بیربل کی عقلمندی

ثریا جبیں

اکبر اعظم کے تقریباً تمام درباری بیربل سے جلتے تھے کہ اتنے کم عرصہ میں بادشاہ کی ناک کا بال ہوگیا ہے۔ یہی جلن انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتی تھی اور وہ موقع کی تاک میں رہتے تھے۔ ایک دن ایک خواجہ سرا نے موقع پاکر عرض کی کہ ’’جہاں پناہ! بیربل بہت دانا بہت ہوشیار بنا پھرتا ہے۔ اسے کہیے کہ میرے بھی تین سوالوں کا بھلا جواب تو دے۔‘‘

بادشاہ نے دربار میں بیربل سے کہا کہ ’’بھئی بیربل ہمارا خواجہ سرا تم سے تین سوالوں کا جواب چاہتا ہے۔ کیا تم دینے کو تیار ہو؟

بیربل بولے حاضر ہوں مہابلی!

خواجہ سرا بڑے ٹھسے سے آگے بڑھا اور پہلا سوال اس یقین سے داغ دیا کہ بیربل سات جنم بھی لے تو جواب نہ دے سکے گا۔ لیکن بیربل بھی بہت ہوشیار تھا، خواجہ سرا نے اس سے پوچھا:

’’بھلا بتائیے تو جناب بیربل صاحب دنیا کا مرکز کہا ںہے؟‘‘

بیربل نے بغیر کچھ دیکھے جہاں کھڑا تھا وہیں ایک لکڑی گاڑ دی اور کہا : ’’یہ ہے زمین کا مرکز۔ ایک انچ ادھر نہ ایک انچ ادھر، اگر یقین نہ ہو تو ناپ کر دیکھ لیجیے۔‘‘

اب کیا خواجہ سرا کی موت پکار رہی تھی کہ ناپنے کی حماقت کرتا۔ بے چارہ بیربل کا منھ تکتا رہ گیا۔ لیکن فوراً ہی سنبھل کر دوسرا سوال اگل دیا کہ ’’اچھا یہ فرمائیے کہ آسمان میں کتنے تارے ہیں؟‘‘

خواجہ سرا تو یہ سمجھ رہا تھا کہ میاں بیربل اس سوال پر پریشان ہوکر بغلیں جھانکنے لگیں گے۔ لیکن بیربل جیسے انسان کے لیے یہ سوال کیا مشکل تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ بتانا کون سا مشکل کام ہے، آپ ایک بھیڑ منگوائیے۔‘‘

شاہی حکم کی دیر تھی کہ پلک جھپکتے بھیڑ حاضر کردی گئی۔

بیربل نے بھیڑ کی طرف اشارہ کرکے کہا: ’’یہ ہے آپ کے سوال کا جواب۔‘‘

یہ سن کر بے چارہ خواجہ سرا بہت ہی سٹپٹایا اور کہا: ’’میں آپ سے ستاروں کی بات کررہا ہوں اور آپ نے بھیڑ سامنے کردی۔ صاف کہیے کہ آپ سے جواب بن نہیں پڑ رہا ہے۔‘‘

بیربل نے نہایت اطمینان سے کہا: ’’حضور! خفا کیوں ہوتے ہیں میں تو آپ کے سوال کا جواب ہی دے رہا ہوں۔ اس بھیڑ کے جسم پر جتنے بال ہیں اتنے ہی آسمان میں تارے ہیں۔ اگر غلط معلوم ہو تو گن لیجیے۔‘‘

یہ جواب سن کر بے چارے خواجہ سرا کی سِٹّی گم ہوگئی۔ یہاں تو بات ہی الٹ گئی تھی۔ وہ بیربل کو ذلیل کرنا چاہتا تھا لیکن اب اسی کی عزت کے لالے پڑگئے تھے۔ کتنی دیر تک وہ سنبھل نہ سکا۔ جب ذرا ہوش ٹھکانے آئے تو آخری لیکن بڑا ہی زبردست سوال کرڈالا۔ یقینا یہ سوال ایسا تھا کہ اچھے سے اچھا آدمی بھی جواب نہیں دے سکتا تھا۔ اس نے کہا:

’’جناب بیربل صاحب! اس سوال کا جواب اگر آپ عنایت فرمائیں تو زندگی بھر کے لیے آپ کا لوہا مان لوں گا۔ سوال ہے: ایک شخص کی بیوی دیوار کے سہارے لگی سیڑھی پر چڑھ رہی ہے ابھی وہ آدھی سیڑھی چڑھی ہے کہ اس کا شوہر کہتا ہے اگر اور اوپر چڑھو گی تو طلاق۔ نیچے اتروگی تو طلاق۔ سیڑھی پر سے کودوگی تو طلاق۔ اب بتائیے کہ ایسے میں اس شخص کی بیوی طلاق سے کس طرح بچ سکتی ہے؟‘‘

بیربل نے تیوری چڑھا کر کہا: ’’ایسے جاہل سے طلاق لے لینا ہی بہتر ہے۔ لیکن آپ طلاق سے بچنے پر اصرار کررہے ہیں تو سنیے۔ اس عورت کا بھائی وغیرہ اس عورت کو سیڑھے پر ہی رہنے دیتے ہوئے سیڑھی کو دیوار سے ہٹاکر نیچے رکھ دے اور عورت کو سیڑھی پر سے اٹھا کر زمین پر اتار دے۔ لیجیے وہ عورت طلاق سے محفوظ ہوگئی۔‘‘ یہ جواب سن کر ایک طرف تو تمام درباریوں نے شرم سے گردنیں جھکالیں اور دوسری طرف فخر سے اکبر اعظم کا سینہ پھول گیا۔ اب سوچو بیربل کو کتناانعام و اکرام ملا ہوگا اس کا تصور کرکے تم مزے لو۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146