ماہرینِ نفسیات کے مطابق والدین بچوں کی تربیت کرتے وقت چند ایسی غلطیاں کرجاتے ہیں جن سے بچہ عدمِ تحفظ کا شکار ہوجاتا ہے اور بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ دراصل بچوں کی پرورش ایک لمبا اور صبر آزما کام ہے۔ ان کی صحیح پرورش اور تربیت کے سلسلے میں ماہرین مندرجہ ذیل سادہ اور عام فہم اصول پیش کرتے ہیں:
٭ اکثر دیکھا گیا ہے کہ والدین بچوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اسکول یا کلاس میں نمایاں نمبر حاصل کریں۔ بچے سے کہا جاتا ہے تم ہی کو جماعت میں اول آنا ہے ورنہ مار پڑے گی۔ یہ طریقہ انتہائی نامناسب ہے۔ اس قسم کے جملوں سے بچہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کی رہی سہی صلاحیتیں بھی ختم ہونے لگتی ہیں۔ پڑھائی کے سلسلے میں بچوں پر کبھی شدید دباؤ نہ ڈالیں، البتہ ان کی رہنمائی ضرور کریں۔ بچہ اچھے نمبر لے آئے تو شاباش ضرور دیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے نرمی سے آئندہ مزید اچھے نمبر حاصل کرنے کی تاکید کریں۔ اسے ڈرانے یا دھمکانے کی ہرگز کوشش نہ کریں ورنہ بچہ پڑھائی سے جان چھڑائے گا اور نصابی کتابوں کو چھونے سے گریزکرنے لگے گا۔
٭ بچہ جب بے جا ضد کرنے یا چیخنے چلانے لگے تو ماں دھمکی دیتی ہے کہ اگر وہ رویا تو وہ اسے چھوڑ کر گاؤں یا کسی اور جگہ چلی جائے گی۔ بچے جانتے ہیں کہ وہ اپنے والدین پر کس قدر انحصار کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی پر کتنا یقین رکھتے ہیں، لہٰذا بچے کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ظلم ہے۔
٭ اگر بچے کسی خواہش کے پورا نہ ہونے پر والدین کو دھمکی دیں کہ وہ گھر چھوڑ کر چلے جائیں گے تو ان کا مطلب سچ مچ یہ نہیں ہوتا۔ وہ ایسی بات کرکے محض اپنے والدین کی محبت کاامتحان لیتے ہیں۔ اگر والدین بچے سے کہہ دیں کہ جاتے ہو تو جاؤ تو ایسے جواب پر جانے وہ کیا محسوس کرے۔ شاید وہ سوچے کہ ماں باپ اس سے پیار نہیں کرتے، اس لیے اس کی غیر موجودگی کو محسوس نہیں کریں گے۔ اس صورت حال میں وہ دل برداشتہ ہوکر کوئی بھی قدم اٹھا سکتاہے۔ اگر بچہ گھر سے بھاگ جانے کی دھمکی دیتا ہے تو یہ ماں باپ کی ذمے داری ہے کہ وہ اس دھمکی کی وجہ جانیں۔
٭ بچے کو ماں سے باندھے رکھنا بھی سخت غلطی ہے۔ سمجھدار بچے کو موقع دیجیے کہ وہ اپنے کھلونوں اور کپڑوں کا انتخاب خود کرے۔ اس کو اپنے فیصلے خود کرنے کا موقع دیا جائے تو اس میں خود اعتمادی پیدا ہوگی۔
٭ شدید غصے کی حالت میں اگر بچے کو سزا دینے کا خیال بھی آئے تو اس سے دور ہوجائیے۔ آپ کو چاہیے کہ صبر سے کام لیں۔ سخت غصے میں آپ بچے کو ضرورت سے زیادہ پیٹ سکتے ہیں، لہٰذا ایسی حالت میں بہتر ہوگا کہ خود کمرے سے باہر چلے جائیں یا اسے کمرے سے باہر نکال دیں۔
٭ کسی محفل میں یا لوگوں کے سامنے بچے کو احمقانہ ناموں سے پکارنے اور سخت سست کہنے سے پرہیز کیجیے اس سے اس کا اعتماد ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے۔ وہ لوگوں کے سامنے شرمندہ ہوتا ہے، اور ان سے میل ملاپ چھوڑ کر پیچھے ہٹنے لگتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی الگ دنیا بسا لیتا ہے۔ سست اور ڈھیلے بچے کا مذاق اڑانے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کیجیے اور اس میں خود اعتمادی پیدا ہونے دیجیے۔
٭ بچے بہت ہوشیار ہوتے ہیں۔ وہ آپ کی غلطیوں سے ناجائز فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ آپ اپنے ساتھی کی برائیاں کرتے ہوئے بچے کو اعتماد میں لینے کی کوشش کبھی نہ کیجیے۔ یہ کہنا کہ تمہاری ماں اچھی نہیں ہے، وہ تمہیں کھانے کو نہیں پوچھتی، تم میرے پاس آجایا کرو، میں تمہیں کھلونے لاکر دوں گا۔ یہ کہنا کہ تمہارا باپ اچھا نہیں ہے، وہ تمہیں بہت مارتا ہے، اس کے پاس نہ جایا کرو… بچوں سے اس قسم کے جملے کہنا انتہائی غلط ہے۔ اس صورت میں دس بارہ برس کا بچہ دونوں کو بآسانی ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا سکتا ہے۔
٭ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو تھوڑی سی ذمے داری ضرور سونپیں۔ ان کے سارے کام خود ہی کرنے کی کوشش نہ کیجیے ورنہ وہ کبھی کوئی کام خود نہ کرسکیں گے۔ بچے کو اپنے کھلونے خود سنبھال کر الماری میں رکھنے کو کہیے۔ وہ اسکول سے آکر اپنے کپڑے تبدیل کرکے خود الماری میں رکھے اور بستے میں کتابیں خود ڈالے۔ یہ والدین کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو خود انحصاری کی ترغیب دیں۔
٭ ایک بچہ جسے معلوم ہوجائے کہ اس کی پیدائش گھر میں غیر اہم تھی،وہ آخری عمر میں شدید مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے اور اپنا غصہ معاشرے پر نکالتا ہے۔ ہمیں اپنے ارد گرد بے شمار ایسے افراد نظر آئیں گے جو کہتے ہیں کہ انہیں گھر میں اہمیت نہیں دی گئی، انہیں کسی اور گھر میں پیدا ہونا چاہیے تھا یا ان کی پیدائش پر خوشی کا اظہار نہیں کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے معاشرے میں لڑکیاں ایسے احساسات لے کر بڑی ہوتی ہیں تو یہ احساس وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ بچے اس کا انتقام اپنے والدین سے لیتے ہیں۔ وہ ضدی، خودسر، بدتمیز اور منہ پھٹ ہوجاتے ہیں اور والدین کو ہر دم زچ کرتے ہیں اور ان کی نافرمانی کرکے خود کو تسکین دیتے ہیں۔ مرد حضرات اس احساس کا انتقام اپنے گھر والوں کے علاوہ معاشرے سے بھی لیتے ہیں۔
٭ اکثر والدین اپنے ہی بچوں میں عادات اور شکل و صورت کا تقابل کرتے ہیں مثلاً سست بچے کو برا بھلا کہا جاتا ہے اور اس کے سامنے ہوشیار بہن بھائی کی تعریف کی جاتی ہے۔ بہن بھائیوں میں اگر کسی کا رنگ گہرا سانولا ہو تو اسے کالے یا کالو کہہ کر بلایا جاتا ہے جس سے بچے کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے یا سانولے بہن بھائیوں میں اگر کوئی بچہ گورا ہو تو وہ ماں باپ کا لاڈلا بن جاتا ہے جس سے باقی بہن بھائیوں میں اس کے لیے نفرت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ بچوں میں شکل و صورت کا امتیاز سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ والدین اس غلطی پر لاعلم ضرور ہوں گے لیکن بچہ ساری عمر سلگتا رہے گا اور اس کا والدین کے ساتھ تعلق ادھیڑ عمری میں متاثر ہوگا۔ ایک چھ سالہ بچے نے اپنے دو سالہ بھائی کی آنکھوں میں چھری گھونپ دی۔ بچے سے یہ جرم اس لیے سرزد ہوا کہ ننھے بچے کی خوبصورت آنکھوں کی ہر جگہ تعریف کی جاتی تھی، جس سے بڑا بچہ حسد کی لپیٹ میں آگیا اور چھوٹے بھائی کی آنکھوں کی خوبصورتی کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔
٭ پیشے کا چناؤ آپ کا کام نہیں، بچے کا مسئلہ ہے۔ اول تو آپ شاید اس میں کامیاب نہ ہوسکیں، دوم یہ کہ وہ ساری زندگی آپ کو اس کی سزا دیتے ہوئے کھنچاؤ کا شکار رہے گا۔ والدین جس بچے کا پیشہ خود منتخب کرتے ہیں جبکہ بچہ اسے پسند نہ کرتا ہو تو وہ ساری عمر اس بات پر سخت ناراض رہے گا کہ انھوں نے اس پیشے میں زبردستی اسے دھکیل دیا تھا۔ بچہ انجینئر بننا چاہتا ہے تو والدین اسے ڈاکٹر بنانے پر تل جاتے ہیں کہ یہ ہمارا خواب ہے جو تمہیں ہر صورت میں پورا کرنا ہے۔ بچے کا ذہن اس طرف مائل نہیں ہوپاتا اور وہ مسلسل فیل ہوتا جاتا ہے۔ گھر والوں کی ڈانٹ پھٹکار اسے سخت ذہنی دباؤ میں دھکیل دیتی ہے۔ بعض سخت گیر والدین بچے کو ناخوش دیکھ کر بھی اپنا رویہ نہیں بدلتے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچے کا فطری رجحان پیش نظر رکھتے ہوئے اس کو خود موقع دیں کہ وہ آئندہ زندگی میں کیا پیشہ اختیار کرنا چاہے گا۔ اپنے بچے میں خود اعتمادی پیدا کیجیے اور اسے معاشرے کا ایک مفید اور کارآمد فرد بننے دیجیے۔
——