بچے ہوم ورک کیسے کریں؟

اخذ و ترجمہ: فریدالدین احمد

آخر کیا وجہ ہے کہ عام سی ذہانت والے کچھ بچے اسکول میں اچھے نمبروں سے پاس ہوجاتے ہیں ، جبکہ نسبتاً زیادہ ذہانت رکھنے والے تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں؟

تعلیم اور نفسیات کے بعض ماہرین نے اس سوال کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کی تو فرق ہوم ورک کا نکلا! ثابت ہوا کہ کم ذہین بچے روزانہ اسکول سے گھر کے لیے ملا ہوا کام باقاعدگی سے کرکے جاتے ہیں اور امتحانات میں ذہین بچوں سے کہیں زیادہ نمبر لینے میں کامیاب رہتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بہت سے والدین بچوں کو ’ہوم ورک‘ کرنے کی طرف مائل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ڈانٹ ڈپٹ اور سزا کا خوف باقاعدگی سے ہوم ورک کرنے کی عادت نہیں ڈال سکتا۔ ماہرینِ تعلیم نے تحقیق کے بعد والدین کی رہنمائی کے لیے کچھ اصول وضع کیے ہیں۔ ان پر عمل کرکے بچوں میں ہوم ورک مکمل کرنے کی عادت پختہ کی جاسکتی ہے۔

مناسب ماحول

ہوم ورک سکون سے مکمل کرنے کے لیے پہلی ضرورت مناسب ماحول ہے۔ کسی ہوادار، روشن اور پرسکون جگہ بچے کو میز کرسی مہیا کردیں، بستہ اور کتابیں قریب ہی سلیقے سے رکھنے کی جگہ بنادیں۔ روشنی قدرتی ہو تو بہتر ورنہ ایک ٹیبل لیمپ بچے کی بائیں جانب اس طرح رکھیں کہ روشنی کی چمک کتابوں یا میز کی سطح سے منعکس ہوکر بچے کی آنکھوں پر نہ پڑے۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ میز پر ایک آئینہ رکھ دیں۔ اگر بچے کو آئینے میں لیمپ کا بلب جلتا ہوا نظر نہ آرہا ہو تو روشنی کا زاویہ درست ہے، ورنہ لیمپ آگے پیچھے کرکے روشنی کی صحیح جگہ متعین کریں۔

بچے کا مسئلہ کیا ہے؟

بنیادی انتظامات کے بعد اگر بچہ اسکول کا کام کرنے میں مسلسل ٹال مٹول سے کام لیتا ہے، تو ناراض نہ ہوں، پوری سنجیدگی کے ساتھ اس کی وجوہ کا سراغ لگانے کی کوشش کریں، بچے سے ایک تفصیلی گفتگو کا منصوبہ بنائیں۔ وقت ایسا ہو جب بچہ اسکول کے کام کے بوجھ سے پریشان یا تھکا ہوا نہ ہو۔ اسے خود اپنے بچپن کے واقعات سنائیں، لیکن ڈینگیں نہ ماریں۔ اپنے مسائل بتائیں۔ اس طرح رفتہ رفتہ بچے کو اس کا مسئلہ بیان کرنے کی طرف لائیں۔ جب وہ بات شروع کردے تو آپ غیر جانب داری سے سنیں، بچے یا اس کے استاد کی حمایت نہ کریں۔

بچے کی پوری گفتگو سننے کے بعد غور کریں :

٭ کیا وہ اپنے روز مرہ کے کاموں کی تنظیم اور منصوبہ بندی کی صلاحیت نہیں رکھتا؟

٭ کیا وہ پڑھائی کا بہترین وقت کھیل میں ضائع کردیتا ہے؟

٭ کیا وہ اسکول سے ملنے والے کام کی نوعیت پوری طرح نہیں سمجھتا؟

مسئلے کی نشاندہی ہونے کے بعد اب بچے کے ساتھ مل کر اسے حل کرنے کا منصوبہ بنائیں۔ اسکول سے ملنے والا کام اگر واضح نہیں ، نامناسب یا ناموزوں ہے تو متعلقہ استاد سے ملیں۔ استاد کی رہنمائی اور تعاون سے آپ بہتر راستہ تلاش کرسکیں گے۔ اسکول اور استاد سے آئندہ بھی رابطہ قائم رکھیں۔

بچہ اگر اپنی مصروفیات کی تنظیم اور منصوبہ بندی نہیں کرسکتا تو اسے دن بھر کے تمام کام کاغذ پر لکھ کر انھیں ترتیب دینے کا طریقہ سکھائیں۔ ٹائم ٹیبل بنانے کی عادت ڈالیں جس میں کھیل کا وقت بھی اپنی جگہ موجود ہو۔

بچہ آپ کی مداخلت پسند نہ کرے تو؟

آپ کا شمار اگر ایسے لوگوں میں ہے جو معمولی سے مسئلے کو بھی بڑھا چڑھا کرپیش کرتے ہیں تو ممکن ہے بچہ اپنے کام میں آپ کی مداخلت سے خوش نہ ہو۔ پہلے آپ ضبط وتحمل سے جائزہ لیں کہ مداخلت کی ضرورت ہے بھی یا نہیں؟ اگر بچہ مناسب طریقے سے کام کررہا ہو تو اسے خواہ مخواہ نہ چھیڑیں۔ واقعی ضرورت ہو تو بڑے سلیقے سے دخل دیں۔ بچہ پھر بھی ناگواری محسوس کرے تو پیچھے ہٹ جائیں اور بچے کو صرف اتنا بتادیں کہ جب بھی مدد کی ضرورت ہو آپ موجود اور تیار ہیں۔

بچے کو یہ احساس دلائیں کہ اسکول کا کام مکمل کرنا دراصل خود اس کی ذمے داری ہے، اور آپ صرف اس وقت مدد کریں گے جب بچہ خود آپ سے کہے۔

یہ ترکیب بھی کارگر نہ ہو تو کسی ماہرِ نفسیات سے رجوع کریں، ممکن ہے وجہ بہت گہری ہو اور بروقت تشخیص و علاج بچے کا مستقبل روشن تر کردے۔

اسکول کے کام کے لیے بہترین وقت

اسکول سے آکر کھانا کھانے کے بعد کا وقت بہترین ہے۔ اس وقت میں بچے کی کوئی دلچسپی موجود ہے تو تیسرے پہر کا وقت مناسب ہوگا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس دوران میں بچہ ٹیلی ویژن نہ دیکھے۔ ٹی وی دیکھنے سے آنکھیں تھک جاتی ہیں اور ذہن منتشر ہوجاتا ہے۔ اسکول کا کام بہرحال ٹی وی دیکھنے سے پہلے مکمل ہوجانا چاہیے۔ اسے رات دیر تک ہر گز ملتوی نہیں کرنا چاہیے۔

ہوم ورک کے لیے روزانہ وقت

ماہرین نے مختلف اسکولوں کے تعلیمی معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے اوسط وقت کا ایک اندازہ پیش کیا ہے، تاہم کچھ اسکولوں کی خصوصی ضروریات کے مطابق اس میں معمولی کمی و بیشی کی جاسکتی ہے۔

پہلی سے تیسری جماعت تک- ۳۰ منٹ روزانہ

چوتھی سے چھٹی جماعت تک – ۴۵ منٹ روزانہ

ساتویں سے آٹھویں جماعت تک- ڈیڑھ گھنٹہ روزانہ

نویں سے دسویں جماعت تک – ڈھائی گھنٹے روزانہ

بچہ روزانہ پڑھائی کے لیے اتنا وقت نہیں نکال سکتا تو مطلب یہ ہے کہ اس کی دیگر مصروفیات مناسب حد سے زیادہ ہیں۔ مصروفیات کو ان کی اہمیت کے لحاظ سے ترتیب دینے میں بچے کی مدد کیجیے۔ اسکول کا کام بہر حال سب سے پہلے آنا چاہیے بعد میں نہیں۔ بچے کے مشورے سے کچھ اہم مصروفیات ختم کردیں تاکہ اسے آرام کا بھی مناسب وقت مل سکے۔

کیسے یقین ہو کہ بچہ اسکول کا کام مکمل کرلیتا ہے؟

بچے کو اسکول کا کام ایک نوٹ بک میں لکھنے کی عادت ڈالیں۔کبھی کبھی اس نوٹ بک کو دیکھتے رہیں۔ اسکول ٹیچر سے بھی رابطہ رکھیں۔ وہ آپ کو باخبر رکھے گا کہ بچہ باقاعدگی سے اسکول کا کام کرتا ہے یا نہیں۔

بچہ جب کام کرنے بیٹھے تو ایک ٹائم پیس اس کے قریب رکھ دیں، مقررہ وقت ختم ہوتے ہی الارم بجے تو آپ جائزہ لیں کہ بچے نے کام ختم کرلیا ہے یا نہیں۔ بچے پر نظر رکھیں کہ مقررہ وقت میں وہ پوری توجہ سے صرف اسکول کا کام ہی کرے، درمیان میں توجہ ادھر ادھر ہوگی تو کام وقت کی حد میں ختم نہیں ہوگا۔

کسی دن اگر بچہ کہے کہ اسکول کا کام نہیں ملا، یا اسکول ہی میں کرلیا تھا تو بھی بچے سے کہیں کہ وہ مقررہ وقت پر اپنی میز کرسی پر ضرور بیٹھے اور پڑھے ہوئے اسباق دہرائے۔ روزانہ کام کی عادت ٹوٹنے نہ دیں۔ بعض اوقات اپنی جگہ پر بیٹھتے ہی بچے کو کئی بھولے ہوئے کام یاد آجاتے ہیں۔ بہرحال اہمیت مقررہ وقت میں اپنی جگہ بیٹھ کر کام کرنے کی ہے، جس میں خلل نہیں آنا چاہیے۔

کیا والدین کو بچوں کا اسکول کا کام چیک کرنا چاہیے؟

بچہ اگر درمیانے درجے یا اس سے کم کا طالب علم ہے تو کام ضرور چیک کرنا چاہیے۔ بہت واضح غلطیوں کی اصلاح کرادینی چاہیے، چھوٹی موٹی غلطیوں کو اسی وقت ٹھیک کرنے پر زور نہیں دینا چاہیے۔ گھر کے لیے دیا گیا کام ایک ذریعہ ہے جس سے استاد شاگرد کی کیفیت جانچتا ہے۔ یہ چھوٹی موٹی غلطیاں استاد کو بتاتی ہیں کہ بچے کو کہاں ہدایت اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔

بچے سے اکثر پوچھتے رہیں کہ اسکول کا کام آسان ہے یا مشکل اور اس نے کیا نئی باتیں سیکھیں۔ کسی سبق کو سمجھنے میں کہیں بنیادی غلطی ہو تو اس کی اصلاح کردیں۔ تشریح کرکے اسے سمجھا دیں، کبھی کبھی اسکول میں چیک شدہ کام دیکھیں۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ بچہ کہاں اچھے نمبر لے رہا ہے اور کہاں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔

ایک سست بچے کو کیسے تحریک دی جائے؟

اسکول کا کام کرنے میں ٹال مٹول کرنا ہمیشہ اس بات کی علامت نہیں ہوتا کہ بچہ سست ہے۔ یہ رویہ ناکامی کے خوف یا کم ہمتی کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔

بچہ جب ’تکمیل کار‘ کی خوشی سے آشنا ہوجائے تو اس کی عدم دلچسپی اور سستی ختم ہوجاتی ہے۔ ایسے بچے کو کوئی اچھا کام کرتے دیکھیں تو بے ساختہ داد دیں۔ ایسے بچوں کی اصلاح کا اصول یہ ہے کہ ’’سراہیں، سزا نہ دیں‘‘۔ اس کے کیے ہوئے کسی اچھے کام کو فریم کراکے دیوار پر لٹکائیں، دوسروں کے سامنے اس کے اچھے کام کی تعریف کریں، نمائش کریں۔ اس طرح بچے کا اپنے اوپر اعتماد قائم ہوگا۔ اپنی نظر میں وقار بلند ہوگا اور اس وقار کو قائم رکھنے کے لیے وہ بڑھ چڑھ کر کام کرنے کی کوشش کرے گا۔

بچہ خراب کام کو دوبارہ کرنے سے انکار کرے تو؟

فرض کریں بچے نے تاریخ کی کلاس کے لیے ایک مضمون لکھاہے۔ اس میں جملے بے ترتیب ہیں اور خیال بھی پوری طرح واضح نہیں، لیکن بچے کا خیال ہے کہ اس نے ایک بہت اچھا مضمون لکھ ڈالا ہے۔ اب اس بحث میں پڑنا مناسب نہیں کہ مضمون اچھا ہے یا برا۔ آپ بڑی دانش مندی سے مشورے کے انداز میں بہتر فقرے یا ان کی ترتیب بتادیں۔ آپ دیکھیں گے کہ بچہ تھکا ہونے کے باوجود مضمون کی اصلاح کا کام شروع کردے گا۔

اب ایک اور مثال لیں۔ آپ چوتھی جماعت کے ایک بچے کی املا کا کام دیکھ رہے ہیں۔ تحریر اتنی خراب ہے کہ ہجے درست یا غلط ہونے کا بھی اندازہ نہیں ہورہا۔ آپ بچے سے دوبارہ لکھنے کو کہتے ہیں، لیکن وہ کہتا ہے اس کی کوئی ضرورت نہیں، استاد اسی کو پڑھ لیتا ہے۔ اب آپ کیا کریں گے؟

شگفتہ، مستحکم اور غیر جذباتی رہیں۔ آپ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ کام بالکل خراب ہے اور قبول کرنے کے قابل نہیں۔ لیکن اسے اس طرح کہیں کہ :’’بیٹے یہ کام اتنا اچھا نہیں جتنا آپ کرسکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آپ اسے دوبارہ کرلیں۔‘‘ یہ انداز کسی بدتمیز بچے کو بھی دوبارہ کام کرنے پر مائل کرسکتا ہے۔ اگر بچہ اس طرح بھی اصلاح کی طرف نہ آئے تو اسے خراب کام ہی اسکول لے جانے دیجیے۔ یہ گھر میں محاذ آرائی سے بہتر ہے۔

بعض اوقات بچے کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ وہ کام دوبارہ کیوں کرے اور اس طرح وہ پہلے سے بہتر کیسے ہوجائے گا۔ ایسے موقع پر آپ اس کے الجھے ہوئے جملے اسے سنا کر اس کا نقطۂ نظر معلوم کرنے کی کوشش کریں۔ جب وہ وضاحت کردے تو آپ اس طرح بات شروع کریں: ’’اچھا تو آپ یہ کہنا چاہتے ہیں، تو کیوں نہ اسے یوں کہا جائے…‘‘

مسئلہ اگر بچے کے سیکھنے کی رفتار میں کمی کا ہو تو اس کے استاد سے مشورہ کریں، پوچھیں کہ وہ بچے کی استعداد کے لحاظ سے کس معیار کے کام کی توقع رکھتا ہے اور آپ اس سلسلے میں کیا مدد کرسکتے ہیں، بچے کو لکھنا سیکھنے کے لیے خصوصی تربیت کی ضرورت ہو تو اس کا بھی اہتمام کریں۔

بچے کو توجہ مرکوز کرنے میں دشواری ہو تو؟

مطالعہ کرنے کی جگہ سے توجہ تقسیم و منتشر کرنے والے تمام عوامل ہٹا دیجیے۔ بچے سے کہیے کہ آپ کو یا اپنے کسی بڑے بہن بھائی کو سبق پڑھ کر سنائے۔ کام لمبا ہو تو مشورہ دیجیے کہ بچہ اسے کئی چھوٹے چھوٹے مدارج میں تقسیم کرلے۔ ہر درجے کی تکمیل پر ایک مختصر وقفہ کرے اور پھر کام شروع کردے۔

بچے کو گراف بنانا سکھائیے۔ کام مکمل ہونے کے ساتھ گراف کی بار آگے بڑھتی جائے گی۔ اس سے ذہنی سکون ملتا ہے، اندازہ بھی ہوتا ہے کہ کتنا کام ہوگیا اور کتنا رہ گیا۔

توجہ مرکوز نہ کرسکنے کے پیچھے بعض اوقات کچھ جذباتی مسائل بھی ہوتے ہیں، ایسی صورت میں مناسب مشورے اورعلاج کی ضرورت ہوسکتی ہے۔

(باقی آئندہ)

لاپرواہ اور بے ڈھنگے بچے کی اصلاح کیسے کی جائے؟

کچھ بچے انتہائی لاابالی پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اپنی کوئی چیز سلیقے سے سنبھال کر نہیں رکھتے۔ عین وقت پر ہر چیز ڈھونڈرہے ہوتے ہیں۔ اسکول کا کام نوٹ نہیں کرتے، وقت پر کام کرنا بھول جاتے ہیں اور جواب میں کچھ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ:

٭ میں تو سمجھا تھا کہ یہ کام اگلے ہفتے دکھانا ہے۔

٭ میری سائنس کی کاپی ہی نہیں مل رہی، اب کیا کروں۔

٭ مجھے کل ایک رپورٹ دکھانی ہے، لیکن سمجھ میں نہیں آرہا کہ شروع کہاں سے کروں؟

ایسے بچوں کو کام سلیقے سے کرنے کا عادی بنانا چاہیے۔ ہر مضمون کے لیے ایک فولڈر بنوائیں اور فائلوں کو ترتیب سے رکھنا سکھائیں۔ سلیقہ سکھانے کے لیے آپ کو خود سلیقے کا نمونہ بھی پیش کرنا ہوگا۔ اپنے مطالعے کی جگہ کو مثالی طور پر آراستہ کریں، قلم اور پنسلیں رکھنے کے لیے مناسب قلمدان رکھیں، ہر چیز کی ایک جگہ مقرر کریں۔ بچہ خود بخود بڑے شوق سے اس سلیقے کی نقل کرے گا۔

کسی مناسب جگہ ایک ڈبے یا ریک کا انتظام کریں جہاں بچے اسکول سے آتے ہی اپنا بستہ اور کتابیں وغیرہ یکجا رکھ سکے۔ بچے کو عادت ڈالیں کہ اسکول کا کام مکمل کرتے ہی تمام چیزیں اسی مقررہ جگہ رکھے تاکہ اسکول جاتے وقت کوئی چیز تلاش کرنی نہ پڑے۔

بچہ اگر کسی مضمون کو سمجھنے اور خاص طور سے اس کے اظہار میں دقت محسوس کرتا ہے تو اس سے کہیں کہ جیومٹری کا وہ مسئلہ یا حساب کا سوال وہ آپ کو سمجھائے، یاد کرنے کی چیزیں بھی آپ اس سے بار بار سنیں۔ سمجھانے کی لیے سوچنا پڑتا ہے اور سوچنے کا یہ عمل کے خیالات منظم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہی اچھے اظہار کی بنیاد ہے۔

بچے میں اپنا کام خود کرنے کا اعتماد کیسے پیدا کیا جائے؟

بچہ جب اسکول کا کام کررہا ہو تو اس کے پاس نہ بیٹھیں، بار بار اسے مشورے نہ دیں۔ اگر اسے ہر معاملے میں آپ پر انحصار کرنے کی عادت پڑگئی ہے، ہر وقت آپ سے جڑا رہنا چاہتا ہے تو پڑھائی کے بدلے آپ کھیل کود کا وقت اس کے ساتھ گزارنے کی رسم ڈالیں۔ اس سے کہیں کہ جب آپ اسکول کا کام ختم کرلیں گے تو ہم دونوں مل کر کیرم بورڈ یا بیڈ منٹن وغیرہ کھلیں گے۔ یہ خیال رکھیں کہ یہ پیشکش رشوت کے انداز میں نہ کی جائے، بلکہ خالص دوستانہ رنگ میں ہو۔ ابتدائی اور معمولی مشکلات کے بعد بچہ اپنا کام خود کرنے کا عادی ہوجائے گا، کلاس میں اچھے نمبر ملنے سے اس کے وقار میں اضافہ ہوگا اور پھر یہی اس کے لیے جذبۂ محرکہ ثابت ہوگا۔

بچہ اگر کسی سوال کا حل نہ جانتا ہو؟

کئی مرتبہ ایسے مبہم الجھے ہوئے یا پیچیدہ سوالات سے سامنا ہوجاتا ہے جو بچے کے علاوہ والدین کے لیے بھی بظاہر ناقابلِ فہم ہوتے ہیں، ممکن ہے آپ کا علم زنگ آلود ہوچکا ہو، یا آپ اس مضمون سے سرے ہی سے ناواقف ہوں، لیکن ایسی حالت میں بھی آپ بچے کی مدد کرسکتے ہیں، بچے کو مندرجہ ذیل نکات پر غور کرنے کا مشورہ دیجیے:

٭ کیا وہ سوال یا کام کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھتا ہے اور اسے اپنے الفاظ میں بیان کرسکتا ہے؟ اگر نہیں تو سوال بلند آواز میں پڑھنے کو کہیں اور بچے کے ساتھ خود بھی غور کریں کہ سوال لکھنے والے کے ذہن میں دراصل کیا بات تھی۔

٭ سوال حل کرنے کے تمام مدارج کی ایک فہرست بنالی جائے۔ ایک وقت میں ایک درجہ بالترتیب حل کیا جائے۔ اگر کام لکھنے سے متعلق ہے تو اسی فہرست کو بطور خاکہ استعمال کیا جائے۔

٭ جائزہ لیا جائے کہ کیا کام مکمل کرنے کے بعد تمام لوازمات موجود ہیں۔

٭ کیا بچے کو سوال میں استعمال کیے گئے تمام الفاظ اور اصطلاحات کا مطلب معلوم ہے؟ اگر نہیں تو ڈکشنری دیکھی جائے۔

٭ اگر کتاب میں اسی قسم کی مثالیں موجود ہیں تو انھیں اس سوال کے لیے استعمال کیا جائے۔

٭ اگر جواب درست محسوس نہ ہوتو پورا عمل دوبارہ دیکھا جائے کہ کہیں کوئی مرحلہ رہ تو نہیں گیا یا کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی۔

٭ دیکھا جائے کہ کس مرحلے تک کام درست ہوگیا اور رکاوٹ کہاں سے شروع ہورہی ہے۔

٭ یہ کام کرنے سے پہلے کیا بچے کو اس سے پہلا سبق پڑھنے کی ضرورت ہے؟ اگر بچہ پہلے اسباق سے واقف نہیں تو اس کے استاد سے ملاقات کریں اور مددلیں۔

٭ بچہ بالکل ہی اکتا گیا ہو تو مشورہ دیں کہ کوئی دوسرا کام پہلے مکمل کرلے اور پھر اس مسئلے کی طرف آئے، تھک گیا ہو تو ایک مختصر سا وقفہ کرنے دیں۔ مشورہ دیں کہ اپنے کسی دوست کو فون کرکے مشورہ کرلے۔

ان تمام تدابیر کے بعد بھی مسئلہ حل نہ ہوسکے تو بچے سے کہیں کہ یہ سوال چھوڑ دے اور دوسرے دن اپنے استاد سے سمجھانے کی درخواست کرے۔

ترقی یافتہ مغربی ممالک میں اساتذہ کی ایسی تنظیمیں موجود ہیں جہاں فون کرکے بچہ اپنے تعلیمی مسائل میں رہنمائی حاصل کرسکتا ہے۔ یہ انتظام خصوصاً ایسے بچوں کے لیے بے حد مفید ثابت ہوا ہے جن کی والدہ اور والد دونوں ملازمت کرتے ہیں اور اسکول کا کام بچے کو تنہا کرنا پڑتا ہے۔

ہمارے ملک میں یہ مسئلہ اس شکل میں ہے کہ والدین خود تعلیم یافتہ نہیں ہوتے۔ اسکولوں کی انتظامیہ اور اساتذہ سے مل کر ہمارے ہاں بھی اسکول کے وقت کے بعد فون پر بچوں کی ایسی رہنمائی کے لیے کوئی بندوبست بلا شبہ اچھے نتائج پیدا کرسکتا ہے۔

اسکول کا کام اگر بچے کے لیے ناموزوں محسوس ہو تو؟

اگر آپ دیکھیں کہ اسکول سے گھر کے لیے ملنے والا کام مسلسل بچے کی سمجھ سے باہر، بہت مشکل یا بہت آسان ہے، طویل یا اس کی صلاحیت کے مطابق نہیں تو اس کے استاد سے ملاقات کریں۔ یہ ملاقات آپ کے لیے اطمینان کا باعث ہوگی اور استاد کو بھی اندازہ ہوگا کہ اس کی ہدایات میں کہاں وضاحت کی ضرورت ہے۔ استاد سے ہونے والی گفتگو کو تحریری طور پر محفوظ کرلیں اور پھر بچے کے کام سے اس کے اثرات کا جائزہ لیتے رہیں۔

کچھ والدین بچوں کے اساتذہ سے ملتے ہوئے ہچکچاتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بیشتر اساتذہ ایسے والدین کی قدر کرتے ہیں جو اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور اساتذہ سے رابطے میں رہتے ہیں۔

جب تک مکمل حقائق علم میں نہ آجائیں آپ بچے یا استاد پر ہرگز ناراض نہ ہوں۔ باہمی مشورے کے بعد بچے کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ ضرورت ہو تو کچھ دن کے لیے ٹیوشن کا انتظام کردیں۔ وقتاً فوقتاً امتحانات کے ذریعے اندازہ کریں کہ آپ کا بچہ کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

کوئی استاد اگر غیر لچکدار رویے کا مالک ہو یا تعاون کرنے کو تیار نہ ہو تو ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل سے رابطہ قائم کریں۔ آپ کے علاوہ بھی والدین کو اسی نوعیت کی شکایات ہوں تو ادارے کے سربراہ یا بورڈ آف ڈائریکٹرز سے اجتماعی ملاقات کا اہتمام کریں اور سب مل کر اپنے مسائل بیان کریں۔

معلومات اور اعداد و شمار فوری طور پر کہاں سے آئیں؟

اسکول سے ملنے والے کام کے لیے بعض اوقات مستند اعداد و شمار اور معلومات کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ آپ کے زمانے سے مختلف ہوتے ہیں۔ آپ کسی قریبی لائبریری کے ممبر بنیں، بچے کو ساتھ لے کر لائبریری جائیں۔ اسے کارڈ کیٹیلاگ اور مختلف انڈکسز استعمال کرنے کی تربیت دیں۔ بچے کے اسکول کی لائبریری سے بھی رابطہ رکھیں۔ آپ کو اور بچے کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ لائبریری میں کس قسم کی کتابیں موجود ہیں اور انہیں کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

بجٹ اجازت دے تو ایک اچھا انسائیکلوپیڈیا ضرور خریدیں۔ اچھی کتاب کے مطالعے کا بدل دنیا میں موجود نہیں اور انسائیکلوپیڈیا معلومات کا ایسا خزانہ ہے جو آپ کے ذہن کو اَن گنت موضوعات پر اظہارِ خیال کے قابل بنادیتا ہے۔ اپنے بچے کو اگر آپ حوالے کی کتابیں استعمال کرنے کے قابل بنادیں تو پھر اسے علم کی بلند ترین سطح تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146