ہمارے زمانے کے بچے بڑے ذھین ہوشیا اور تخلیقی صلاحیتوں کے مالک نظر آرہے ہیں، لیکن خاص بات یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی بچوں کی غیر معمولی شخصیت سامنے آتی ہے۔ اس میں لازماً والدین کی سنجیدگی ان کی تربیت اور یکسوئی کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ اس کی بہترین مثال ہمیں ملتی ہے اقصیٰ ندیم اور ان کے گھرانے سے ۔ اقصیٰ ندیم، جن کی عمر محض گیارہ سال ہے وہ ایک ماہنامے کی مدیرہ ہیں۔ والدین کے لیے یہ خصوصی تذکر اس لیے ہے کہ وہ اس انوکھی کوشش کو دیکھ کر تربیت و تعلیم کے لیے گوشوں اور جہتوں سے آشنا ہوں۔
آئیے ماہنامہ ’تتلیاں‘ کی مدیرہ، اقصیٰ ندیم سے ملیے۔ اس جریدے میں آپ کو ہر چیز ملے گی مثلاً کہانیاں، لطیفے، ہنڈکلیا، معلومات اور تو اور مشورہ کا کالم بھی موجود ہے۔ گیارہ سالہ اقصیٰ ندیم تین بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی اور ایک اسکول میں چھٹی جماعت کی طالبہ ہیں۔ والدہ معلمہ ہیں جبکہ والد مقامی ادارے میں سیکورٹی افسر ہیں۔
ایک سال پیشتر اقصیٰ نے اپنے ماہنامے کا اجرا کیا تھا۔ شروع میں اس کا نام ’کم ہنر‘ رکھا گیا۔ تب جریدے کے واحد قاری اقصیٰ کے نانا ڈاکٹر آصف مرزا تھے جو خود بھی منفرد شخصیت کے مالک ہیں۔ ماہنامے کی قیمت دس روپے مقرر ہوئی۔ اکلوتے قاری صاحب نے نہ صرف باقاعدگی سے رسالہ خریدا بلکہ مدیرہ کی حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے۔ والدین اور بہن بھائی بھی مدد گار بنے۔ کچھ عرصے بعد ’قارئین‘ کے مشورے سے رسالے کا نام بدل کر ’’تتلیاں‘‘ رکھا گیا، اب خوشبو کی طرح اس کی شہرت پھیلنے لگی۔
اس وقت رسالے کے دس عدد خریدار ہیں۔ حالانکہ کاغذ کی گرانی اور دیگر وجوہ کی بنا پر قیمت بڑھ کر پندرہ روپے ہوچکی ہے۔ جریدہ کبھی دیر سویر سے آئے تو اداریے میں وضاحت دی جاتی ہے۔ مثلاً مدیرہ کے امتحانات کے باعث ماہنامہ وقت پر نہیں آسکا جس کے لیے ادارہ معذرت خواہ ہے۔ یا مدیرہ صاحبہ بیمار تھیں۔ شکایات اور تجاویز مدیرہ کے پتے پر ارسال کی جاسکتی ہیں۔ ان پر خاطر خواہ عمل ہوتا ہے۔
ماہنامہ کاپی کے صفحات پر ہاتھ سے لکھ کر مرتب کیا جاتا ہے۔ پھر مانگ کے مطابق اس کی نقول کروائی جاتی ہیں۔ رسالے کی خاص الخاص بات یہ ہے کہ اس کا عملہ فردِ واحد پر مشتمل ہے یعنی اقصیٰ ندیم جو ’تتلیاں‘ کی ترتیب و تزئین، مواد کے انتخاب اور معیار کی ذمہ دار ہیں، وہ اپنی ذمے داری عمدہ طریقے سے نبھارہی ہیں۔ تتلیاں کا معیار بچوں کے کسی بھی ماہنامے سے کم نہیں۔ ان کی ادارتی گرفت کسی تجربہ کار مدیر کی طرح مضبوط ہے۔ کسی بھی طرح یہ احسا س نہیں ہوتا کہ یہ رسالہ چھٹی جماعت کی گیارہ سالہ طالبہ کا مرتب کردہ ہے۔
ہم نے اقصیٰ سے پوچھا کہ آپ کو یہ ماہنامہ نکالنے کا خیال کیسے آیا؟ انھوں نے بتایا کہ جب وہ تیسری جماعت میں تھیں تو کہانیاں لکھتی اور رسالے پڑھتی تھیں۔ تب اس کا دل بہت چاہتا کہ اس کی بھی کوئی کہانی شائع ہو، لیکن انھیں یہ علم نہ تھاکہ کہانی کیسے چھپوائیں لہٰذا اسی شوق میں انھوں نے اپنا رسالہ نکال لیا۔ مطالعے اور لکھنے کا جنون عمر کے ساتھ ساتھ بڑھا تو رسالہ بھی بہتر شکل اختیار کرتا گیا۔ شروع میں وہ خود ہی مدیرہ اور اکلوتی قاری تھیں۔ پچھلے سال، جنوری کا شمارہ ان کے نانا، ڈاکٹر آصف مرزا نے دیکھااور پڑھا تو بہت حیران اور خوش ہوئے۔ انھوں نے فوراً دس روپے ادا کرکے وہ رسالہ خرید لیا۔
اولین خریدار نے ترویج و اشاعت میں بھی حصہ لیا۔ اب اقصیٰ کی ہم جماعت سہیلیاں اس سے رسالہ مانگ کر پڑھتی ہیں۔ تاہم اس نے اپنی اساتذہ کو جریدے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ اقصیٰ کی والدہ نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بتایا ’’ہم میاں بیوی شروع سے مطالعے کے عادی ہیں۔ کتب و رسائل کا مطالعہ ہمارا خاندانی مشغلہ ہے اور یہی عادت ہمارے بچوں میں بھی منتقل ہوئی۔ اقصیٰ کی یہ کاوش مطالعے کی رہین منت ہے۔‘‘
اقصیٰ کے والد نے بتایا ’’ہم خود اپنی بچی کی اتنی عمدہ کوشش پر حیران ہیں۔ مطالعے کے قدرتی شوق نے اسے رسالہ نکالنے کا ڈھنگ سکھلایا۔ ہم سب گھر والے اس کی مدد ضرور کرتے ہیں مثلاً میرا کام رسالے کی نقول تیار کروانا اور رنگین پنسلیں، کاغذ، ربر، پنسل وغیرہ فراہم کرنا ہے۔ بڑی بہن رسالے کو سجاتی یعنی مصوری کرتی ہے، بھائی کی شاعری چھپتی ہے، والدہ، مشورہ کا کالم تیار کرتی ہیں۔ لیکن ہم سب کا مواد کے انتخاب اور تدوین سے کوئی واسطہ نہیں، یہ سارا کام اقصیٰ خود ہی کرتی ہیں۔‘‘
اس موقع پر اقصیٰ کے والدین ہم زبان ہوکر کہنے لگے : ’’بعض اوقات ہم اس کی باتیں سن کر حیران رہ جاتے ہیں۔ وہ اتنے ثقیل جملے بولتی ہے کہ ہم سمجھ نہیں پاتے۔ ہمیں اپنی بیٹی پر فخر ہے۔‘‘
اقصیٰ کے والد نے مزید بتایا: ’’میرے تینوں بچے ہمیشہ اپنی جماعت میں نمایاں مقام حاصل کرتے ہیں۔ میں نے ملازمت کے سلسلے میں کافی عرصے گھر سے باہر گزارا ہے۔ یہ ان کی والدہ کی ہمت تھی کہ انھوں نے ملازمت کے ساتھ ساتھ بچوں کی اتنی اچھی تربیت کی کہ آج وہ ہماری پہچان بن رہے ہیں۔‘‘
ماہنامہ ’’تتلیاں‘‘ سے انتخاب:
آج چھٹی ہے بچو!
سوال یہ کہ کوئی طالب علم فیل کیوں ہوتا ہے؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے:
٭ سال کے ۳۶۵ دنوں میں اتوار کے ۴۸ دن آتے ہیں جن میں ہم آرام کرتے ہیں۔ یوں باقی بچے ۳۱۷ دن۔
٭ گرمیوں کی چھٹیاں تقریباً ۵۴ دن کی ہوتی ہیں، اس طرح باقی بچے ۲۶۳ دن۔
٭ ہم روزانہ ۸ گھنٹے سوتے ہیں۔ یہ عرصہ سال میں ۱۲۲ دن بنتا ہے، اب بچے ۱۴۱ دن۔
٭ ایک گھنٹے کے حساب سے روزانہ کھیلنے پر سال کے بنے ۱۵ دن۔ یوں باقی بچے ۱۲۶ دن۔
٭ روزانہ دو گھنٹے کے حساب سے ہم کھانا کھاتے ہیں۔ یہ ہوئے کل ۳۰ دن۔ اس طرح باقی بچے ۹۶ دن۔
٭ سال میں ۱۵ دن ایک گھنٹہ روز کے حساب سے ہم گپ شپ کرنے میں صرف کرتے ہیں، اب باقی بچے ۸۱ دن۔
٭ سال میں ۳۵ دن متفرق امتحانات میں صرف ہوتے ہیں۔ باقی بچے ۴۶ دن۔
٭ ہر سال مختلف تہواروں کے موقع پر بارہ دنوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ یوں باقی بچے ۳۴ دن۔
٭ ہم سال میں اتنی بار بیمار پڑتے ہیں جس سے کل عرصہ بیس دن بن جاتا ہے۔ اس طرح باقی بچے ۱۴ دن ۔
٭ سال میں کم از کم ۱۳ دن ہم مختلف تقریبات میں مشغول رہتے ہیں۔ اب بچا صرف ایک دن۔
٭ یہ اکلوتا دن آپ کی سالگرہ کے لیے مخصوص ہوجاتا ہے۔ (اس لیے آپ کو سالگرہ مبارک ہو)
لیکن نالائقو! کچھ وقت نکال کر پڑھ بھی لیا کرو۔