لاپرواہ اور بے ڈھنگے بچے کی اصلاح کیسے کی جائے؟
کچھ بچے انتہائی لاابالی پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اپنی کوئی چیز سلیقے سے سنبھال کر نہیں رکھتے۔ عین وقت پر ہر چیز ڈھونڈرہے ہوتے ہیں۔ اسکول کا کام نوٹ نہیں کرتے، وقت پر کام کرنا بھول جاتے ہیں اور جواب میں کچھ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ:
٭ میں تو سمجھا تھا کہ یہ کام اگلے ہفتے دکھانا ہے۔
٭ میری سائنس کی کاپی ہی نہیں مل رہی، اب کیا کروں۔
٭ مجھے کل ایک رپورٹ دکھانی ہے، لیکن سمجھ میں نہیں آرہا کہ شروع کہاں سے کروں؟
ایسے بچوں کو کام سلیقے سے کرنے کا عادی بنانا چاہیے۔ ہر مضمون کے لیے ایک فولڈر بنوائیں اور فائلوں کو ترتیب سے رکھنا سکھائیں۔ سلیقہ سکھانے کے لیے آپ کو خود سلیقے کا نمونہ بھی پیش کرنا ہوگا۔ اپنے مطالعے کی جگہ کو مثالی طور پر آراستہ کریں، قلم اور پنسلیں رکھنے کے لیے مناسب قلمدان رکھیں، ہر چیز کی ایک جگہ مقرر کریں۔ بچہ خود بخود بڑے شوق سے اس سلیقے کی نقل کرے گا۔
کسی مناسب جگہ ایک ڈبے یا ریک کا انتظام کریں جہاں بچے اسکول سے آتے ہی اپنا بستہ اور کتابیں وغیرہ یکجا رکھ سکے۔ بچے کو عادت ڈالیں کہ اسکول کا کام مکمل کرتے ہی تمام چیزیں اسی مقررہ جگہ رکھے تاکہ اسکول جاتے وقت کوئی چیز تلاش کرنی نہ پڑے۔
بچہ اگر کسی مضمون کو سمجھنے اور خاص طور سے اس کے اظہار میں دقت محسوس کرتا ہے تو اس سے کہیں کہ جیومٹری کا وہ مسئلہ یا حساب کا سوال وہ آپ کو سمجھائے، یاد کرنے کی چیزیں بھی آپ اس سے بار بار سنیں۔ سمجھانے کی لیے سوچنا پڑتا ہے اور سوچنے کا یہ عمل کے خیالات منظم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہی اچھے اظہار کی بنیاد ہے۔
بچے میں اپنا کام خود کرنے کا اعتماد کیسے پیدا کیا جائے؟
بچہ جب اسکول کا کام کررہا ہو تو اس کے پاس نہ بیٹھیں، بار بار اسے مشورے نہ دیں۔ اگر اسے ہر معاملے میں آپ پر انحصار کرنے کی عادت پڑگئی ہے، ہر وقت آپ سے جڑا رہنا چاہتا ہے تو پڑھائی کے بدلے آپ کھیل کود کا وقت اس کے ساتھ گزارنے کی رسم ڈالیں۔ اس سے کہیں کہ جب آپ اسکول کا کام ختم کرلیں گے تو ہم دونوں مل کر کیرم بورڈ یا بیڈ منٹن وغیرہ کھلیں گے۔ یہ خیال رکھیں کہ یہ پیشکش رشوت کے انداز میں نہ کی جائے، بلکہ خالص دوستانہ رنگ میں ہو۔ ابتدائی اور معمولی مشکلات کے بعد بچہ اپنا کام خود کرنے کا عادی ہوجائے گا، کلاس میں اچھے نمبر ملنے سے اس کے وقار میں اضافہ ہوگا اور پھر یہی اس کے لیے جذبۂ محرکہ ثابت ہوگا۔
بچہ اگر کسی سوال کا حل نہ جانتا ہو؟
کئی مرتبہ ایسے مبہم الجھے ہوئے یا پیچیدہ سوالات سے سامنا ہوجاتا ہے جو بچے کے علاوہ والدین کے لیے بھی بظاہر ناقابلِ فہم ہوتے ہیں، ممکن ہے آپ کا علم زنگ آلود ہوچکا ہو، یا آپ اس مضمون سے سرے ہی سے ناواقف ہوں، لیکن ایسی حالت میں بھی آپ بچے کی مدد کرسکتے ہیں، بچے کو مندرجہ ذیل نکات پر غور کرنے کا مشورہ دیجیے:
٭ کیا وہ سوال یا کام کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھتا ہے اور اسے اپنے الفاظ میں بیان کرسکتا ہے؟ اگر نہیں تو سوال بلند آواز میں پڑھنے کو کہیں اور بچے کے ساتھ خود بھی غور کریں کہ سوال لکھنے والے کے ذہن میں دراصل کیا بات تھی۔
٭ سوال حل کرنے کے تمام مدارج کی ایک فہرست بنالی جائے۔ ایک وقت میں ایک درجہ بالترتیب حل کیا جائے۔ اگر کام لکھنے سے متعلق ہے تو اسی فہرست کو بطور خاکہ استعمال کیا جائے۔
٭ جائزہ لیا جائے کہ کیا کام مکمل کرنے کے بعد تمام لوازمات موجود ہیں۔
٭ کیا بچے کو سوال میں استعمال کیے گئے تمام الفاظ اور اصطلاحات کا مطلب معلوم ہے؟ اگر نہیں تو ڈکشنری دیکھی جائے۔
٭ اگر کتاب میں اسی قسم کی مثالیں موجود ہیں تو انھیں اس سوال کے لیے استعمال کیا جائے۔
٭ اگر جواب درست محسوس نہ ہوتو پورا عمل دوبارہ دیکھا جائے کہ کہیں کوئی مرحلہ رہ تو نہیں گیا یا کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی۔
٭ دیکھا جائے کہ کس مرحلے تک کام درست ہوگیا اور رکاوٹ کہاں سے شروع ہورہی ہے۔
٭ یہ کام کرنے سے پہلے کیا بچے کو اس سے پہلا سبق پڑھنے کی ضرورت ہے؟ اگر بچہ پہلے اسباق سے واقف نہیں تو اس کے استاد سے ملاقات کریں اور مددلیں۔
٭ بچہ بالکل ہی اکتا گیا ہو تو مشورہ دیں کہ کوئی دوسرا کام پہلے مکمل کرلے اور پھر اس مسئلے کی طرف آئے، تھک گیا ہو تو ایک مختصر سا وقفہ کرنے دیں۔ مشورہ دیں کہ اپنے کسی دوست کو فون کرکے مشورہ کرلے۔
ان تمام تدابیر کے بعد بھی مسئلہ حل نہ ہوسکے تو بچے سے کہیں کہ یہ سوال چھوڑ دے اور دوسرے دن اپنے استاد سے سمجھانے کی درخواست کرے۔
ترقی یافتہ مغربی ممالک میں اساتذہ کی ایسی تنظیمیں موجود ہیں جہاں فون کرکے بچہ اپنے تعلیمی مسائل میں رہنمائی حاصل کرسکتا ہے۔ یہ انتظام خصوصاً ایسے بچوں کے لیے بے حد مفید ثابت ہوا ہے جن کی والدہ اور والد دونوں ملازمت کرتے ہیں اور اسکول کا کام بچے کو تنہا کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے ملک میں یہ مسئلہ اس شکل میں ہے کہ والدین خود تعلیم یافتہ نہیں ہوتے۔ اسکولوں کی انتظامیہ اور اساتذہ سے مل کر ہمارے ہاں بھی اسکول کے وقت کے بعد فون پر بچوں کی ایسی رہنمائی کے لیے کوئی بندوبست بلا شبہ اچھے نتائج پیدا کرسکتا ہے۔
اسکول کا کام اگر بچے کے لیے ناموزوں محسوس ہو تو؟
اگر آپ دیکھیں کہ اسکول سے گھر کے لیے ملنے والا کام مسلسل بچے کی سمجھ سے باہر، بہت مشکل یا بہت آسان ہے، طویل یا اس کی صلاحیت کے مطابق نہیں تو اس کے استاد سے ملاقات کریں۔ یہ ملاقات آپ کے لیے اطمینان کا باعث ہوگی اور استاد کو بھی اندازہ ہوگا کہ اس کی ہدایات میں کہاں وضاحت کی ضرورت ہے۔ استاد سے ہونے والی گفتگو کو تحریری طور پر محفوظ کرلیں اور پھر بچے کے کام سے اس کے اثرات کا جائزہ لیتے رہیں۔
کچھ والدین بچوں کے اساتذہ سے ملتے ہوئے ہچکچاتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بیشتر اساتذہ ایسے والدین کی قدر کرتے ہیں جو اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور اساتذہ سے رابطے میں رہتے ہیں۔
جب تک مکمل حقائق علم میں نہ آجائیں آپ بچے یا استاد پر ہرگز ناراض نہ ہوں۔ باہمی مشورے کے بعد بچے کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ ضرورت ہو تو کچھ دن کے لیے ٹیوشن کا انتظام کردیں۔ وقتاً فوقتاً امتحانات کے ذریعے اندازہ کریں کہ آپ کا بچہ کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
کوئی استاد اگر غیر لچکدار رویے کا مالک ہو یا تعاون کرنے کو تیار نہ ہو تو ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل سے رابطہ قائم کریں۔ آپ کے علاوہ بھی والدین کو اسی نوعیت کی شکایات ہوں تو ادارے کے سربراہ یا بورڈ آف ڈائریکٹرز سے اجتماعی ملاقات کا اہتمام کریں اور سب مل کر اپنے مسائل بیان کریں۔
معلومات اور اعداد و شمار فوری طور پر کہاں سے آئیں؟
اسکول سے ملنے والے کام کے لیے بعض اوقات مستند اعداد و شمار اور معلومات کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ آپ کے زمانے سے مختلف ہوتے ہیں۔ آپ کسی قریبی لائبریری کے ممبر بنیں، بچے کو ساتھ لے کر لائبریری جائیں۔ اسے کارڈ کیٹیلاگ اور مختلف انڈکسز استعمال کرنے کی تربیت دیں۔ بچے کے اسکول کی لائبریری سے بھی رابطہ رکھیں۔ آپ کو اور بچے کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ لائبریری میں کس قسم کی کتابیں موجود ہیں اور انہیں کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
بجٹ اجازت دے تو ایک اچھا انسائیکلوپیڈیا ضرور خریدیں۔ اچھی کتاب کے مطالعے کا بدل دنیا میں موجود نہیں اور انسائیکلوپیڈیا معلومات کا ایسا خزانہ ہے جو آپ کے ذہن کو اَن گنت موضوعات پر اظہارِ خیال کے قابل بنادیتا ہے۔ اپنے بچے کو اگر آپ حوالے کی کتابیں استعمال کرنے کے قابل بنادیں تو پھر اسے علم کی بلند ترین سطح تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
——