ایک دفتر میں ملازم صاحب ٹریفک میں پھنس جانے کے باعث دیر سے پہنچے۔ انھیں پہلے سے خبردار کر دیا گیا تھا کہ دیر سے حاضری کی صورت میں انھیں ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ بہرحال اپنے باس کا سامنا ہوا جو غصہ سے کھول رہے تھے اور اب ان پر برسنے ہی والے تھے کہ انھوں نے ہمت باندھ کر اپنے باس کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بڑے لااُبالی انداز میں مسکراہٹ کے ساتھ مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا اور کہا:
’’جی میرا نام رضوان ہے۔ میں آپ کی خدمت میں نوکری کی درخواست لے کر آیا ہوں۔ سنا ہے کہ یہاں پر کوئی رضوان علی کام کرتا تھا۔ اس کو آپ نے کچھ ہی دیر پہلے دیر سے آنے کی وجہ سے برطرف کر دیا۔ میں بھی وہی لیاقت و قابلیت اور تجربہ رکھتا ہوں جو وہ رکھتا تھا۔ کیا میں امید رکھوں کہ آپ مجھے اپنے ماتحت کام کرنے کا موقع دیں گے؟‘‘
دفتر میں موجود سب ہی لوگ زور دار قہقہہ لگائے بغیر نہ رہ سکے۔ حاکم اعلیٰ کا غصہ بھی یک لخت کافور ہوگیا۔ وہ غیر اختیاری طور پر ہنستے ہوئے اپنے کمرے میں واپس چلے گئے۔ یوں ذرا سی ہمت والی ظرافت اور موقع سے فائدہ اٹھانے نے نوکری سے علیحدگی کے حزنیہ کو طربیہ میں بدل ڈالا۔
٭٭
ایک موقع پر بے روزگاروں کی بہت بڑی ٹولی میں شال لوگ وزیر کے اطراف قطار در قطار زمین پر لیٹ گئے اور یہ ارادہ ظاہر کیا کہ ہم انھیں کسی طرف سے جانے نہیں دیں گے، جب تک ان کی مانگیں پوری نہ ہوں۔ اگر وزیر صاحب ان کے سینوں پر یا جسم پر قدم رکھ کر جانے کی کوشش کرتے تو یقینا صورت حال زیادہ ہی نازک ہوجاتی اور کوئی سر پھرا بپھر پڑتا۔
وزیر نے مسکراہٹ کے ساتھ دو چار کو مخاطب کر کے کہا: ’’بھئی یہ کچھ اچھا نہیں لگتا کہ آپ سب سڑک پر اس طرح لیٹے رہیں اور ہم کھڑے رہ کر آپ سے گفتگو کریں۔ اب ہم آپ کے برابر لیٹنے سے رہے اور لیٹ کر تو بات دو بدو نہیں ہوسکتی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ ہم برابری سے کھڑے ہوکر بات چیت کریں۔‘‘
غیر اختیاری طور پر یہ معقول بات سن کر دو چار لوگ کھڑے ہوگئے۔ ان کے کھڑے ہوتے ہی دوسروں نے محسوس کیا کہ ان کا لیٹے رہنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لہٰذا سب ہی کھڑے ہوگئے اور جو مکدر فضا تھی، بالکل بدل گئی اور ہنسی مذاق کے موڈ میں باتیں ہونے لگیں۔ مانگیں تو کیا پوری ہوتیں وزیر کو منہ مانگی مراد مل گئی کہ بہت بڑے حادثے کے وقوع سے بال بال بچ گئے۔
٭٭
ایک سیاست داں پرنسپل کی دعوت پر جلسے میں شرکت کرنے کالج پہنچے تو دیکھا کہ لڑکے فنکشن والے ہال میں بیٹھنے کی بجائے بڑی تعداد میں باہر کھڑے ہیں کہ ان کا بائی کاٹ کردیں۔ سیاسی رہنما نے موقع کی نزاکت کو تاڑ لیا اور قبل اس کے کہ طالب علم کسی قسم کی گڑبڑ کریں یا نعرے لگائیں، یہ ان لڑکوں کے بیچ پہنچ گئے اور بہ آواز بلند ان سے کہنے لگے:
’’اُف! آپ لوگ اس دھوپ میں کتنی تکلیف اٹھا کر ہمارے خیر مقدم کو کھڑے ہیں… چلیے چلیے، جلدی سے اندر چلیں تاکہ دھوپ کی سختی اور تمازت سے آپ محفوظ رہیں اور جلسے کی کاروائی کا جلد از جلد آغاز ہو۔‘‘ اس قسم کے برتاؤ کے لیے طلبہ بالکل تیار نہ تھے۔ جیسے ہی ان کے ساتھ محبت اور اخلاق کا برتاؤ کیا گیا، وہ اپنی ہٹ دھرمی کو بھول کر ان کے ساتھ ہوگئے اور جلسی کامیاب رہا۔
٭٭
جلسہ عام میں کسی نے برطانوی وزیر اعظم، ڈزرائیلی پر فقرہ کسا کہ وہ گندی نالی میں پڑے تھے اور ان کی بیوی نے ان کو اس نالی سے نکال کر پیروں پر کھڑا کیا۔
ڈزرائیلی نہ غصہ سے الجھے نہ انھوں نے اپنی ہتک اور سبکی محسوس کی۔ بڑے اطمینان سے جواب دیا ’’یہ سچ ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو گندی نالیوں میں پڑے ہیں اور نہ تو ان کی بیویاں اور نہ کوئی اور انھیں باہر نکالنے کی سوچتا ہے۔‘‘
٭٭
پنڈت جواہر لال نہرو جب ’’سرس‘‘ آسن کرتے اور سر نیچے اور جسم اوپر کر کے دنیا کو دیکھتے تو ان کو ایک نئی جہت، ایک نیا رخ دکھائی دیتا۔ اس نظریے سے انھوں نے اپنی زندگی کو دیکھا تو انھیں ایسی بصارت نصیب ہوئی کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں کی نظر سے دیکھنے کے قابل ہوگئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی زندہ دلی کی حس بہت زیادہ جاگ اٹھی اور لوگوں کی خامیوں اور غلطیوں پر ان سے الجھنے کی بجائے وہ خوش مذاقی سے ان کو در گزر کرنے لگے۔
جب پنڈت جی جیل میں تھے تو ان کے ساتھیوں نے مٹی اور کنکر سے بھری روٹی اور چاول کی شکایت جیلر سے کرنے کے لیے پنڈت جی کو راضی کر لیا۔ جب انھوں نے یہ بات جیلر کو بتائی تو اس نے طنزاً کہا: ’’آپ لوگ تو دیس کے لیے اپنے آرام و آسائش کی قربانی کرنے کے لیے یہاں آئے ہیں، ایسی شکایت آپ کو زیب نہیں دیتی۔
پندٹ جی اس بات پر جھنجلائے نہیں بلکہ خاطر جمعی سے جواب دیا ’’ہم خاک وطن کے لیے قربانی تو دے سکتے ہیں لیکن خاک وطن پھانک نہیں سکتے۔‘‘
ایک اور موقع پر پنڈت جواہر لال نہرو دھواں دھار تقریر کر رہے تھے کہ انھوں نے دیکھا، پیچھے کی طرف کچھ گڑبڑ ہو رہی ہے اور سامعین اور حاضرین کی ساری توجہ اسی طرف بٹ گئی۔ صورتِ حال کا جائزہ لے کر پنڈت جی اس ہڑبونگ پر ناراض نہیں ہوئے بلکہ پر مزاح انداز میں کہا: ’’آپ لوگ پریشان نہ ہوں ادھر کوئی گڑبڑ نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ دو مہمانوں کو بٹھانے کے لیے پچیس والنٹیئر کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
٭٭
مہاتما گوتم بدھ نے راج پاٹ کو تیاگ کر جب بن باس لیا تو گھومتے گھامتے ایک دریا کے کنارے پہنچے۔ وہاں ایک سنیاسی کو خود اذیتی پر عمل پیرائی کرتے ہوئے، کھانے پینے سے پرہیز کیے اور جسمانی تکلیف کی برداشت کی قوت بڑھانے میں مصروف دیکھا۔ گوتم بدھ نے اس سے دریافت کیا کہ اس تکلیف دہ عمل سے کیا فائدہ ہوا ہے؟
سنیاسی نے جواب دیا: ’’میں پچیس سال سے یہ تپسیا کر رہا ہوں اور اب میں نے ایسی شکتی حاصل کرلی ہے کہ پانی پر سے چلتا ہوا اس ندی کو پار کر سکتا ہوں۔‘‘
مہاتما بدھ کی مزاح کی رگ پھڑک اٹھی۔ انھوں نے کہا: ’’میرے پیارے دوست ! تم نے اپنی عمر کے پچیس سال یوں ہی گزار دیے۔ اس ندی کو پار کرنے کے لیے زیادہ آسان طریقہ تو یہ کہ محض دو پیسے خرچ کر کے ناؤ پر بیٹھ جاؤ۔‘‘lll