شام کے دھندلے سائے چاروں طرف پھیل چکے تھے اور ہر طرف ہو کا عالم طاری تھا۔ شفق کی سرخی کبھی کی دور پہاڑوں میں غائب ہوچکی تھی اور ان کے قدموں میں لپٹی جھیل پر رات کی سیاہ چادر تن چکی تھی۔ طویل سلسلہ کوہسار کی دوسری جانب انتہائی خطرناک اور گھنے جنگل میں بھی اس وقت جھینگروں کے شور کے علاوہ کوئی اور آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ پرندے بھی اپنے گھونسلوں میں بسیرا کرچکے تھے۔ اچانک شیر کے دہاڑنے کی آوازسنائی دی اور جنگل میں چھائے روح فرسا سکوت کی فضا پارہ پارہ ہوگئی۔ بھانت بھانت کی آوازیں گونجنے لگیں۔ جنگل جاگ اٹھا تھا۔
وہ تمام جھیل کے کنارے ایک دائرے میں بیٹھے تھے، ان کی زبانیں باہر نکلی ہوئی تھیں اور وہ سب بری طرح ہانپ رہے تھے۔ ان کی نگاہیں ایک دوسرے پر جمی تھیں اور وہ اپنی لال سرخ آنکھوں سے دوسروں کو نظروں میں تول رہے تھے، اگر روشنی ہوتی تو شاید ان کے جسموں سے ٹپکتا پسینہ بھی دکھائی دے جاتا۔ ان کی بے تابی سے صاف دکھائی دیتا تھا کہ وہ کسی کے منتظر ہیں۔ اچانک ان میں ہل چل پیدا ہوئی اور دائرہ ایک جانب سے کھل گیا، شاید کوئی آرہا تھا۔
آنے والا خوفناک حد تک بھاری بھرکم تن و توش کا مالک تھا، اس کی آنکھوں سے درندگی اور خباثت کا لاوا بہہ رہا تھا جبکہ وہ کبھی کبھی ٹھہر کر اپنے خوفناک دانت بھی نکوستا تھا جیسے ابھی قہقہہ لگانے والا ہو۔ اس کی چال ڈھال میں جو رعونت تھی وہ اسے تمام منتظر دائرے کا سردار ثابت کیے دے رہی تھی۔ برتری اس کے جسیم وجود میں ٹھاٹھیں مارتی دکھائی دیتی تھی۔ وہ سرداری کے دونوں اصولوں، طاقت اور مکاری کے ہتھیاروں سے بخوبی لیس تھا۔ دوسرا ثبوت یہ کہ وہ دائرہ اس کی آمدکا منتظر تھا، محکوم ہمیشہ انتظار کرتے ہیں اور دیر سے وہی آتا ہے جو حاکم ہو۔ اب حاکم آچکا تھا اور محکوموں کا انتظار ختم ہوچکا تھا۔
اس کی تشریف آوری کے ساتھ ہی سب کے گلوں میں غراہٹیں ابھرتی محسوس ہوئیں اور فضا ایک ہولناک موسیقی سے لبریز ہونے لگی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے وہ اپنے سردار کا استقبال کررہے ہوں جبکہ آنے والا حاکموں کی روایتی بے نیازی سے قدم اٹھاتا دائرے کے وسط میں جا کھڑا ہوا۔ اپنی زور دار آنکھوں میں ایک خوفناک چمک لیے اس نے دائرے کو گھوم کر دیکھا۔ غراہٹیں مزید تیز ہونے لگیں، آنے والے کے چہرے پر استہزائیہ سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
وہ سارے بھوکے تھے اور بھوک کی اسی شدت نے انہیں یہاں مجبوراً باندھ رکھا تھا۔ ان کے دائرے کی واحد باہمی کشش صرف بھوک تھی۔ کوئی بھوکا تھا اور کوئی بہت بھوکا۔ وہ آج بھوک کو جان پر ترجیح دینے آئے تھے۔ بھوک ان کی آنکھوں میں ایک خوفناک چمک کی صورت میں ابھر آئی تھی۔ وحشیانہ چمک جو ایک بھیانک خواہش کا عکس تھی، ایک ہولناک تشنگی کی علامت جو لحظہ بہ لحظہ بڑھ رہی تھی اور ہر پل دہشت کی اک نئی جوت جگا رہی تھی۔
’’بھائیو!‘‘ آنے والا ایک غراہٹ نما بھرائی ہوئی آواز میں مخاطب ہوا کہ وہاں حاکموںکے تخاطب کا ایسا ہی تصور تھا۔ ’’بھائیو! ہم سب بھیڑیے ہیں۔‘‘ اب لہجہ قدرے پرسکون تھا ’’اور ہمیں اس پر فخر ہے۔‘‘
مجمع میں سب نے یہ فقرہ دہرایا اور فضا میں ایک بھنبھناہٹ نما آواز ابھری ’’ہم سب بھیڑیے ہیں اور ہمیں اس پر فخر ہے۔‘‘
’’آج ہم کس لیے یہاں جمع ہوئے ہیں، شاید آپ میں سے کچھ نہ جانتے ہوں خصوصاً وہ جن کی آمد کا یہ پہلا اتفاق ہے۔ کیا اس میں کوئی شک ہے کہ ہم سب بھیڑیے ایک متفق مضبوط اور متحد قوم ہیں؟‘‘
’’نہیں اس میں کوئی شبہ نہیں۔‘‘ ایک بھنبھناہٹ سی پھر ابھری۔
’’سو میں تمام نئے اور نوجوان بھیڑیوں کو بتادینا چاہتا ہوں کہ آج ہمارے اسی اتفاق کا امتحان ہے۔ دستور کے مطابق آج ہم ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔‘‘ بات کرتے کرتے اس نے پھر دانت نکوسے۔ ’’آج ہماری ایک پرانی رسم کا امتحان ہے اور اس رسم سے آپ سب کو واقف ہونا چاہیے۔ ’’وہ دل ہی دل میں رسم کا نام لے کر ہنسا کہ اگر یہ رسوم اور روایتیں نہ ہوتیں تو حاکموں کو حکومت کرنے میں کتنی مشکل پیش آتی۔
’’وہ رسم یہ ہے کہ جب ہم تمام بھیڑیوں کو برتر جانوروں کے ظلم و ستم اور مخصوص موسمی حالات کے باعث خوراک بالکل نہیں ملتی، ہم بھوکے مرنے لگتے ہیں اور ہماری نسل معدوم ہونے لگتی ہے اور اس سے پہلے کہ ہم سے طاقتور درندے ہمیں ختم کردیں ہم سب دائرے میں بیٹھ کر اپنے اپنے مدمقابل کی آنکھوں میں جھانکتے ہیں۔ جب کسی ایک کی آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں تو کھلی آنکھوں والا اسے ختم کردیتا ہے۔‘‘
’’تو گویا…‘‘ کسی نے اس کی بات کاٹی اور اس نے تیزی سے اپنے پیچھے دیکھا، وہ ایک نوجوان بھیڑیا تھا، سردار نے دانت نکوسے کہ ہمیشہ نوجوان ہی گستاخی اور بغاوت کرسکتا ہے۔
’’تو گویا ہماری یہاں آمد کا مقصد یہ ہوا کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی جان قربان کرکے دوسرے کو زندگی بخشنے آیا ہے۔‘‘ نوجوان کا لہجہ پرجوش تھا۔
سردار کے اندر کسی نے زوردار قہقہہ لگایا۔ قربانی … نوجوان ہمیشہ پرجوش بھی ہوتے ہیں اور قربانی پر تیار بھی۔ اسے کیا پتہ کہ یہاں اس دائرے میں کمزور سے کمزور بھیڑیا بھی محض اس امید پر آیا ہے کہ شاید وہ کسی کو تر نوالہ بنانے میں کامیاب ہوجائے۔
’’یقینا… آج کل ہم پر ایسی افتاد آن پڑی ہے کہ بعض کی جان بچانے کے لیے بعض کی جان لینی ضروری ہوگئی ہے۔ کسی کو اس رسم پر کوئی اعتراض نہ ہو تو آج ہماری ملاقات آدھی رات کو دوبارہ اسی جگہ ہوگی اور تب اصل کھیل شروع ہوگا۔‘‘ سردار نے خوفناک آنکھوں سے مجمع کو گھورتے ہوئے کہا۔
اعتراض… اعتراض… مجمع میں موجود سب نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا کہ بعض اوقات اعتراض کرنا بھی قابلِ اعتراض ٹھہرتا ہے۔ اس گھڑی اعتراض کرنے والے کو سب بھیڑیے مل کر کھا جاتے ہیں یہ بات سب کو معلوم تھی۔ اسی لیے سبھی چپ تھے اور انتظار کررہے تھے کہ کوئی اعتراض کرے اور سب کی خوراک بن جائے، اس کی موت آسان ہوجائے۔ سب ترسی ہوئی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
’’سردار‘‘ واقعی کچھ دیر بعد ایک نوجوان بھیڑیا کھڑا ہوگیا۔ شاید وہ رسم میں کوئی ترمیم پیش کرنا چاہتا تھا، لیکن اس کا موقع نہ مل سکا۔ اس پر کئی پنجے بیک وقت پڑے اور اس کا جسم ریشہ ریشہ ہوکر مجمع میں بٹ گیا۔ ’’بوہنی‘‘ ہوچکی تھی۔ اجتماعی رسوم پر اجتماعی مفاد کے خلاف بولنے والوں کا حشر ایسا ہی ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا ۔ یہی ان کے خاندان کا دستور تھا۔ وہ اختلاف رائے کے اسی انجام کے قائل تھے۔
سردار بھیڑیے نے ایک دفعہ پھر دانت نکوسے شاید وہ پھر ہنسا تھا، ’’آدھی رات کو پھر سب اکٹھے ہوں گے۔‘‘ وہ اس حکم کے ساتھ دائرے سے باہر نکل گیا اور دائرہ بہت جلد، کچھ لمحات کے لیے منتشر ہوگیا۔
٭٭٭
دائرہ ایک دفعہ پھر مکمل ہوچکا تھا اور وہ سب اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے لیے موجود تھے۔ سردار بھیڑیے سمیت سب کے جسموں سے منجمد کردینے والی سردی میں بھی پسینہ چھوٹ رہا تھا۔ آج کی رات سب کے لیے اہم ترین تھی کہ انہی لمحات پر ان کے وجود کا انحصار تھا۔ وہ رسم کے مطابق ایک دوسرے کے سامنے جم چکے تھے اور آہستہ آہستہ ہانپ رہے تھے۔
وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بیٹھے تھے اور وقت آہستہ آہستہ رینگ رہا تھا۔ ان کے ہانپنے میں شدت آچکی تھی۔ رفتہ رفتہ ان کی زبانیں مزید باہر نکل آئیں۔ ہانپنے کی شدید سرسراہٹ نے فضا میں ایک سماں سا باندھ رکھا تھا۔ ایک دبا دبا سا ہیبت ناک شور جیسے ہزاروں اژدہے پھن پھیلائے پھنکار رہے ہوں۔ ایک دوسرے کی جادوئی نظروں کے اسیر، خاموش اور بے حس و حرکت، مسلسل سکوت اور ابدی بے حسی کا تاثر دیتے ہوئے وہ سب کسی تصویر کے مانند ساکن تھے، لیکن شوخ رنگوں کی طرح چیخ بھی رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے مصور کائنات نے ازلی خواہشات کے جنگل سے بہتے ہوئے خون اور تمام خواہشات پر حاوی بھوک کو بھیڑیوں کی شکل میں پینٹ کردیا ہو۔
’’او…وؤ…او‘‘ ان میں سے ایک بڑی دردناک اور کریہہ آواز میں چلایا۔ آواز دور تک فضا میں تیرتی چلی گئی اور پھر پہاڑوں سے ٹکرا کر پہلے سے زیادہ ہولناک بن کر واپس آگئی۔ ’’او…وؤ…وؤ … ایک ایسے تسلسل کے ساتھ جس میں اژدہے کی زہریلی پھنکار جیسی کشش تھی اور پھر شاید اسی کشش کے زیر اثر سردار بھیڑیے نے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ سر اٹھایا۔ اس کی آنکھوں میں پل بھر کو خوفناک سی چمک لہرائی۔ پھر اس نے مد مقابل کے جھکے ہوئے سر اور بند ہوتی آنکھوں کو دیکھا اور تب منہ کھول کر اپنے دانتوں کی نمائش کی، شاید وہ مسکرا رہا تھا۔ مدمقابل کی آنکھیں بالکل بند ہوگئیں۔ نقاہت کے باوجود حرکت کرنے کی کوشش کی۔ قانون فطرت کے اصولوں کے تحت مدافعت کرنا چاہی، لیکن مارنے والا چونکہ مرنے والے سے ہمیشہ طاقتور ہوتا ہے، اس لیے وہ بھوک کی وحشی قوت کے سامنے بے بس ہوگیا۔ اس کا گلا تیز نوکیلے پنجوں کی زد میں آیا اور خون کا ایک فوارہ سا پھوٹ نکلا۔ چپڑ چپڑ، سردار بھیڑیا بڑے اطمینان سے اس کا خون پینے لگا حتیّٰ کہ رفتہ رفتہ اس حیات آور سیال سے تر ہوکر سرخ ہوگیا۔ پھر وہ جھٹکے سے اس کی گردن بھنبھوڑنے لگا اور اس کے تڑپتے ہوئے جسم سے اپنے نقاہت زدہ جسیم بدن کو خوراک فراہم کرنے لگا۔
’’او… او… اوؤ۔‘‘ ایک مزید آواز، ایک کریہہ پکار فضا کو درہم برہم کرگئی۔ ایک اور کی آنکھیں بند ہوئیں۔ کسی دوسرے مقابل نے جھپٹا مارا اور جہد البقاء کا کھیل اپنے عروج کی جانب بڑھا۔ کھینچا تانی ہونے لگی اور چپڑ چپڑ کی آوازیں گونجنے لگیں۔ پھر بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ آ…آ… او کی آوازیں بھی ابھرنے لگیں۔ غراہٹیں تیز تر ہوتی گئیں۔ او… او…آ آ۔‘‘ آنکھیں بند ہوگئیں۔ ساکت مدمقابل بجلی کی سی تیزی سے جھپٹے مارتے رہے۔ خون کے فوارے بلند ہوتے گئے اور گلے تیزی سے ادھڑنے لگے۔ ایک عجیب سی نغمگی اور خوفناک سرسراہٹ کے ساتھ چپڑ چپڑ ہوتی رہی، وقت چپ چاپ رینگتا رہا۔
دائرے میں کچھ بھیڑیے ابھی تک ہانپ رہے تھے۔ ابھی بھوکے تھے اور مدمقابل پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ یہ وہ بدقسمت تھے، جنھیں ان کے برابر ہوشیار اور طاقتور مدمقابل مل گئے تھے۔ سو اب وہ موقع کے منتظر تھے… پیٹ بھرنے کے منتظر، دوسروں کی آنکھیں بند ہونے کے منتظر جبکہ ان کے مقابل بھی یہی سوچ رہے تھے۔ ہر دو میں سے ایک شکار تھا اور دوسرا شکاری، لیکن وہ لاعلم تھے کہ شکار کون ہے اور شکاری کون ہوگا۔ پہلے کس کی آنکھیں بند ہوں گی، پہلا جھپٹا کون مارے گا، کوئی نہیں جانتا تھا لیکن یقینا وہ جو مقابلے میں ڈٹا رہا شکاری ہوگا۔
’’آ آ آ‘‘ سردار بھیڑیے نے پہلے شکار سے فارغ ہوکر آواز بلند کی۔ اس کا پیٹ پہلے شکار سے بھر چکا تھا۔ لیکن عجیب سی بے چینی تھی، اس کے جسم میں نامعلوم سی چنگاری دہک اٹھی تھی، اس کے اندر ایک ایسی تشنگی نے سر اٹھا لیا تھا جو اسے کسی اور کے مدمقابل لانا چاہتی تھی۔ اس نے ایک نظر ادھر ادھر دیکھا۔ اکثر جگہیں خالی ہوچکی تھیں، دائرہ بالآخر ٹوٹ گیا تھا۔
’’او…اوو…آ‘‘ سردار بھیڑیا غرایا اور پھر ایک کمزور سے ہانپتے ہوئے بھیڑیے کے سامنے جم گیا۔ دانت اور پنجے پھر حرکت میں آئے۔ ایک فوارہ پھر بلند ہوا اور چپڑ چپڑ کی آوازیں آنے لگیں ، حتیّٰ کہ وہ دوسرے شکار سے بھی فارغ ہوگیا۔ آ آ آ … آگ ابھی تک اس کے جسم میں تھرکتی پھر رہی تھی۔ اب وہ تیسرے کے سامنے جم گیا۔ شکاری اور شکار ایک مرتبہ پھر مدمقابل آگئے۔ سردار بھیڑیا اچھی طرح جانتا تھا کہ شکار کون ہوگا اور شکاری کون؟ اس لیے کہ اسے اپنے آباء و اجداد کی اس نصیحت کا بخوبی علم تھا کہ جس کی آنکھیں بند ہوگئیں وہ شکار ہوجائے گا اور مستعد شکاری رہے گا، لہٰذا اپنی آنکھیں کھلی رکھو اور دوسروں کی آنکھیں بند ہونے کا انتظار کرو کہ بند آنکھوں والے کو جینے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ سردار بھیڑیے نے ایک لحظہ رک کر سوچا اور پھر پیٹ میں ٹھاٹھیں مارتی آگ کے سبب چوتھے شکار کی جانب بڑھنے لگا۔
’’آ آ او۔‘‘ اس نے چوتھے شکار کو بھی اس کی غفلت کی سزا دے ڈالی۔ لیکن نامعلوم کیوں اس کے جسم میں جانے والا خون کا ہر قطرہ اور گوشت کا ہر ریشہ اس کے جسم میںانگارے دہکائے دے رہا تھا، اس کی بھوک مارنے کے بجائے اس کی اشتہا بڑھا رہا تھا۔ ہل من مزید … ہل من مزید۔ اس کے پیٹ میں، چمڑے کی جھونپڑی میں، کوئی مسلسل چیخ رہا تھا۔ ’’آ آ او او‘‘ وہ موت کا نغمہ گاتے ہوئے پانچویں شکار کی جانب بڑھا ہی چاہتا تھا کہ اسے کسی تبدیلی کا احساس ہوا۔ دائرہ کبھی کا ختم ہوچکا تھا اور اسے اپنے شکار کے پاس دو خوفناک آنکھیں چمکتی نظر آرہی تھیں۔ جو اسے بری طرح گھور رہی تھیں۔ وہ چونک کر پیچھے ہٹ گیا۔ ہونے والے شکار کے پاس ایک اور جسیم بھیڑیا، اس کا رقیب کھڑا تھا اور خون آلود دانت نکال کر اسے دعوت مبارزت دے رہا تھا۔
شکاری دو تھے اور شکار ایک، اب فیصلہ طاقت کا ہونا تھا۔ شکاری، طاقت اور شکار کی ازلی تکون سامنے آگئی۔ دونوں حریفوں کی نگاہوں میں خون چھلکنے لگا، بال کھڑے ہوگئے، ان کے جسم میں دہکتی ہوئی آگ ہل من مزید کے نعرے لگاتی انھیں ایک فیصلہ کن جنگ کے لیے تیار کررہی تھی اور پھر دفعتاً دونوں خوفناک غراہٹ کے ساتھ ایک دوسرے پر پل پڑے۔
لیکن اس دفعہ سردار کو شکار کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی تھی۔ اس کا جسم اب اپنے خون سے بھی رنگین ہورہا تھا۔ اس کا حریف البتہ اس سے زیادہ زخم خوردہ تھا اور اس کی گردن سے بہنے والا خون بہت جلد اسے موت کی وادی میں دھکیلنے والا تھا۔ سردار نے فتح کے نشے میں مست نعرہ بلند کیا … آ …او…او… آ‘‘ حریف خون کو دیکھ کر ہل من مزید کی آگ لگی تھی۔ اس نے زخموں سے چور جسم کو سمیٹ کر اٹھنا چاہا… مگر نقاہت سے ڈگمگاگیا۔ تشنگی کی آگ اگرچہ اس کی نس نس میںسمائی ہوئی تھی، لیکن وہ اپنے شکار تک پہنچنے کی طاقت سے محروم تھا… دوسری طرف ہل من مزید کی آگ تیزسے تیز تر ہوتی جارہی تھی۔ اسے برداشت کرنا اس کے بس سے باہر ہورہا تھا۔ پھر اچانک اس کی جلتی نگاہیں اپنی ادھڑی ہوئی زخمی ران پر جم گئیں۔ وہاں تو خون بہہ رہا تھا۔ اور پھر اس نے اپنے دانت اپنی ہی ادھڑی ہوئی ران پر جما دیے… چپڑچپڑ او آں۔ وہ اپنی ہی خون آلود ران ادھیڑنے میں مصروف ہوگیا…اندھیرا اور گہرا ہوتا چلا گیا۔
——