۲-۳؍دسمبر ۱۹۸۴ء کی درمیانی شب اہل بھوپال کے لیے قیامت خبر تھی۔ اس لیے کہ اس شب یونین کاربائڈ پلانٹ کی چالیس ٹن زہریلی گیس کے رساؤ نے پندرہ ہزار سے زیادہ اور بعض لوگوں کے نزدیک بیس ہزار انسانوں کو ہلاک کرڈالا۔ پانچ لاکھ ۷۵ ہزار سے زیادہ افراد اس گیس حادثے سے متاثر ہوئے جن میں ہزاروں لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معذور ہوگئے۔ اس زہریلی گیس کے اثرات متاثرین پر اس قدر گہرے اور خطرناک مرتب ہوئے کہ آج تک ان گیس متاثرین کے یہاں معذور بچے پیدا ہورہے ہیں۔
اس سانحے کے پچیس سال بعد وہ سانحہ پیش آیا، جس پر اس وقت ملک بھر میں بحث ہورہی۔ یہ سانحہ نچلی عدالت کا ۷؍جون ۲۰۱۰ء کو آنے والا وہ فیصلہ ہے جو اس کے مجرموں کی سزا سے متعلق ہے۔
سانحہ کس قدر دلدوز اور تکلیف دہ تھا، اس کے بارے میں اس وقت کے انڈین ایکسپریس کے رپورٹر اور موجودہ ہندوستان ٹائمز بھوپال کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر این کے سنگھ نے گزشتہ۸؍جون کو عدالت کے حالیہ فیصلہ کی خبر کے ساتھ لکھا کہ :
’’لوگوں نے شہر خالی کردیا۔ یہ صورت حال کئی دنوں جاری رہی اور بھوپال شہر ’بھوتوں کے شہر‘ میں تبدیل ہوگیا۔ اور جو لوگ بچے وہ صرف ڈاکٹر، صحافی، پولیس والے، سرکاری ملازمین اور ٹیلیگرافر تھے۔ ۳؍دسمبر کو صبح سویرے میں کام پر پہنچا تو شہر کا منظر دیکھ کر دہل گیا۔ متاثرہ علاقے میں پہنچ کر حادثہ کا اثر میری روح تک میں سرایت کرگیا۔ گھروں سے لاشیں نکالی جارہی تھیں۔ مردہ انسانوں اور جانوروں کی لاشوں سے گلیاں پٹی پڑی تھیں۔ اسپتال مریضوں سے بھرے پڑے تھے۔ سیکڑوں لاشیں اسپتالوں کے سامنے پڑی تھیں اور سنسان ویران راستے لاشوں سے بھرے تھے۔
۳؍دسمبر کی شام جب دنیا کے سب سے بدترین صنعتی حادثہ کی خبر لکھنے کے لیے میں ٹائپ رائٹر پر بیٹھا تو میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امڈ پڑا۔ اس وقت اور اس کے بعد بھی یہ آنسو جاری رہے اور میں ٹائپ رائٹر پر انگلیاں مارتا تھا کیوں کہ مجھے وقت کے اندر خبر ٹائپ بھی کرنی تھی اور روتا جاتا تھا۔‘‘
(ہندوستان ٹائمز، ۸؍جون)
پچیس سال کے طویل عرصے میں بھوپال گیس حادثہ کے کیس میں کیا ہوا اور مظلوم متاثرین پر کیا گزرتی رہی یہ الگ سوال ہے۔ مگر اس کیس میں ۷؍کون کو آنے والے فیصلے نے ہزاروں ان افراد کی آنکھوں سے آنسو جاری کردیے جو ان مظلومین کے لیے انصاف کی امید رکھے ہوئے تھے۔ یہ حادثہ تو تکلیف دہ تھا ہی مگر یہ فیصلہ اس حادثہ سے کم تکلیف دہ نہیں ہے، کیونکہ اس فیصلے نے انصاف اور اس سے وابستہ امیدوں کو یکسر دفن کردیا۔ جس کے مطابق اس حادثہ کے سارے کلیدی ملزمین بلکہ مجرمین کو محض دو دو سال کی سزا سنائی گئی اور ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ طے کیا گیا جبکہ یونین کاربائڈ انڈیا لمٹیڈ کمپنی پرمحض پانچ لاکھ روپئے کا فائن لگایا گیا۔ مزید برآں تمام مجرمین کو دو گھنٹہ کے اندر محض پچیس ہزار کے مچلکے پر ضمانت دے دی گئی۔
اس طرفہ تماشہ پر ملک کے وزیر قانون موئلی صاحب بھی تڑپ اٹھے اور ان کی زبان سے نکلا:
’’اس معاملہ میں انصاف ملنے میں تاخیر بھی ہوئی اور انصاف ملا بھی نہیں۔ میں کہنا چاہوں گا کہ انصاف دفن ہوگیا۔‘‘
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس معاملے میں نرمی کا اصل سبب سپریم کورٹ آف انڈیا کا وہ فیصلہ ہے جو اس نے ۱۹۹۶ء میں دیا تھا اور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ملزمین کے لیے معاملہ کو بہت ہلکا پھلکا بنادیا تھا۔ چنانچہ ماہرین قانون کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد نچلی عدالت کے لیے محدود اختیارات ہی رہ گئے تھے، جس کے سبب عدالت کا حالیہ فیصلہ اس شکل میں آیا ہے۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ اس پورے معاملے کے کلیدی مجرم اور کمپنی کے سربراہ وارن اینڈرسن قرار پاتے ہیں لیکن وہ حادثہ کے بعد جس طرح ملک سے فرار کرادیے گئے اور امریکی حکومت کی ’’چھتر چھایا‘‘ میں چلے گئے اس پر اب سیاست کی جارہی ہے اور جواب دہی کو ایک دوسرے کے سر تھوپنے کی سطحی سیاست کھیلی جارہی ہے۔ جبکہ یہ بات اب حقیقت بن کر عوام کے سامنے آچکی ہے کہ وارن اینڈرسن خود بھوپال گیس حادثہ کی جانکاری لینے اور جائے حادثہ کا مشاہدہ کرنے کے لیے آیاتھا۔ اور ایئرپورٹ پر اسے باقاعدہ گرفتار کیا گیا اور کمپنی کے گیسٹ ہاؤس میں رکھا گیا۔ کیونکہ اس کے خلاف تعزیراتِ ہند کی دفعہ ۳۰۴؍ کے تحت مقدمہ قائم ہوچکا تھا۔اور یہ کام خود اس وقت شہر کے ڈی ایم نے کیا مگر چیف سکریٹری (ہوم) برہم سوروپ نے فون کرکے ڈی ایم کو حکم دیا کہ طیارہ اینڈرسن کا انتظار کررہا ہے۔ ساری کارروائی مکمل کرکے اسے دہلی روانہ کردیا جائے۔‘‘ ہوم سکریٹری نے کس کی ایما پر ڈی ایم کو حکم دیا تھا یہ سوال بڑا سوال ہے۔ اور جو طیارہ ایئرپورٹ پر اینڈرسن کو دہلی لے جانے کے لیے تیار تھا وہ ریاستی حکومت کا خاص طیارہ تھا جو وزیرِ اعلیٰ کے حکم پر ہی استعمال ہوسکتا تھا۔ ظاہر ہے ہوم سکریٹری نے ڈی ایم کو یہ حکم یا تو وزیر داخلہ کی ایما پر دیا ہوگا یا وزیراعظم کے کہنے پر ایسا کیا ہوگا۔ اسی طرح ریاستی سرکار کے طیارہ کے ذریعہ اینڈرسن کو دہلی پہنچانا وزیر اعلیٰ کی مرضی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ چنانچہ ڈی ایم نے اعلیٰ لوگوں کے حکم کی بجاآوری کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس پر عمل کیا اور ۲۵۰۰۰ روپئے کے مچلکہ پر اس کی ضمانت کے کاغذات تیار کیے اور اسے دہلی جانے کے لیے کہا گیا، جس کے لیے وہ خود تیار نہ تھا اور چاہتا تھا کہ جائے حادثہ کا دورہ کرے۔ مگر اسے بتایا گیا کہ اس میں خطرہ ہے اور محفوظ طریقے سے دہلی بھیج دیا گیا۔ پھر اس سے زیادہ محفوظ طریقے سے وہ امریکہ لوٹ گیا اور آج تک ہندوستان نہیں آیا۔ یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ اس وقت کے صدر امریکہ رونالڈ ریگن کا وزیراعظم راجیو گاندھی پر دباؤ تھا کہ وہ ایسا ہی کریں۔
ظاہر ہے کہ اینڈرسن کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس وقت کی مرکزی حکومت کے اشاروں پر اور ریاستی سرکار کی رضا مندی سے ہی ہوا۔ ایسے میں اگر مرکزی حکومت آنجہانی راجیو گاندھی کو بے قصور قرار دے کر سارا بھانڈا اس وقت کے ریاست مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ ارجن سنگھ کے سر پھوڑنا چاہتی ہے تو قرائن بلکہ حقائق کے سراسر خلاف ہوگا۔ ایسے میں مرکزی حکومت اینڈرسن کے فرار کی جواب دہی سے بچ نہیں سکتی اور نہ یہ کہہ کر اپنے سر سے اس ذمہ داری کو ٹال سکتی ہے کہ اس میں جو کچھ کیا گیا وہ ریاستی سرکار نے کیا۔ حقیقت میں سب کچھ مرکزی سرکار ہی نے کیا یا اسی کے اشاروں پر کیا گیا۔
ہمارے نزدیک یہ بات زیادہ اہم نہیں ہے کہ اینڈرسن کس کی ایما پر ملک سے فرار ہوا یا اسے کس نے محفوظ طریقے سے ملک سے نکالا بلکہ وہ ڈیل عوام کے سامنے آنی چاہیے جس کے نتیجے میں ایسا ہوا۔ اگر ہندوستانی حکومت پر امریکی حکومت کا دباؤ تھا کہ اینڈرسن کو محفوظ طریقے سے ملک سے نکالا جائے تو ہمارے سیاست دانوں کے پاس اتنی جرأت کیوں نہیں کہ وہ اپنے عوام کے سامنے کھل کر یہ بتاسکیں کہ ان ان مجبوریوں کے تحت ایساکیا گیا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اینڈرسن کے فرار یا اس کی موجودگی سے متاثرین حادثہ کے ساتھ عدل و انصاف کیے جانے، ان کی باز آباد کاری کے عمل اور ان کی صحت کے مسائل حل کرنے کی راہ میں تو کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔ حکومت کو یہ بھی بتانا پڑے گا کہ متاثرین اور مہلوکین کے وارثوں کو معاوضہ دینے دلانے اور انصاف بہم پہنچانے کی راہ میں کونسی رکاوٹیں رہیں جو پچیس سال کی مدت میں بھی دور نہیں کی جاسکیں۔ اور یہ کہ ہمارے ملک کے عدالتی نظام کے راستے میں وہ کونسی رکاوٹیں رہیں جنھوں نے معاملے کو پچیس سال تک لٹکائے رکھا اور اب جبکہ عدالت کا فیصلہ آیا ہے تو ہر ایک نظر میں وہ انصاف سے دورکیوں ہے۔
اینڈرسن کا فرار اس حادثہ کا اہم ترین معمہ ہے۔ مگر فیصلہ کے بعد سارا زور اینڈرسن کے فرار پر صرف کرنا بنیادی حقائق سے چشم پوشی ہی نہیں بلکہ عوام کو حقیقت تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش ہے۔
ریاست کی بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت اور مرکز کی کانگریسی حکومت دونوں نے بھی الگ الگ گروپ تشکیل دیے ہیں۔ مرکزی حکومت نے وزیرِ داخلہ کی سربراہی میں وزارتی گروپ تشکیل دیا ہے جو اس حادثہ سے متعلق ضروری امور اور باز آباد کاری کے کاموں پر غور کرے گا جبکہ ریاستی حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو معاملہ کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے کر مزید قانونی امور کو آگے بڑھانے پر غور کرے گی۔ وزیرِ اعلیٰ کا اعلان ہے کہ وہ بھوپال گیس حادثہ کے متاثرین کو انصاف دلانے کی جدوجہد کریں گے۔ لیکن ریاسی سرکار اور مرکزی سرکار سے کیا کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ اس پچیس سال کے طویل عرصہ میں بھی انھوں نے اس حادثہ کے متاثرین اور ان کے مسائل پر کان دھرا ہے۔ ظاہر ہے مرکزی و ریاستی سرکار یں ان مظلومین کو ان کا حق دلانے یا انصاف دلانے سے زیادہ ووٹ بینک کے سلسلہ میں فکر مند ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی فکر میں ہیں اور انصاف اور حق کی جو بھی باتیں ہورہی ہیں وہ مستقبل قریب میں ہونے والے ریاستی انتخابات کے پس منظر میں ہیں۔
جبکہ یہ حقیت عوام کے علم میں ہے کہ اس پچیس سال چھ ماہ یعنی چوتھائی صدی کے طویل عرصہ میں ریاست مدھیہ پردیش میں بھی کانگریس کی حکومت رہی ہے اور مرکز میں بھی زیادہ عرصہ کانگریس ہی برسرِ اقتدار رہی ہے۔ چنانچہ یہ بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ جو کچھ ہوا اور اب تک ہوتا رہا اس کی زیادہ تر ذمہ داری کانگریس ہی کے سرجاتی ہے۔ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ دونوں ہی سرکاروں نے متاثر عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ جبکہ بھوپال گیس حادثہ کے متاثرین گزشتہ پچیس سالوںمیں حکومت کو مسلسل متوجہ کرتے رہے اور بار بار اس بات کی یاد دہانی ملک کے عوام حکومت کو کراتے رہے کہ ان کے ساتھ انصاف ہونا باقی ہے مگر کسی بھی حکومت نے اس مسئلہ پر توجہ نہیں کی۔
عدالت کے حالیہ فیصلے نے ملک کے سیاست دانوں کے سامنے جہاں مشکل سوالات کھڑے کردیے ہیں، وہیں ان کا عدالتی نظام میں اعتماد بھی کھوتا محسوس ہوتا ہے اور یہ بات بڑی تشویشناک اور ملک کے لیے خطرناک ہے۔ اس لیے کہ انصاف کی امید ہی مظلوموں کے لیے زندگی کا سہارا ہے اور اگر یہ ایک سہارا بھی چھن جائے تو زندگی کیسے قائم رہے گی۔