلیتا ہے۔ اس کے برعکس اگر اسے سازگار حالات میسر نہ ہوں تو وہ ان کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردیتا ہے کیونکہ وہ کسی صورت بھی یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کی خودی کو کسی قسم کی ضرب پہنچے اور وہ قابلِ اعتنا نہ سمجھا جائے۔ اس کالازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ نہایت خود سر اور شرارتی بن جاتا ہے اور ہر بات کے لیے بغاوت پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ آپ نے اکثر گھروں میں والدین کو یہ شکایت کرتے دیکھا ہوگا کہ ہمارا بچہ تو نہایت شرارتی اور خود سر ہے، اس پر کسی قسم کی نصیحت کارگر نہیں ہوتی۔ انہیں اس بات کی بالکل خبر نہیں ہوتی کہ بچے کو دراصل انھوں نے اپنے آپ خود سر بنایا ہے۔ اگر مناسب پرورش کی جاتی تو وہ کبھی ایسے کردار کا مظاہرہ نہ کرتا۔