بچے کے والدین

عائشہ مجید انصاری

بچوں کی پرورش اور ان کی مناسب تربیت والدین کے لیے نہایت صبر آزما کام ہے۔ بچے ذہین، نرم خو، ایماندار اور با اخلاق ہوں تو اس کا سہرا والدین کے سربندھتا ہے۔ وہ خطا کار، بداخلاق اور نالائق ہوں تو اس کا ذمہ دار بھی والدین ہی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ کسی بھی خاندان میں والدین اور بچوں کے درمیان تعلق کو نہایت اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ یہی تعلق، اچھا ہو یا برا، بچے کی زندگی پر اثر انداز رہتا ہے۔
جوان بچوں کو خود اعتماد، ہمدرد اور خود انحصار بنانے میں والدین اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ان کی تربیت کے معاملے میں والدین کی محبت اور شفقت کو ماہرین نفسیات بہت اہمیت دیتے ہیں۔
تمام والدین اپنے بچوں کے بارے میں ایک تصور قائم کرلیتے ہیں کہ بچوں کو کیسا ہونا چاہیے، جب وہ بڑے ہوں گے تو ان کو کیسی تعلیم دی جائے اور ان کے اخلاق و کردار کیسے ہوں۔ والدین اپنا مقصد سامنے رکھ کر بچوں پر طرح طرح کے طریقے آزماتے ہیں۔ وہ بچوں کوڈانٹتے اور انہیں سزائیں دیتے ہیں، خود کو مثالی کردار بناکر پیش کرتے ہیں اور اپنی امیدوں اور عقائد کو بیان کرتے ہیں اور اس سلسلے میں عزیزوں، دوستوں، ہمسایوں کی مدد حاصل کرتے ہیں کہ وہ ان کے اقدار ومقاصد کی تائید کریں۔
ذیل میںوالدین کی چند اقسام بیان کی جارہی ہیں۔ آپ دیکھیں کہ آپ کا شمار کس قسم کے والدین میں ہوتا ہے…
تحکم پسند والدین
ایسے والدین اپنے اصولوں کی وجہ بیان کرنے کا تکلف نہیں کرتے۔ وہ بچوں سے توقع رکھتے ہیں کہ بچے ان کی باتیں بلا چون و چار مان لیں اور سوال نہ کریں۔ ایسے والدین تفصیلات میں جانے اور بحث کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک بچوں کو تفصیلات بتانا یا ان سے بحث و مباحثہ کرنا ان کے رعب اور دبدبے کو کم کردے گا۔ ایک غلطی ان والدین سے یہ ہوتی ہے کہ وہ اختلاف کو دبا تو سکتے ہیں لیکن اسے ختم نہیں کرسکتے۔ اس طرح وہ بچے میں کڑوے احساسات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ایسے والدین کے بچے میں خود انحصاری کا فقدان ہوتا ہے اور وہ خود سوچنے اور اس پر عمل کرنے میں کم دھیان دیتا ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے اپنے خیالات کو آزمانے کا مناسب موقع نہیں دیا جاتا اور انفرادی ذمہ داری سے دور رکھا جاتا ہے کیونکہ اس کے خیالات اور مشورے کو خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ اسے ویسا ہی کرنا ہے جیسا اس کے والدین نے حکم دیا ہے۔ اس طرح بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہی نہیں ہوسکتی اور وہ ساری عمر سہارے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ خود فیصلے نہیں کرپاتے اور نقصان اٹھاتے ہیں۔
یہ والدین اپنی قوت اور زبردستی نافذ کیے ہوئے نظم و ضبط پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کے ساتھ درشتی اور سرد مہری سے پیش آتے ہیں اور بچوں کی دست گیری میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا۔ ایسے والدین کو انتہائی حاکمانہ کہا گیا ہے کیونکہ بچوں پر ان کی گرفت مضبوط اور طاقت کا استعمال زیادہ ہے۔ اور بچوں کی اس بات پر قطعی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی کہ وہ والدین پر ناراضی یا رائے زنی کرسکیں، حالانکہ اگر بچوں کو اس بات کا موقع دیا جائے تو ان کی شخصیت میں نکھار آجاتا ہے۔
جمہوریت پسند والدین
یہ والدین بچوں سے گھلے ملے ہوتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بچوں سے خود اعتمادی اور نظم و ضبط کی توقع رکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ والدین بچوں کے مشوروں کو ٹھیک جانتے ہیں، مگر اس کے باوجود اپنی جگہ پر قائم رہتے ہیں اور ان کی رہنمائی کرتے ہوئے اپنے دلائل پیش کرتے ہیں اور بچوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس پر عمل کریں۔ والدین کی بچوں پر گرفت بھی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ ان والدین کے بچے سمجھدار اور مستعد ہوتے ہیں کیونکہ انہیں والدین کی رہنمائی اور شفقت حاصل ہوتی ہے، لیکن غلط بات اور غلط کام پر سرزنش پر وہ مضطرب نہیں ہوتے۔ ایسے والدین کو عموماً پسند کیا جاتا ہے کیونکہ وہ بچے کی بھلائی کو مدنظر رکھتے ہیں۔ جب بچے کو کسی کام سے منع کرتے ہیں تو اس کی وجہ بھی بیان کرتے ہیں۔
قنوطیت پسند والدین
تیسری قسم ایسے والدین کی ہے، جن کے بچے بہت ہی ناسمجھ ہوتے ہیں۔ ایسے والدین کا بچوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔ نہ ہی وہ بچوں سے کسی قسم کی امیدیں وابستہ کرتے ہیں۔ وہ گھر کے امور سنبھالنے میں بھی عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔نظم و ضبط میں ڈھیلے اور بچوں کو شاباشی دینے میں انتہائی کنجوس ثابت ہوتے ہیں۔ بچوں میں اچھی سوچ پیدا کرنے اور ان میں خود اعتمادی پیدا کرنے پر کم توجہ دیتے ہیں۔ بچوں کو بدتمیزی پر کم یا کبھی کبھار ٹوکتے ہیں۔ ایسے والدین بچوں پر پابندیاں عائد نہیں کرتے۔ بچے شور مچائیں، یہ توجہ نہیں دیتے اور نہ انہیں کسی کھیل یا اچھل کود پر منع کرتے ہیں جس سے گھر کی اشیا ٹوٹنے کا احتمال ہو۔ وہ گھر یا بچوں کی صفائی پر بھی دھیان نہیں دیتے۔ نہ ہی بچوں کو فرمانبرداری کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک گندا رہنا، بدتمیزی کرنا اور توڑ پھوڑ کرنا معمولی بات ہے۔ ان کے نزدیک بچوں کو کھلی اجازت ہے کہ وہ جس قسم کا چاہیں کھیل کھیلیں یاگالی گلوچ کریں۔ ایسے ہی ایک والد سے سوال کیا گیا کہ وہ بچوں کو ٹوکتا ہے یا نہیں؟ اس نے جواب دیا کہ ’’بچوں کو اس وقت ٹوکا جاتا ہے جب شور ناقابل بردار ہو یا بچے آپس میں لڑیں اور لڑائی یہاں تک پہنچ جائے جس میں کسی کو سخت چوٹ لگنے کا اندیشہ ہو۔‘‘ میں بچوں کو مارتا نہیں، میرے نزدیک ان کی لڑائی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اگر بچے لڑتے ہوئے چھری چاقو اٹھا لیں تو میں درمیان میںآجاتا ہوں۔ انہیں روکتا ہوں۔ میں نے اکثر احساس دلائے بغیر انہیں چیک کیا ہے، وہ اپنے مسائل خود ہی نبٹا لیتے ہیں۔
ایسے والدین بے حد سست ہوتے ہیں اور بچوں کو اپنے فیصلے خود کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ بچوں کی رہنمائی میں عدم دلچسپی، ان کی تربیت میں بے توجہی بچوں میں کتنے خطرناک اثرات مرتب کرتی ہے، اس سے وہ آگاہ ہوتے ہوئے بھی ڈھیلے پڑے رہتے ہیں۔
دشنام طراز والدین
بچوں کو گالیاں دینے والے اکثر والدین کا تعلق زیادہ تر نچلے طبقے سے ہوتا ہے، لیکن درمیانے طبقے والے بھی اس سے جدا نہیں ہیں۔ ادھیڑ عمر ماؤں کی نسبت نوجوان مائیں بچوں کو زیادہ برا بھلا کہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو پیٹتے یا زخمی کیوں کرتے ہیں؟ جب والدین یہ خیال کرلیں کہ گھر میں نظم و ضبط کو قائم رکھنے کے لیے بچوں کو زخمی کرنا قابلِ قبول ہے تو ان کے لیے بچوں کے ساتھ غلط برتاؤ کی حد کو پار کرنا قدرے آسان ہوجاتا ہے۔
ان گھروں میں جہاں بچوں کو مارا پیٹا جاتا ہے، وہاں میاں بیوی کے درمیان جھگڑا عام ہے۔ اپنے ساتھی کا غصہ معصوم بچے پر اتارا جاتا ہے۔ مزید برآں اس گھر کے بچے بھی آپس میں اکثر لڑائی جھگڑے اور تشدد میں مشغول رہتے ہیں۔ ایسے والدین خود بھی معاشرے سے کٹ جاتے ہیں اور بچوں کو بھی دوسروں سے میل جول بڑھانے سے روک دیتے ہیں اور انہیں گھر تک محدود کردیتے ہیں۔ معاشرے سے دوری اور غربت اس قسم کے والدین کو خاندان، دوست احباب اور معاشرتی ذرائع سے دور رہنے پر مجبور کرتی ہے۔
والدین پر ذہنی دباؤ معاشرتی وجوہات مثلاً کم آمدنی یا بے روزگاری سے بھی ہوسکتا ہے اور یہی ذہنی دباؤ بچوں سے برا سلوک کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اکثر گھرانوں میں تمام بچوں میں سے کسی ایک بچے پر کچھ زیادہ ہی تشدد کیا جاتا ہے۔ ایسے بچے جو زیادہ اچھل کود مچاتے ہوں یا زیادہ بدتمیز ہوں وہ والدین کے تشدد کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ والدین کے لیے پریشانی کا باعث ہوتے ہیں۔
جو بچے گھر میں والدین کی گالیوں کا شکار رہتے ہیں، انہیں کسی پر بھی اعتبار نہیں رہتا۔ انہیں ہر کسی سے جذباتی تعلقات قائم کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ وہ محبت اور توجہ کے شدید طالب ہوتے ہیں۔ جب وہ کسی سے معاشرتی تعلق قائم کرتے ہیں تو وہ ذرا سی ناامیدی پر بے اعتمادی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اگر چہ وہ والدین کی اس خراب عادت کو قبول کرلیتے ہیں، تب بھی وہ ان کی عدم توجہی پر ان سے شدید نفرت کرنے لگتے ہیں۔ گھر سے بھاگے ہوئے بچوں کے پیچھے ایسے ہی والدین کا رویہ کارفرما ہوتا ہے۔
والدین کی ان بڑی اقسام کے علاوہ چند اور چھوٹی اقسام ہیں۔ ان میں اول وہ والدین ہیں جو بچوں سے محبت کا اظہار مختلف ذرائع سے کرتے ہیں اور اس کا انحصار خود والدین کی اپنی شخصیت پر ہوتاہے۔ ایسے والدین سمجھتے ہیں کہ ان کے بچوں میں بہت سی مثبت صلاحیتیں ہیں۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ رہنے میں لطف محسوس کرتے ہیں۔ضروری نہیں کہ وہ بچوں سے محبت کا اظہار انہیں گلے لگا کر یا چوم کر کریں بلکہ بچوں پر والہانہ نظر اور بھر پوریہ فخریہ مسکراہٹ ہی ان کے لیے کافی ہے۔ جو والدین بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں، وہ بچوں کے ساتھ رہنا بھی پسند کرتے ہیں اور ان کی اچھی عادات کی تعریف بھی کرتے ہیں۔
دوسری قسم والدین کی وہ ہے جو تحکم پسند والدین سے قدرے مشترک ہیں سوائے اس کے کہ ان کو ان کے بچوں پر کنٹرول کی حیثیت سے نہیں دیکھا جاسکتا کیونکہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کا بچوں پر کنٹرول ہے، لیکن وہ اس کو کم ہی ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے بچے والدین کے دباؤ کے بغیر ہی جیسا والدین چاہتے ہیں ویسا ہی کرتے ہیں۔ ایسے گھرانوںکی لڑکیوں کو بھی فکر و سوچ کی آزادی دی جاتی ہے۔
تحکم پسند والدین اور جمہوریت پسند والدین دونوں ہی بچوں پر کنٹرول کے حق میں ہیں، لیکن ان کے طریقہ کار قطعی مختلف ہیں۔ پہلی قسم کے والدین فرمانبرداری کی توقع رکھتے ہیں، وہ بھی اپنے سخت رویے کے جواب میں۔ جبکہ دوسری قسم کے والدین بچوں کے نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ بھی اپنے مشورے پیش کرسکتے ہیں۔ بچے والدین کے قائم کردہ اصولوں پر سوال اٹھا سکتے ہیں اور خاندان کے آپس کے تعلقات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک نفسیات دان نے نہایت دلچسپ بات کہی ہے کہ جمہوریت پسند والدین کے بچے اول قسم کے بچوں کی نسبت اپنے والدین پر کنٹرول حاصل کرلیتے ہیں۔ جمہوریت پسند والدین کو دوسری اقسام کے والدین کی نسبت اپنے بچوں کی تربیت پر اعتماد ہوتا ہے۔
اکثر گھرانوں میں والد کا رویہ بچوں سے سخت اور والدہ کا رویہ نرم ہوتا ہے۔ اگر والدہ کا رویہ سخت ہو تو والد نرم پڑجاتا ہے۔ اگر دونوں والدین ہی سخت یادونوں ہی لا پرواہ ہوں تو ان کے بچوں کو کارآمد شہری بنانے میں یقینا کسی تیسرے فرد کا ہاتھ ہوتا ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں