بچے کے رویہ کو جانئے!

مریم جمال

کسی گھر میں بچے کی پیدائش خوشیوں کی بہار لے کر آتی ہے۔ پیدائش کے وقت بچے کیلیے یہ دنیا انوکھی اور الجھنوں سے بھری ہوتی ہے۔ دھیرے دھیرے بچہ اپنے آس پاس کے ماحول سے ہم آہنگی بنانا شروع کردیتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ اس دنیا اور اسکے ماحول سے بالکل ہم آہنگ ہوجاتا ہے ۔ بچے چونکہ بول نہیں سکتے اور کسی کو متوجہ کرکے اپنی ضرورت بتا نہیں سکتے اس لیے اللہ تعالیٰ نے رونا ہی ان کی زبان بنایا ہے۔ ایک عرصہ تک وہ اپنی ضروریات کی تکمیل اور توجہ کے لیے رونا ہی استعمال کرتے ہیں۔ اکیلے پن کا احساس ہے تو رونا، پیشاب کرنے کے بعد کپڑے اوربستر بدلوانے ہیں تو رونا۔ یہی ان کی زبان ہوتی ہے۔ کچھ اور بڑے ہوکر بچے ضد اور ہٹ دھرمی اور چیخ و پکار کا استعمال کرکے ماں باپ اور اہل خانہ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بس یہیں سے مشکلات اور اندیشوں کی شروعات ہوتی ہے۔ اگر یہ کیفیت معمولی اور عام درجہ کی ہے تو کوئی فکر اور تشویش کی بات نہیں مگر جب بچہ آپ کی بات بالکل نہ سنے، بات بات پر یا بلاوجہ زور زور سے چلائے تو آپ کو ہوشیار اور بیدار ہوجانا چاہیے کہ کہیں ایسا اس وجہ سے تو نہیں ہے کہ وہ آپ کی توجہ اس طریقے سے اپنی طرف مبذول کرانا چاہتا ہے۔ طبی نفسیات کی اصطلاح میں اسے اے ڈی ایچ ڈی (اٹنشن ڈِفسِٹ ہائپر ایکٹیو) کہتے ہیں۔ یہ اصل میں ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے جو بچوں ہی میں نہیں بڑوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس کیفیت کو بہ آسانی پہچانا جاسکتا ہے اور ہر سال ۳ سے ۵ فیصد بچے اس کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں میں جن کے والدین کام کاجی ہیں اس کیفیت کا پایا جانا زیادہ ممکن ہوتا ہے اور یہ کیفیت لڑکیوں کے مقابلے لڑکوں میں نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے۔

بہت زیادہ شرارت پسند اور چنچل ہونا، معمولی باتوں پر بلا وجہ رونا، چلانا، بڑوں کی باتوں کو نہ ماننا، ضد و ہٹ دھرمی، روز مرہ کے کاموں کو نہ کرپانا اور کلاس میں پچھڑا ہوا ہونا وغیرہ اے ڈی ایچ ڈی کی علامات ہیں۔علاج کے طور پر نفسیاتی اور تعلیمی توجہ کے ساتھ ساتھ بچے کے عام برتاؤ کو معاشرتی زندگی سے ہم آہنگ کرنا ہی کارگر نسخہ ہے۔ ایسے بچے کے ساتھ بڑے صبر و تحمل کا معاملہ کرنا چاہیے۔ اسی کے ساتھ بچے کے معمولات اور سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ بچے عمر کے ساتھ ساتھ اپنے رویوں میں بھی مناسبت پیدا کرتے چلے جاتے ہیں اوریہ سیکھ جاتے ہیں کہ انہیں کس طرح رہنا چاہیے اور کس کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے۔ لیکن جو بچے ای ڈی ایچ ڈی کا شکار ہوتے ہیں ان کے لیے یہ سیکھنے کا عمل دشوار ہوتا ہے اس لیے ان کے ساتھ ماں باپ اور رشتہ داروں کو خاص صبر و تحمل اور توجہ سے بھر پور برتاؤ اختیار کرنا چاہیے۔

اگر بچہ تمام شرارتوں اور پریشانی کا سبب بننے والی حرکات کے ساتھ ساتھ کچھ اچھے کام انجام دیتا ہے یا کوئی ایسا عمل کرتا ہے جو بچے کے علاوہ اوروں کے لیے بھی مفید ہو تو ایسے کاموں پر اس کی تعریف و ستائش کی جائے بلکہ اگر ممکن ہو تو کوئی انعام، خواہ وہ بہت معمولی ہی ہو دیا جائے تو یہ اسے اپنے رویہ کو بہتر بنانے میں مدد دے گا۔ اسی طرح بچے کو مطلوب برتاؤ پر آمادہ کرنے اور اس کی تربیت دیتے وقت ستائش اور انعام بہت کارگرچیز ہے۔ اسی طرح تعلیم کے سلسلے میں کلاس میں اچھی کارکردگی پر بھی ضرور انعام دیا جانا چاہیے۔ ایسی صورت میں بہتر بات یہ ہے کہ اسکول کی ٹیچر کو بچے کی اس نفسیاتی کیفیت سے آگاہ کردیا جائے تاکہ وہ بھی بچے کے لیے عام رویہ سے ہٹ کر کچھ خاص رویہ اختیار کرے اور مختلف طریقے سے اس کے برتاؤ میں اصلاح اور تعلیمی بہتری کی کوشش کرسکے۔

اس کے علاوہ درج ذیل باتوں پر توجہ دی جائے:

٭ ایک ایسا ماحول بنائیں جو ہنگاموں سے الگ ہو اور بچے کو سکون مل سکے۔

٭ پڑھائی اور ہوم ورک کے لیے ایک وقت متعین کرلیں اور اس کی سختی سے پابندی کریں۔

٭ پڑھائی اور ہوم ورک کے لیے متوجہ کریں مگر اس کا کام اسی کو کرنے دیں نہ کہ خود کریں۔

٭ بچے کو ہر اچھے کام اور کامیابی پر انعام و ستائش سے نوازیں تاکہ وہ اور آگے بڑھے۔

٭ باتیں سمجھانے کے لیے مثالوں اور تجربوں کا استعمال کریں۔

اگر ان باتوں پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ بچے کے برتاؤ اور حرکات پر مسلسل نظر رکھی جائے اور صبر و تحمل کے ساتھ بچے سے نرمی اور محبت کا برتاؤ کیا جائے تو بہت جلد بچے کو اس نفسیاتی کیفیت سے نکالا جاسکتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں