مئی کی جھلسا دینے والی گرمی میں آفرین بس اسٹاپ پر گاڑی کے انتظار میں کھڑی تھی۔ خدا خدا کرکے گاڑی آئی تو وہ سوار ہوئی۔ دو بجنے ہی والے تھے، بچے اسکول کے گیٹ پر بے چینی سے ماں کا انتظار کررہے تھے۔ آفرین کو دیکھتے ہی بچے ماں کی طرف لپکے۔ پھر بس کا تھکا دینے والا سفر کرکے وہ تینوں گرمی اور پیاس سے بے حال گھر پہنچے۔
’’بچو! جلدی سے منہ ہاتھ دھو لو، میں دستر خوان بچھاتی ہوں۔‘‘
آفرین عبایا اتار کر چولھا جلانے لگی تو گیس ندارد، ایک آہ دل سے نکلی۔ ٹھنڈی دال روٹی کے ساتھ صبر شکر کرکے سب نے کھانا کھالیا۔
’’چلو بچو! ظہر کی نماز پڑھ لو پھر مدرسے بھی جانا ہے۔‘‘
آفرین نے وضو بنایا۔ سب نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ زور زور سے دروازہ پیٹنے کی آواز آئی۔آفرین نے دھڑکتے دل سے دروازہ کھولا تو مالک مکان غصے سے بھرا کھڑا تھا ’’بی بی! 20 تاریخ ہوگئی، ابھی تک آپ لوگوں نے کرایہ نہیں دیا، جب بھی تقاضا کرتا ہوں تمہارا شوہر دو تین دن کا کہہ دیتا ہے۔ اگر آج رات کرایہ نہیں دیا تو تمہارا سامان باہر پھنکوا کر تالا لگا دوںگا، کرائے داروں کی کمی نہیں ہے۔‘‘ وہ بکتا جھکتا بغیر کوئی بات سنے چلا گیا۔بے بسی سے آفرین کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
وہاج پریس میں کام کرتا تھا، تنخواہ کم تھی مگر اوور ٹائم لگاکر گزارا ہوجاتا تھا۔ گھر کا کرایہ، بچوں کی فیس اور وین کا خرچ نکل جاتا تھا۔ مگر کچھ مہینوں سے لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اوور ٹائم نہیں لگ رہا تھا، بچوں کی وین ہٹاکر آفرین نے بچوں کو لانے کی ذمہ داری سنبھالی۔ صبح وہاج بائیک پر چھوڑ دیتا تھا۔ اس مہینے بجلی کا بل زیادہ آیا تھا، وہ بھرنے کی وجہ سے کرایہ ادا کرنے کے پیسے نہیں بچے۔
آفرین نان میٹرک تھی لیکن سلائی کا کام جانتی تھی، کبھی کبھی کام ملتا تو کرلیتی۔ اس نے اپنی سہیلی فرح کو ادھار پیسوں کے لیے میسج کیا، اس نے معذرت کرلی کہ ’’میں نے چھوٹے بیٹے کا داخلہ کروایا ہے اس وجہ سے ہاتھ تنگ ہوگیا ہے، مگر ایک کام ہے اگر تم کرسکو، اچھے پیسے مل جائیں گے۔‘‘
’’ہاں تم بتاؤ میں کرلوں گی، محنت کرنے سے میں گھبراتی نہیں ہوں۔‘‘
’’میری پڑوسن کو اپنی بیمار ساس کی جزوقتی دیکھ بھال کے لیے بھروسے والی خاتون کی ضرورت ہے، تم میرے گھر آجاؤ، میں بات کروا دیتی ہوں۔‘‘
فرح کا گھر قریب ہی تھا، وہاج سے اجازت لے کر وہ فرح کے گھر جا پہنچی۔ بیس ہزار ماہانہ پر دن میں پانچ گھنٹے مریضہ کی دیکھ بھال کرنے کی بات طے ہوگئی، کچھ کپڑے سلائی کے لیے بھی دیے۔ آفرین نے دل جمعی سے ان کے سارے کام کیے۔ فرح کے کہنے سے انہوں نے آدھی تنخواہ ایڈوانس بھی دے دی۔
وہاج گھر آئے تو آفرین نے مسکرا کر چائے کا کپ دیتے ہوئے ساری بات بتائی اور پیسے وہاج کے ہاتھ میں دے دیے۔
’’آفرین تم خدا کی طرف سے بہترین تحفہ ہو میرے لیے، جب بھی مشکل وقت آتا ہے تم اسی طرح میرا ساتھ دیتی ہو۔‘‘ وہاج نے آفرین کا ہاتھ تھام کر کہا۔
’’سرتاج! جب اچھا وقت تھا تو آپ نے ہر طرح میرا اور بچوں کا خیال رکھا، اب پریشانی میں مَیں آپ کو اکیلا کیسے چھوڑ سکتی ہوں! ابھی جاکر مالک مکان کو کرایہ ادا کردیں، اللہ نے چاہا تو جلد ہی اچھے دن بھی آئیں گے۔‘‘ آفرین نے مسکراتے ہوئے وہاج کے کندھے سے سر ٹکا دیا۔