انسانی زندگی کی ایک نہایت قابلِ قدر خوبی ہے کہ اگر انسان اس پر کاربند ہوجائے تو دنیا اس کی گرویدہ ہوجائے گی۔ وہ خوبی ہے حسنِ اخلاق۔ یعنی لوگوں سے اچھا برتاؤ رکھنا، ان سے محبت اور نرمی سے پیش آنا۔ آپ ﷺ نے اس زریں اصول کے مطابق زندگی گزاری اور مثالی زندگی کا عملی نمونہ پیش کیا۔ نبی ﷺکا فرمان ہے کہ تم میں سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جو اخلاق میں سب سے اچھے ہیں۔ امام مالک کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا’’مجھے حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔‘‘ اگر انسان لوگوں کے ساتھ حسنِ اخْلاق کا معاملہ کرتا ہے، کسی سے محبت سے بات کرتا ہے، پڑوسیوں، رشتہ داروں کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے، لوگوں سے محبت و نرمی سے پیش آتا ہے تو مثلِ آفتاب چمکنے لگتا ہے۔ حضور اقدس کا اخلاقِ عظیم ملاحظہ ہو کہ جب آپ نے کلمۂ حق بلند کیا تو سارا زمانہ آپ کا دشمن ہوگیا تھا۔ لوگ آپ کو برا بھلا کہتے ۔ آپ ﷺ پر آوازے کستے۔ آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھاتے لیکن آپ ﷺکبھی غصہ میں نہ آتے، نہ کبھی کسی کو برا بھلا کہتے۔ ہمیشہ برائی کا جواب بھلائی سے دیتے۔ اور ظالموں کو نہ صرف معاف فرماتے بلکہ ان کے لیے دعا بھی کرتے۔ سبحان اللہ!
یا درکھئے ہمارے نبی ﷺ نے لوگوں سے بہتر برتاؤ اور اچھے اخلاق سے پیش آنے کی وصیت فرمائی ہے۔ ایک داعی کی زندگی میں تو اخلاق کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ نبی ﷺ کی نرم دلی اور شفقت کو قرآن نے خدا کی رحمت قرار دیا ہے۔ اور اس سے سارا زمانہ مستیفض ہوا۔ اگر ہم دین کی دعوت کا کام کرتے ہوں تو کئی مواقع ایسے آئیں گے کہ ہمیں کئی اعتراضات اور سخت و سست سننا پڑسکتا ہے۔ اس وقت ہمیں چاہیے کہ صبر و تحمل سے کام لیں اور اپنے اخلاق کو نہ گرنے دیں کیونکہ حسنِ اخلاق سے انسان کو وہ درجہ حاصل ہوتا ہے جو رات کو عبادت کرنے والے اور دن کو روزہ رکھنے والے شخص کا ہوتا ہے۔ حضرت جابر کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ان کی نشست مجھ سے قریب ہوگی جو اخلاق میں سب سے اچھے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پیارے نبی کا قرب ہمیں حاصل ہو تو اپنے اخلاق کو بہترین بنائیں۔ ابو درداء نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن مومن کی میزان میں سب سے وزنی چیز اس کا حسنِ اخلاق ہوگی۔ حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ اکثر لوگ کس وجہ سے جنت میں داخل ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا تقویٰ اور حسنِ اخلاق سے۔ اگر ہم دنیا اور آخرت میں سرخ روئی چاہتے ہیں تو ہمیں بہترین اخلاق کا پیکر بننا ہوگا۔