عام طور پر ریت، بجری اور مٹی وغیرہ دیہات و قصبات میں بھینسا گاڑی سے لایا جاتا ہے۔ اسکول میں تعمیر کا کام ہورہا تھا، ریت آرہا تھا، بھینسے کے مالک نے سامان اتارتے ہوئے بھینسے کو کھلا چھوڑ دیا کہ گھوم کر کچھ گھاس چرلے۔ میں دفتر میں بیٹھا تھا۔ اچانک میری نظر پڑی کہ بھینسا اسکول کی پھلواری کے آس پاس چر رہا ہے۔ خدشہ ہوا کہ یہ گلاب چمپہ اور چمیلی وغیرہ کے پودے چٹ کرجائے گا اور ساری محنت ضائع ہوجائے گی۔ یہ سوچ کر میں فوراً اٹھا اور بھینسے والے سے کہا کہ تم اس کو اس طرح کھلا نہ چھوڑو، یہ ساری باغبانی خراب کردے گا۔ وہ بڑے اطمینان سے بولا: یہ تمہارے پودوں کو کچھ نہ کہے گا صاحب۔ یہ تو صرف گھاس کھائے گا۔
میں نے اس کا جواب سنا۔ اور دیکھتا رہا۔ میں نے دیکھا کہ بھینسا بڑے شوق سے گھاس کھا رہا ہے۔ اس نے پھولوں کے پودوں کے اندر بھی منہ ڈالا لیکن صرف گھاس ہی کھائی۔ یہ دیکھ کر مجھے حیریت ہوئی۔
بھینسا ایک جانور، وہ بھی چالاک نہیں بلکہ گدھے کے بعد سب سے احمق اور سیدھا جانور تصور کیا جاتا ہے۔ نہ دیکھنے کا نہ سواری کا۔ مگر خدا کا کس قدر فرمانبردار ہے۔ انواع و اقسام کے کھانے اس کے سامنے ہیں۔ سرخ گلاب، سفید چنبیلی، یہ سورج مکھی، اور یہ دیگر ہرے بھرے پودے اور ان کی کومل پتیاں سب موجود لیکن وہ تو صرف وہی چیز کھا رہا ہے جس کو اس کے اللہ نے اس کے لیے ’’حلال‘‘ کیا ہے۔ کتنا ڈرتا ہے اپنے مالک سے۔ یہ سوچ کر خود کو ٹٹولا تو بھینسے پر رشک آیا۔ دل پکار اٹھا یہ ہم سے بدرجہا بہتر ہے۔