بہو۔۔ بیٹی اور بہو

مجیر احمد آزاد، دربھنگہ

نغمہ کا خط ملا تو آسیہ بیگم کو حیرانی ہوئی۔ وہ جلد از جلد اپنی بیٹی کی تحریر پڑھ لینا چاہتی تھیں۔ خط مکمل ہوتے ہی دہلی کا وہ سفر ذہن میں پھر سے تازہ ہو اٹھا اور وہ یادوں میں کھوگئیں۔

کال بیل دیر تک بجتی رہی، پھر دروازہ حمیدن بی بی نے کھولا۔ ان کا چہرہ پسینے میں شرابور تھا جسے وہ آنچل سے بار بار پوچھ رہی تھی۔ اس نے آسیہ بیگم کو اچانک دیکھا تو لمحہ بھر کے لیے حیرت زدہ ہوگئی۔ لیکن دوسرے ہی پل جھینپتی ہوئی خوش آمدید کہا اور ڈرائنگ روم میں بٹھاتے ہوئے اپنی بہو نغمہ کو آواز دی جو دروازے کی گھنٹی سے بے پرواہ بستر پر دراز ٹی وی دیکھنے میں مستغرق تھی۔ حمیدن بی بی دہلی اچانک آنے کی وجہ اور حال احوال پوچھنے لگی۔ آسیہ بیگم کے ہمراہ ان کی بہن تھی جس کے یہاں وہ رکی تھیں۔ نغمہ کے آتے ہی حمیدن بی بی باورچی خانے میں چلی گئی۔

آسیہ بیگم نے بیٹی کو خوش دیکھا تو مانو نہال ہوگئیں۔ تینوں ایک ساتھ ہوئے تو نغمہ کے قہقہے گونجنے لگے۔ آسیہ بیگم نہایت سنجیدہ ہوگئیں۔ جب حمیدن بی بی ڈرائنگ ہال کے ٹیبل پر ناشتہ سجانے لگی۔ نغمہ اپنی خالہ سے محوِ گفتگو رہی اور آسیہ بیگم اپنی سمدھن کی مہمان نوازی کو نہارتی رہیں۔ حمیدن بی بی بڑی خوش اسلوبی سے ناشتہ چننے کے بعد یہ کہتی ہوئی دوسرے کمرے میں چلی گئی: ’’آپ سب ناشتہ کیجیے میں ذرا دوسرے کام دیکھ لیتی ہوں۔ نغمہ بیٹی تم امی اور خالہ جان کی خاطر مدارات کرو۔‘‘

ابھی وہ ڈرائنگ ہال کے باہر جانا چاہتی ہی تھی کہ نغمہ کی آواز سنائی پڑی: ’’ممی جی ذرا مینگو شیک بنادیتیں، خالہ جان کو بہت پسند ہے۔‘‘

حمیدن بی بی کے قدم چند ساعت کے لیے رکے پھر وہ مسکراتی ہوئی بہو کی فرمائش پوری کرنے میں جٹ گئی۔ حالانکہ آسیہ بیگم نے ’’اس کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ کہہ کر اپنی سمدھن کو منع کرنے کی کوشش کی لیکن حمیدن بی بی مہمانوں کی عزت اور خاطر کرنا جانتی تھی۔

ناشتے کے بعد نغمہ اپنی امّی کو اپنا گھر دکھانے لگی۔ وہ نغمہ کے دہلی سکونت اختیا رکرنے کے بعد پہلی دفعہ یہاں آئی تھیں۔ نغمہ کی شادی انھوں نے اپنے آبائی وطن میں کی تھی۔ اس وقت محفوظ الرحمن کی انجینئرنگ کے بعد نئی نئی نوکری لگی تھی۔ دہلی میں پوسٹنگ تھی مگر گاؤں میں ان کی کاشت کی زمینیں اور آباء و اجداد کا دیا ہوا گھر تھا۔ والد کے انتقال کے بعد حمیدن بی بی نے زمین کے کچھ حصے فروخت کرکے اس کی تعلیم مکمل کی تھی۔ محفوظ الرحمن کے علاوہ گھر میں کوئی دوسری اولاد نہیں تھی۔ حمیدن کے جفاکش اور بیٹے کے لیے دل و جان نثار کرنے کے جذبے سے متاثرہوکر ہی آسیہ بیگم نے اپنی بیٹی نغمہ کی شادی محفوظ الرحمن سے کی تھی۔ محفوظ کی محنت اور ایمانداری کو دیکھتے ہوئے محکمہ نے اس کی ذمہ داری بڑھادی تھی۔ بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں نے انہیں مصروف کردیا تھا۔ یہاں تک کہ گاؤں کا آنا جانا اس کے لیے دشوار ہونے لگا تھا۔ ادھر نغمہ بھی چاہتی تھی کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہے۔ محفوظ کے لیے فیصلہ کرنا مشکل تھا مگر حمیدن بی بی نے یہ مرحلہ بھی آسان کردیا۔ وہ گاؤں میں اکیلے رہنے پر راضی تھی لیکن محفوظ ضعیفی کی طرف گامزن اپنی ماں کو اکیلے کیسے چھوڑ سکتا تھا۔ آخر کار اس نے دہلی کے ایک رہائشی علاقے میں فلیٹ خریدا اور گاؤں کی زمینیں بٹائی داروں کے حوالے کر کے امی اور نغمہ کو اپنے پاس بلالیا۔ نغمہ کی دلی مراد پور ہوئی اور حمیدن بیٹا بہو کی خوشی کی خاطر ترکِ وطن کے کرب کو بڑی چابک دستی سے چھپا گئی۔ یہ دوسری بات تھی کہ گاؤں سے چلتے وقت اس کی آنکھو ںسے آنسو جاری ہوگئے تھے۔

آسیہ بیگم نے اپنی بیٹی کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا تھا۔ خوبصور ت تو وہ تھی ہی گھر کی سجاوٹ اس کی ہابی تھی۔ دہلی آکر اس میں کئی تبدیلیاں آگئیں، کچھ شہری کلچر کی مجبوریاں اورکچھ شوہر کی جانب سے ملنے والی آزادی نے اس کی خواہشوں کو بڑھا دیا۔ پاس پڑوس کا ماحول بھی کچھ ایسا ہی تھا۔

آسیہ بیگم نے دیکھا فلیٹ میں ہر شئے قرینے سے ہے۔ تین کمروں کے اس فلیٹ میں ایک کمرہ مہمانوں کے لیے تھا۔ دوسرے بڑے کمرے میں داخل ہوتے ہی اندازہ لگانا آسان تھا کہ یہ کمرہ نغمہ کا تھا۔ ایک کنارے نئے ڈیزائن کے صوفے لگے تھے، کھڑکیوں پر پڑے دبیز پردے خوبصورتی میں اضافہ کررہے تھے۔ نغمہ نے بیٹھنے کے لیے کہا اور سیر سپاٹے کے البم دکھانے لگی۔ آسیہ بیگم تصویریں دیکھتی ہوئی ایک جگہ ٹھہر گئیں اور نغمہ سے مخاطب ہوئیں۔

’’ارے ہاں! تمہاری ساس تصویروں میں کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ان کو اپنے ساتھ باہر نہیں لے جاتے کیا؟‘‘

’’وہ جانا کہاں چاہتی ہیں، گھریلو کاموں میں لگی رہتی ہیں ہمیشہ۔‘‘ نغمہ نے جواب دیا۔

تیسرے کمرے میں داخل ہوتے ہی آسیہ بیگم نے دیکھا کہ حمیدن بی بی ایک کنارے مصلّی بچھائے نماز میں مصروف ہیں۔ وہ کمرہ قدرے چھوٹا اور سادہ لگا۔ نقش و نگار تو یکساں تھے مگر سادگی میں کشش ہوتی ہے نا۔ وہ کچھ دیر اس کمرے میں رکنا چاہتی تھی مگر حمیدن بی بی کو یادِ خدا میں پایا تو تینوں ڈرائنگ ہال میں واپس آگئے۔

نماز سے فارغ ہوکر دستر خوان چنا گیا، نغمہ کے ساتھ دونوں مہمان شریکِ طعام ہوئے۔ حالانکہ آسیہ بیگم چاہتی تھیں کہ حمیدن بی بی ساتھ ہوں مگر کچھ تو نغمہ کی بے پروائی اور اس سے زیادہ سمدھن کی مہمان نوازی کی ضد۔ کھانے کے لوازمات اتنے لذیذ تھے وہ تعریف کرتے نہیں تھک رہی تھیں۔ ذائقہ تو عمدہ ہونا ہی تھا کہ حمیدن بی بی نے بڑے چاؤ سے بنایا جو تھا۔ کھانے کے بعد آسیہ بیگم نے آخر کار اپنی سمدھن کو پکڑ ہی لیا۔ جو صبح سے تواضع کا بہانا بناکر بیٹھنے سے کترارہی تھیں۔ صوفے پر سامنے ہوتے ہی انھوں نے پوچھ لیا: ’’دہلی میں آپ کا دل تو لگ گیا ہوگا اب۔‘‘

’’ہاں اللہ کا کرم ہے اس دیار میں بھی چھت نصیب کی اس نے اور پھر ہماری دنیا بھی تو اتنی ہی چھوٹی ہے نا، بیٹے بہو کے ساتھ باقی زندگی گزر ہی جائے گی۔‘‘ حمیدن بی بی کا نرم لہجہ متاثر کن تھا۔

’’نغمہ تو آپ کی خدمت کرتی ہی ہوگی، کوئی شکایت میری بیٹی سے ہو تو ضرور کہیے میں سمجھاؤں گی۔‘‘ آسیہ بیگم نے پوچھا۔

’’میں تو اسے اپنی بیٹی مانتی ہوں پھرکیا شکایت، پڑھی لکھی ہے، دین دنیا کا علم ہے ہی اسے اور ہمیں کیا چاہیے۔‘‘ حمیدن بی بی نے بڑے ہی آرام سے جواب دیا مگر آنکھوں میں تیرتی ہوئی نمی آسیہ بیگم سے چھپا نہ سکی۔ آسیہ بیگم اندر سے دہل گئیں۔ واقعی حمیدن بی بی کی جتنی تعریفیں سنی تھیں سچ پایا۔ انھوں نے کرید کرید کر کئی باتیں کئی زاویے سے جاننا چاہیں مگر صابرہ و شاکرہ حمیدن بی بی کے ہونٹ شکر خدا کے علاوہ شکایت کے لیے نہیں کھلے۔ لیکن کہا جاتا ہے درد کو چھپانا آسان نہیں ہوتا۔ وہ چہرے اور آنکھوں میں ابھر آتا ہے۔ چند لوگ اسے دیکھ لیتے ہیں اور کچھ کی نظریں چمک دمک میں کھو کر وہاں تک نہیں پہنچ پاتیں۔

اب واپسی کا وقت تھا۔ حمیدن بی بی نے محفوظ الرحمن کے آنے تک رکنے کی درخواست کی مگر پھر آنے کا وعدہ کرکے وہ چل پڑیں۔ دروازے تک چھوڑنے نغمہ آئی تھیں۔ وہ گلے لگ کر الگ ہوئی تو بڑی سنجیدگی سے آسیہ بیگم نے کہا۔

’’نغمہ مجھے تمہارے یہاں آکر بہت افسوس ہوا، پتہ نہیں میری تربیت میں کیا کمی رہ گئی تھی کہ اللہ نے یہ دن دکھلایا۔ اپنی ساس کو ماں کا درجہ دو ورنہ دونوں جہاں میں ذلت تمہارا مقدر ہے۔ میں اب تمہارے یہاں اسی دن آؤں گی جب مجھے یہ خبر مل جائے کہ تم نے شوہر کی والدہ کو فکر وعمل سے اپنی ماں مان لیا ہے۔‘‘

آج خط پڑھتے ہوئے دہلی کا وہ واقعہ آسیہ بیگم کی آنکھوں میں ابھر آیا۔ خط کی تحریر پر دوبارہ ان کی نظریں پھسلتی گئیں۔

’’امی جان… میں بے حد شرمندہ ہوں کہ میرے عمل سے آپ کو تکلیف پہنچی۔ میں فون پر آپ سے باتیں نہیں کہہ پاتی جو خط میں لکھ رہی ہوں۔ میں نے اپنا گھر پوری طرح سنبھال لیا ہے، عمدہ اور لذیذ کھانے بھی بنانا ساس سے سیکھ چکی ہوں۔ آپ یقین کیجیے امی، میں اب ان سے کوئی کام نہیں لیتی۔ گھریلو کام کے لیے خادمہ ہے اس کے باوجود ہمہ وقت ان کی خدمت میںلگی رہتی ہوں۔ ان کی خدمت میں مجھے کتنا سکون ملتا ہے اس کا بیان ممکن نہیں۔ یہ جان کر آپ کو اطمینان ہوگا کہ ہم دونوں ہر قدم پر ان سے مشورہ کرتے ہیں۔ اب وہ بھی بہت خوش رہتی ہیں۔ اور تو اور ملنے جلنے والوں سے میری تعریف کرتے نہیں تھکتیں۔ امی جان! آپ کی تنبیہ نے میری آنکھیں کھول دیں۔ آپ کی سخت ناراضگی کے سامنے یہ کہنے کی ہمت تو نہیں کررہی ہوں مگر اب ایک دفعہ آپ میرے یہاں تشریف لائیں تو یقینا ہمیں دعاؤں کے قابل سمجھتیں… آپ کی بیٹی نغمہ۔

آسیہ بیگم کی آنکھیں نم ہوگئیں اور زبان سے صرف اتنا نکلا۔

’’اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری بیٹی دیر ہونے سے پہلے ہوش میں آگئی۔‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں