ایک جاننے والے کا کہنا ہے کہ ان کے محلے میں گزشتہ چند ماہ کے دوران سات لڑکیوں کو طلاق ہوچکی ہے۔ فیملی مقدمات لینے والے وکیل نے بتایا کہ طلاق اور خلع کے مقدمات کی بھر مار کی وجہ سے آج کل کان کھجانے تک کی فرصت نہیں ہے۔ یہ افسوس ناک صورتِ حال کسی ایک محلے، گاؤں یا شہر تک محدود نہیں بلکہ پورا ملک ہی اس وبا کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ آج دھوم دھام اور لاڈ پیار سے شادی ہورہی ہے اور کل طلاق کے کاغذات پر دستخط کیے جارہے ہیں۔ آخر یہ طلاق کلچر عام کیوں ہوتا جارہا ہے؟ گھروں کو کس کی نظر لگ گئی ہے؟ آئیے ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بہو کا سسرال میں آکر کام کاج نہ کرنا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے، شوہر کے کپڑے دھونا، استری کرنا اور اپنے کمرے کی صفائی جیسے کام تو روپیٹ کر کردیتی ہیں مگر دیگر سسرالیوں کے کام کرنا جرم سمجھتی ہیں۔ بہو دیر سے اٹھنا اور جلد بیڈ روم میں گھسنا چاہتی ہے، بہت سے گھروں میں لڑائی کا آغاز اسی بات سے ہوتا ہے۔ لڑکی ساس، سسر، دیوروں، نندوں وغیرہ کے لیے روٹیاں پکانے کے لیے تیار ہوتی ہے اور نہ دوسرے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہے، وہ اسٹار پلس بہو کی طرح گھر پر راج کرنا چاہتی ہے۔ لڑکیاں سسرالیوں کی ’’غلامی‘‘ سے نجات کے لیے شوہر پر الگ ہونے کے لیے دباؤ ڈالتی ہیں، اگر شوہر ’’پٹیوں‘‘ میں آجائے تو ٹھیک، ورنہ پھر سسرال میدان جنگ بن جاتا ہے۔
لڑکیوں کا بات بے بات ناراض ہوکر میکے جاکر بیٹھ جانا بھی گھروں کی تباہی کا ایک بڑا سبب ہے، ادھر سسرال میں معمولی کھٹ پٹ ہوئی، لڑکی موبائل فون کی طرف دوڑ پڑتی ہے اور فوراً ’’اماں بریگیڈ‘‘ کو طلب کرتی ہے۔ ماں کے سامنے خوب نمک مرچ لگا کر خود پر ہونے والے ’’ظلم‘‘ کا رونا روتی ہے،اماں جان خود یا بھائیوں کوبھیج کر ’’مظلوم‘‘ بیٹی کو گھر بلوا کر بیٹھا لیتی ہیں۔ ٹھیک ہے ماں باپ کو اپنی بیٹی کی خبر گیری کرنی چاہیے، مگر خود کو تھانے دار تو نہ سمجھیں ناں، اگر بیٹی کے ساتھ سسرال میں کوئی مسئلہ ہے تو اس کا حل اپنے گھر بٹھا کر لڑکے والوں سے ناک رگڑوانا نہیں ہے، والدین کو ہر جائز ناجائز بات پر بیٹی کو سپورٹ کرنے کے بجائے معاملات کو سسرال ہی میں حل کرنے کی ترغیب دینی چاہیے۔
’’پڑھے لکھے‘‘ گھرانوں میں زیادہ تر طلاقیں میاں بیوی کے درمیان انڈر اسٹینڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ بعض جوڑوں میں یہ معاملہ واقعتا بہت سنجیدہ ہوتا ہے۔ میاں بیوی میں زمین آسمان کا فرق ہو تو ایسی شادی کو صرف قربانی کا جذبہ ہی بچا سکتا ہے، اگر دونوں میں سے کوئی ایک سمجھوتا نہ کرے تو پھر بات طلاق یا خلع تک ہی جاتی ہے۔ میرے خیال میں اس معاملے کی زیادہ ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے، آج جنھیں اپنی بہو یا داماد اپنے ’’لیول‘‘ کے نظر نہیں آتے، کیا رشتہ طے کرتے وقت ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی؟ ایک ہائی کوالیفائیڈ کے لیے کیسا رشتہ ہونا چاہیے؟ اعلیٰ عہدے پر فائز بیٹے کے لیے کس کا انتخاب کیا جائے؟ اپنے گھر کا ماحول کیا ہے؟ یہ سب باتیں جو ہم بعد میں یاد کرتے ہیں، رشتہ طے کرتے وقت مدنظر رکھنے کی ہوتی ہیں۔ میاں بیوی کو گاڑی کے دوپہیے قرار دیا جاتا ہے، بس یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ ٹریکٹر کے پہیے نہ ہوں۔
طلاق کی وجہ صرف لڑکیوں کا رویہ نہیں، بلکہ لڑکے اور ان کے والدین بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ ہم لوگ اپنی بیٹیوں کو تو ہر وقت پھولوں کی سیج پر بیٹھے دیکھنا چاہتے ہیں لیکن کسی اور کی بیٹی کو یہ حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ لڑکیاں اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کو چھوڑکر دوسرے گھر میں صرف برتن مانجھنے نہیں جاتیں۔ لڑکی چاہتی ہے اسے بھی گھر کا حصہ تصور کیا جائے مگر وہ سسرال میں مدتوں ’’غیر‘‘ ہی رہتی ہے۔ بہت سارے گھروں میں ماسی اور بہو کے درمیان فرق کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اللہ معاف کرے، بعض سسرالوں پر تو کسی جیل کا گمان ہوتا ہے۔ بہو ساس اور نندوں کے رویے پر تو صبر کے گھونٹ پی کر رہ جاتی ہے، مگر وہ شخص بھی جس کے لیے وہ یہ سب کچھ برداشت کرتی ہے، اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے مزید کریدے تو پھر اس کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں، مزید صبر یا علیحدگی۔ پہلے دور کی خواتین میں صبر کا مادہ زیادہ تھا، اس لیے وہ سارا ظلم و ستم سہ لیتی تھیں، جس گھر میں ان کی ڈولی آتی تھی وہیں سے میت اٹھتی تھی، مگر اب ایسا نہیں رہا۔ یقین جانیں، بہت سی ایسی لڑکیاں جو سلیقہ شعار، خدمت گزار اور سمجھ دار سمجھی جاتی تھیں، قدم قدم پر سمجھوتے کرنے کے باوجود محض سسرالیوں کے رویے کی وجہ سے خود پر مطلقہ کا لیبل چسپاں کرانے پر مجبور ہوئیں۔ ایک طرف تو ہم خود کو اکیسویں صدی کے مہذب لوگ کہتے ہیں اور دوسری طرف ابھی تک فرسودہ اور توہمات زدہ معاشرے کے روایتی سسرال کے طور طریقے اپنائے ہوئے ہیں۔
بہت سے گھرانوں کو صرف ’’انا‘‘ نے تباہ کیا ہے، لڑکی ناراض ہوکر میکے آگئی یا اسے سسرالیوں نے زبردستی والدین کے گھر بھجوادیا، اب مجال ہے کہ فریقین میں سے کوئی پیچھے ہٹ جائے، کئی کئی برس گزرجاتے ہیں، مگر دونوں میں سے کوئی فریق بھی لچک نہیں دکھاتا۔ بات چھوٹی سی ہوتی ہے مگر یہ ضد اور انا اسے بڑا بنادیتی ہے۔ داماد جی سسرال آئے، دروازے پر دستک دی، اندر سے کسی نے پوچھا: ’’کون؟‘‘ ’’اچھا اب میں کون ہوگیا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے داماد جی غصے سے پاؤں پٹختے ہوئے چلتے بنے اور گھر جاتے ہی بیوی کو میکے روانہ کردیا۔ سالوں نے ٹھیک طرح سے سلام نہیں کیا، سسرال گیا تو عزت نہیں کی، دعوت میں بوٹیاں کم دی گئیں، ادھار پیسے نہیں دیے۔ بیوی خیال نہیں کرتی، میرے والدین کی خدمت نہیں کرتی… عموماً دامادوں کو سسرال سے اسی طرح کی شکایتیں ہوتی ہیں۔ بہوؤں کی بھی ایسی چھوٹی چھوٹی شکایتیں ہوتی ہیں۔ یہ سب باتیں ایسی ہیں اگر تھوڑی سی سنجیدگی کا بھی مظاہرہ کیا جائے تو انھیں احسن طریقے سے رشتے میں دراڑ ڈالے بغیر نمٹایا جاسکتا ہے، مگر برا ہو اس انا کا جو صلح میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ بعض اوقات تو یہ بات بھی سننے کو ملتی ہے کہ لڑکا اور لڑکی صلح پر تیار ہیں مگر والدین نہیں مانتے۔
ہمارے معاشرے میں شادی صرف لڑکے اور لڑکی کی نہیں، بلکہ دو خاندانوں کے درمیان ہوتی ہے۔ اسے بدقسمتی ہی کہہ لیں کہ ہمارے ہاں بھی خاندانی نظام کمزور پڑنا شروع ہوگیا ہے، پہلے گھر کے بڑے بوڑھے مل جل کر مسئلے مسائل حل کردیا کرتے تھے، جس کی وجہ سے معاملات طلاق تک نہیں پہنچ پاتے تھے، اب ایک تو نوجوانوں نے بڑوں کی باتیں سننا کم کردی ہیں اور دوسری طرف بڑے بھی کچھ لاتعلق سے ہوگئے ہیں۔ لڑکے لڑکیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے، کوئی انھیں ڈانٹ ڈپٹنے یا سمجھانے والا نہیں رہا۔ اسٹار پلس کے ڈرامے دیکھ دیکھ کر نوجوان ہونے والے لڑکوں اور لڑکیاں اپنے مستقبل کے فیصلے خود کررہے ہیں، جذباتیت اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے خاندانی معاملات میں ان نوجوانوں کے بیشتر فیصلے غلط ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر طلاقیں شادی کے ابتدائی ۵؍برسوں میں ہی ہوجاتی ہیں، انھیں اپنے برے بھلے اور معاشرتی نزاکتوں کا اندازہ نہیں ہوتا، اس لیے غلطی کر بیٹھتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ بعض حالات میں طلاق یا خلع ایک ناگزیر ضرورت ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ البتہ ۱۰۰ میں سے ۹۹ واقعات ایسے ہوتے ہیں اگر لڑکے لڑکیاں صبر اور سمجھوتے کی پالیسی اپناتے اور گھر کے بڑے بوڑھے اپنا کردار ادا کرتے تو طلاق سے بچا جاسکتاتھا۔
——