بیداری قلب

بدیع الزماں سعید نورسی

میں رمضان میں ایک روز قرآن کی تلاوت سننے ’’جامع بایزیداستنبول‘‘ گیا۔ قرآن مجید معجزاتی انداز میں کہہ رہاتھا:
’’ہرذی روح کو موت کامزا چکھنا ہے۔‘‘ (آل عمران:۱۸۵)
یہ آیت میں نے سنی اور میرے دل میں گھر گئی اور پھر وہاں رچ بس گئی۔ اس نے میری لاپروائی اور گہری غفلت کو ریزہ ریزہ کردیا۔ میں نے جب بھی آئینے میں اپنے سفید بالوں کو دیکھا، ان سفید بالوں نے مجھے بتایاکہ ہماری موجودگی کااحساس کرو اور ان سفید بالوں کی تنبیہ نے تمام صورت حال کو مجھ پر واضح کردیا۔
میں نے غورکیاتو محسوس ہواکہ میری جوانی جس نے اپنی خرمستیوں میں مجھے اس قدر گرفتار کیاتھااور جس پر مجھے اتنا اعتماد تھا وہ مجھ سے رخصت ہورہی ہے۔ یہ دنیاوی زندگی جس سے میں بہت زیادہ محبت کرتاہوںاور جس میں اس قدر مشغول ہوں، وہ ختم ہونے کے قریب ہے اور وہ دنیا جس کے ساتھ میرا گہرا تعلق ہے اور جس سے درحقیقت میں پیار کرتا ہوں مجھے کہہ رہی ہے کہ میں ایک اچھا سفر کروں اور مجھے آگاہ کررہی ہے کہ میںاس مہمان خانے کو چھوڑنے والی ہوں اور خود کو اللہ حافظ کہہ کر جانے کی تیاری کررہی ہے۔ ان باتوں کو معجزاتی خوبیوں والا قرآن یوں بیان کرتا ہے:
’’ہرذی روح کو موت کامزا چکھنا ہے۔‘‘ (آل عمران:۱۸۵)
اس بیان کے جو معنی میرے دل میں ظاہر ہوئے وہ یہ ہیں: نسل انسانی ایک جاندار مخلوق ہے۔ یہ دوبارہ زندہ ہونے کے لیے مرجائے گی اور کرہ ارض ایک جاندار مخلوق ہے اور اسے بھی ابدی شکل حاصل کرنے کے لیے مرناہے اور دنیا بھی ایک جاندار مخلوق ہے، یہ بھی اُخروی زندگی کے لیے ختم ہوجائے گی۔ پس جب ہم اس حالت میں ہیں تو میں اپنی حالت کو دیکھتاہوں اور میںاُس جوانی کو دیکھتاہوں جو کہ خوشی کا ذریعہ ہے وہ رخصت ہورہی ہے اور بڑھاپا جو کہ غموں اور دکھوں کاذریعہ ہے نزدیک پہنچ رہاہے۔ وہ زندگی جو بہت ہی چمکدار اور روشن ہے وہ رخصت ہورہی ہے۔ جب کہ موت جو خوف زدہ کرتی ہے اور تقریباً تاریک ہوتی ہے وہ پہنچنے کی تیاری کررہی ہے اور یہ پیاری دنیا جسے مستقل اور پائیدار تصور کیاجاتاہے اور جولاپروا لوگوںکی محبوبہ ہے تیزی سے اپنے انجام یعنی موت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اپنے آپ کو دھوکہ دینے اور اپنے ذہن کو دوبارہ عدم توجہی کی طرف راغب کرنے کے لیے میں نے استنبول میں اپنی سماجی حیثیت کے باعث حاصل خوشیوں پر غور کیاجو کہ میری حیثیت سے کہیں بڑھ کر تھیں لیکن مجھے اس میںکوئی بھی فائدہ نظر نہ آیا۔ ان کی تمام توجہ، عزتیں اور تسلیاں اور تشفیاں صرف اُسی وقت تک ہیں جب تک قبر کاواضح طورپر نظر آنے والا دروازہ کھل نہیں جاتا اور وہاں پر یہ سب کچھ ختم ہوجائے گا اور تب میں نے دیکھاکہ یہ سب کچھ ایک ناگوار، مکرو فریب، خودفریبی اور عارضی سی حیرت زدگی ہے جو عزت اور شہرت کے نقاب کو سجانے کے لیے ہے جو کہ شہرت کے عبادت گزاروں کا تخیلاتی ہدف ہے۔ میں نے سمجھ لیاکہ یہ تمام چیزیں جنہوںنے مجھے دھوکا دیا ابھی تک مجھے کوئی دلاسا نہیں دے سکیںاور ان میں روشنی کی قطعاً کوئی کرن نہیں۔
میں نے دوبارہ جامعہ بایزید میں تلاوت کرنے والے کو سننا شروع کردیاتاکہ قرآن کی الہامی تعلیمات کو سن سکوں اور غفلت کی زندگی سے بیدار ہوجائوں، پھر میں نے قرآن کے مقدس فرمان سے یہ نوید سنی۔
’’اور انہیں خوشی کی خبر دے دو جو یقین رکھتے ہیں۔‘‘ (البقرہ:۲۵)
قرآن کی روشن تعلیمات کے ذریعے میں نے ایسے نکات پر جہاں میں وحشت، ویرانی اورتنہائی محسوس کرتاتھا، تسلی وتشفی، امید اور روشنی حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں نے بیماری کے اندر سے ہی اس کا علاج پایا، میں نے خود اندھیرے سے ہی روشنی تلاش کی، میں نے دہشت میں سے ہی دلاسا تلاش کیا۔
سب سے پہلے میں نے موت کا چہرہ دیکھا جس کے بارے میں یہ تصور کیاجاتاہے کہ یہ بہت ہی بھیانک چیز ہے اور ہر کسی کو ڈراتی ہے۔ قرآن کی روشن تعلیمات کے ذریعے میں نے دیکھاکہ اگرچہ موت کا نقاب کالا، اندھیرا اور بدصورت ہے۔ لیکن مسلمانوں کے لیے اس کاچہرہ روشن اور خوبصورت ہے۔
موت فنا ہونے کا نام نہیں، یہ تو ایک جدائی ہے بلکہ یہ ابدی زندگی کی ابتدا ہے۔ یہ انسانی زندگی کے فرائض کی ادائیگی کے بعد آرام کی حالت ہے اور یہ ایک قسم کی خدمات سے سبکدوشی ہے۔ یہ دراصل رہائش کی تبدیلی ہے۔ یہ اپنے دوستوں کے قافلے سے ملنے کا ایک طریقہ ہے جو کہ پہلے ہی اس دنیا سے ہجرت کرگئے ہیں۔ میں نے ایسی ہی سچائیوں سے موت کا حقیقی اور خوبصورت چہرہ دیکھا۔ میںنے موت کے چہرے کو خوف کے ساتھ نہیں دیکھا۔
اب میں نے اپنی رخصت ہوتی جوانی پر غور کیا۔ وہ جوانی جس کے گزرنے پر ہرکوئی روتا ہے جو انہیں احمق بناکر خواہشات کا غلام بنادیتی ہے اور ان کے لیے لاپروا اور گناہوں سے بھری زندگی گزارنے کا باعث بنتی ہے۔ میں نے ایک انتہائی خوبصورت زرق برق لباس پہنے ایک انتہائی بدصورت ، مدہوش اور بے قوف چہرہ دیکھا۔میں اس کی اصل حقیقت اور فطرت کو نہ پہچان سکا کہ اس نے چند سال تک مجھے اس خوشی اور نشہ میں مدہوش رکھاکہ میںاس دنیا میںایک سو سال رہوں اور یہ مجھے اتنے ہی عرصے رلاتی رہے۔ ایسے ہی ایک شخص نے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
’’کہ اگر میری جوانی کا صرف ایک دن ہی لوٹ کر آجائے تو میںاسے بتادوںکہ بڑھاپا اپنے ساتھ کس قدر رنج و الم لے کر آیا ہے۔‘‘
درحقیقت اوپر بیان کیے گئے بوڑھے کی طرح دوسرے بوڑھے لوگ جو جوانی کی اصل حقیقت کو نہیں جانتے، جب اپنی جوانی کے متعلق سوچیں گے تو سوائے ندامت اور پچھتاوے کے آنسوئوں کے، ان کے پاس کچھ نہ ہوگا۔ جب کہ مضبوط ذہن اور دل کے مسلمان نوجوان اپنی جوانی عبادت، اچھے اعمال اور ابدی زندگی کے نفع کے لیے استعمال کریںگے یہ بہت ہی طاقتور، قابل قبول اور خوش کن ذریعہ ہیں کہ وہ اپنے اچھے کاموں اور تجارت کو محفوظ کریں اور وہ جو اپنے مذہبی فرائض کو جانتے ہیں اور اپنی جوانی کو بے جا استعمال نہیں کرتے تو یہ ایک بہت قیمتی اور خوشی دینے والا خدائی عطیہ ہے۔ جب یہ جوانی اعتدال پسندی، دیانت داری اور خوف خدا سے تجاوز کرجاتی ہے تو اس میں بہت سے خطرات شامل ہوجاتے ہیں اور یہ ابدی خوشی اور دنیاوی زندگی کو نقصان پہنچاتی ہے۔ درحقیقت جوانی کی مختصر خوشی کے بدلے میں بڑھاپے کا طویل غم و الم اور افسوس بخشتی ہے۔
بہت سے لوگوں کے لیے جوانی بہت نقصان دہ ہے، ہم بوڑھے لوگوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اُس نے ہمیں جوانی کے نقصانات اور خطرات سے بچایا۔ دنیا کی ہر چیز کی طرح جوانی کی خوشی کو رخصت ہونا ہے۔ اگرانہوںنے اسے عبادت اور اچھے کاموں پر صرف کیاہوگا تو ایسے نوجوانوں کی زندگی کو بقا حاصل ہوگی اور انہیں اس ابدی زندگی میں جوانی کے ثمرات ملیںگے۔
آگے چل کر میں نے اس دنیا پر غورکیاجس کے باعث لوگ احمق بنتے ہیں اور جن کے وہ عادی ہوچکے ہوتے ہیں۔ قرآن کی روشنی کے ذریعے میں نے دنیا کے تین چہروں کو دیکھا، جس میں ایک کے اندر دوسرا چھپا ہوا ہے۔
پہلا چہرہ
یہ خدا کے ناموں کی طرف دیکھتاہے اور یہ اُن کے لیے شیشہ کی مانند ہے۔
دوسرا چہرہ
یہ آخرت کی زندگی دیکھتا ہے اور یہ اس کی کاشتکاری ہے۔
تیسرا چہرہ
یہ دنیا کی طرف دیکھتاہے۔ یہ لاپروا لوگوں کے کھیل کا میدان ہے۔
اس کے علاوہ اس دنیا میں ہر ایک اپنی وسیع ذاتی کائنات رکھتاہے۔ سادہ الفاظ میں نسل انسانی کے لیے ایک دنیا کے اندر کئی دنیائیں ہیں لیکن ہر کسی کی نجی دنیا کا ستون اُس کی اپنی زندگی ہے۔ جوں ہی اُس کا جسم اس دنیا سے باہر جائے گا۔ اُس کی دنیا بھی ختم ہوجائے گی۔ یہ اُس کا یوم قیامت ہوگا، چونکہ لاپروا اور نظرانداز کرنے والے لوگ اس بات کو یاد نہیں رکھتے کہ ان کی دنیا کتنی جلدی تباہ و برباد ہوجائے گی۔ وہ فرض کرلیتے ہیں کہ یہ دنیا مستقل ہے اور اس کی پوجا کرنے لگتے ہیں۔ میں اپنے بارے میں بھی سوچتاہوں، میری بھی ایک نجی دنیا ہے جو جلد ہی ختم ہوجائے گی اور دوسرے لوگوں کی دنیائوں کی طرح مسمار ہوجائے گی۔ اس وسیع دنیا میں میری مختصر سی دنیا کی کیا وقعت ہے؟
تب قرآن کی روشن تعلیمات کے ذریعے میں نے دیکھاکہ میرے لیے اور ہر ایک کے لیے یہ دنیا تجارت کی ایک عارضی جگہ ہے، ایک مہمان خانہ جو ہر روز بھرتا اور خالی ہوتاہے، ایک بازار جو سڑک کے کنارے مسافروں کی خریداری کے لیے بنایاگیاہے۔ یہ ایک ہمیشہ تجدید ہونے والی لوح جس میں ابد سے پہلے کے نقش ثبت کیے جاتے ہیں اور جس پر مسلسل لکھااور مٹایاجارہا ہے اور ہر فصل بہار ایک سنہری حرف ہے اور ہر موسم گرما بہت اچھے طریقے سے ترتیب دی گئی نظم ہو، جوشیشوں سے بنی ہے اور شعائیں منعکس کررہی ہے اور تمام عظیم الشان چیزوں کے بنانے والے کے ناموں کے اعلان کی تجدید کررہی ہے۔ آخرت کی کیاری، خدائی رحمت کی پھولوں کی سیج ہے جب کہ دنیا ایک خصوصی ، عارضی کا رخانہ ہے جہاں ایسے علامتی تختے آویزاں ہیں جن کی نمائش اگلی دنیا میں کی جائے گی۔
میں اللہ تعالیٰ کا جو تمام اشیاء کاپیدا کرنے والا ہے، لاکھ لاکھ شکر ادا کرتاہوں جس نے دنیا کو اس اچھے طریق پر تخلیق کیا اور میں نے سمجھ لیاہے کہ دنیا کی خوبصورتی اور اس کے اصلی چہرے سے محبت ہمیں آخرت کا رستہ دکھاتی ہے لیکن بنی نوع انسان کو جو خدائی اسماء عطا کیے گئے تھے وہ اُس نے اس عارضی، مکروہ، نقصان دہ اور لاپروا چہرے کی خاطر ضائع کردئے ہیں، لیکن کامیاب لوگ اس حدیث کے مفہوم کو سمجھتے ہیں کہ ’’اس دنیا کی محبت خدائی قانون سے انحراف کا سبب ہے۔‘‘
میں نے یہ حقیقت اور سچائی قرآن کی روشنی کے ذریعے حاصل کی اور بڑھاپے کے انتباہ اور میرے عقیدے نے میری آنکھیں کھول دیں۔ مجھے ایک حقیقی دلاسے، طاقت ور امیداور چمکدار روشنی کاتجربہ ہواہے۔ میں اپنی بڑھاپے کی عمر کاشکرگزارہوں اور میں خوش ہوں کہ میری جوانی گزر گئی ہے۔ اپنے بڑھاپے کو آنسوئوں کی نظر نہ کریں۔ خدا کا شکر کریں، کہ اس نے آپ کو ایک طویل زندگی دی۔ پچھتاوے اور ندامت سے گریز آپ کو ایک نئی امید کی راہ دکھائے گا۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں