بیساکھیاں پکڑا دو

ایرینا ایڈمیڈو/ سید عاصم محمود

’’بیرے او بیرے، ادھر آؤ بھئی۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ اس نے تمہاری آواز نہیں سنی۔ تم اسے زور سے آواز دو، ورنہ ہم صبح تک یہیں بیٹھے رہیں گے۔‘‘
’’تم اسے اپنا کام کرنے دو۔ وہ ہم سے ہدایات لے گیا ہے، کھانا لارہا ہوگا۔‘‘
’’لیکن کب تک؟ سامنے بیٹھے ہوئے لوگ ہمارے بعد آئے تھے لیکن انھیں کھانا دیا جاچکا ہے۔‘‘
’’ہم نے جس قسم کا کھانا منگوایا ہے، اس کی تیاری میں کچھ وقت لگتا ہے۔‘‘
’’نہیں بھئی، ایسی کوئی بات نہیں! ان کے اور ہمارے کھانے میں زیادہ فرق نہیں۔‘‘
’’میرا خیال ہے انھوں نے یہاں آنے سے پہلے ہدایات دے دی ہوں گی۔‘‘
’’تم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘
’’تاکہ ہم یہاں احمقوں کی طرح بیٹھے کھانے کاانتظار نہ کریں لیکن میں تمہیں یہ بات بتانے کی کیوں تکلیف کررہی ہوں؟ تم ہمیشہ اپنی مرضی کرتے ہو، تمہیں میری بالکل پروا نہیں۔‘‘
’’افوہ، خدا کے لیے کبھی مجھے معاف بھی کردیا کرو۔ اب مجھے کیا پتا کہ اس ہوٹل میں ہمارے ساتھ کیا سلوک جائے گا۔‘‘
’’تمہیں مجھ سے پوچھ لینا چاہیے تھا۔‘‘
’’میں نے پوچھا تھا۔‘‘
’’ہاں، پوچھا تھا لیکن کار میں بیٹھنے کے بعد اور وہ بھی آخری لمحات میں! تم ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہو۔ مجھے علم ہے کہ تمہاری نظروں میں میری کوئی اہمیت نہیں۔‘‘
’’کمال ہے، میں صرف تمہاری وجہ سے یہاں آیا ہوں ورنہ تمہیں معلوم ہے کہ میں گھر کا پرسکون ماحول پسند کرتا ہوں۔‘‘
’’اس قربانی کا بہت شکریہ! اب تم رات دن، اٹھتے بیٹھتے نہ جانے کب تک اپنی اس قربانی کا ذکر کرتے رہو گے۔‘‘
’’میں نے کبھی کسی بات کا بار بار ذکر نہیں کیا اور نہ ہی میں نے ابھی یہ کہا ہے کہ میں نے کوئی قربانی دی ہے۔‘‘
’’لواور سنو، پھر تم نے کیا کہا ہے؟‘‘
’’میںنے یہ کہا ہے کہ میں آج گھر ہی پر رکنا چاہتا تھا لیکن صرف تمہاری خاطر یہاں آیا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ تم یہاں آکر خوشگوار تبدیلی محسوس کررہی ہوگی۔‘‘
’’مجھے تو یہاں اور گھر کے ماحول میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔‘‘
’’اس لیے کیونکہ تم اسے محسوس نہیں کرنا چاہتیں۔‘‘
’’جی نہیں! اصل بات یہ ہے کہ تم ایک تنگ نظر اور غیر مہذب مرد ہو۔‘‘
’’اچھا، اب بس بھی کرو۔‘‘
’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تم ہمیشہ مجھے غصہ دلاتے ہو۔ اب میری زبان نہیں رک سکتی۔ تمہارے خیالات ہمیشہ بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑتے رہتے ہیں۔ بیرے او بیرے… پتا نہیں کم بخت کہاں چلا گیا، اب تک نہیں آیا۔ تم ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کرلو۔ میں یہ برداشت کر سکتی ہوں کہ میرا شوہر کم کمائے، ہم دونوں روکھی سوکھی کھاکر عزت کے ساتھ گزارہ کرسکتے ہیں لیکن اب جو ذلت آمیز سلوک میرے ساتھ کیا جارہا ہے، میں اسے برداشت نہیں کرسکتی۔‘‘
’’میری سمجھ میں نہیں آتا، کہ میں نے ایسا کیا کہہ دیا ہے جو تم میرے پیچھے پڑگئی ہو۔ تم ہمیشہ لڑائی جھگڑا شروع کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ لیتی ہو۔ حتی کہ چھٹی والے دن بھی تمہارا موڈ خراب رہتاہے۔ تم کیا یہ چاہتی ہو کہ تمہارے ہونٹوں سے جونہی حکم نکلے وہ آناً فاناً پورا ہوجائے۔‘‘
’’لیکن اب جو کچھ میرے ساتھ ہورہا ہے، وہ نہایت ذلت آمیز ہے۔ ان حالات میں کوئی بھی انسان پاگل ہوسکتا ہے۔‘‘
’’اپنے آپ کو پرسکون رکھو۔ زندگی کے ساتھ ویسے ہی پیش آنا چاہیے جیسی کہ وہ ہے۔‘‘
’’افوہ، اب تم اپنا فلسفہ لے کر بیٹھ گئے۔ مجھے پتہ ہے، تمہیں اس قسم کی باتوں سے لطف آتا ہے۔‘‘
’’تم خواہ مخواہ اپنے آپ کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کررہی ہو۔‘‘
’’اچھا جی، میں اپنے آپ کو پریشان کررہی ہوں۔ واہ بھئی واہ… اب میری زبان مت کھلواؤ۔‘‘
’’اگر کھل گئی تو پھر کیا ہوگا؟‘‘
’’ہاں، ہاں اڑاؤ میرا مذاق۔ میں جتنا دل چاہے بولوں گی۔ تم سے مطلب؟ میں ہمیشہ سچ بولتی ہوں، اور کسی سے نہیں ڈرتی۔‘‘
’’تم غلطی پر کب ہوتی ہو؟‘‘
’’دیکھا! اب تم نے سرعام میرا تماشا بنانا شروع کردیا۔ تم ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہو۔‘‘
’’میںتو صرف اپنی حیرت کا اظہار کررہا ہوں۔‘‘
’’لیکن … ارے یہ کیا، یہ لوگ تالیاں کیوں بجا رہے ہیں؟‘‘
’’شاید وہاں کوئی اہم شخصیت آئی ہے۔‘‘
’’خیر ہمیں کیا۔ پتہ نہیں بیرا کہاں مرگیا۔ ہم نے اب تک کھانا شروع نہیں کیا اور اب یہ کوئی وی آئی پی درمیان میں ٹپک پڑا۔‘‘
’’لو بھئی ہمارا کھانا آرہا ہے۔‘‘
’’خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔‘‘
’’تم کیا مچھلی کھاؤ گی؟‘‘
’’نہیں میرا دل نہیں چاہ رہا۔ ہیں یہ کیا، تم نے صرف ایک بوتل کیوں منگوائی ہے؟ اب دوسری منگوانے کے لیے ہمیں بیرے کی نازبرداریاں اٹھانی پڑیں گی۔‘‘
’’ہمیں دو بوتلوں کی ضرورت نہیں، ایک ہی کافی ہے۔‘‘
’’تمہیں علم ہے کہ میں کھاتے ہوئے دو بوتلیں پیتی ہوں۔‘‘
’’پچھلی بار یاد ہے کیا ہوا تھا، بوتلیں پی کر تمہاری طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ بوتلیں کم ہی پیا کرو ورنہ بیمار ہوجاؤگی۔‘‘
’’کیا کہا، میں بیمار ہوگئی تھی… کب؟ لو اب تم نے کہانیاں بھی گھڑنا شروع کردیں۔‘‘
’’کہانیاں گھڑنے لگ گیا ہوں؟ بھئی یہ دو ہفتے پہلے ہی کی تو بات ہے۔ اب یہ نہ کہو کہ تم وہ واقعہ بھول گئی ہو۔ اس شام کو تم نے خوب تماشا دکھایا تھا۔‘‘
’’تم تو بات کا بتنگڑ بنالیتے ہو۔ مجھے اس رات سردی لگ گئی تھی۔ اس واقعہ کا بوتلوں سے کوئی تعلق نہیں۔ تم ہمیشہ مجھے ذلیل کرنے کے موقع کی تلاش میں رہتے ہو۔ مجھے پتا ہے تم دوسری بوتل نہیں منگوانا چاہتے۔‘‘
’’بھئی میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا۔ تم جانتی ہو کہ میں تمہاری ہر معقول فرمائش پوری کرتا ہوں۔‘‘
’’اچھا جی، آپ کس فرمائش کو معقول خیال کرتے ہیں؟ ذرا میں بھی تو سنوں! آپ اکثر میری فرمائشیں ٹالتے ہیں۔ مجھے علم ہے کہ آپ بھی روایتی شوہروں کی طرح ہر وقت اپنے پیسے بچانے کی فکر میں رہتے ہیں لیکن کان کھول کر سن لیجیے، اب میں مزید برداشت نہیں کرسکتی۔ تمہارے ساتھ میری ساری زندگی شدید پریشانی میں گزری ہے لیکن میں بھی زبان پر شکوہ شکایت نہیں لائی۔ اس وقت بھی نہیں جب تم چند ٹکے کما کر گھر لاتے تھے۔ اب ویسے حالات نہیں رہے لیکن میں کسی صورت میں بھی یہ سب برداشت نہیں کرسکتی۔‘‘
’’میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ تم کس صورت حال کی بات کررہی ہو، شاید کہنا چاہتی ہو کہ تم احساس محرومی کا شکار ہو۔‘‘
’’ہاں، ہاں میں ہی محرومی کا شکار ہوں۔ اب بھی میں نے ہی دوسری بوتل منگوانے پر ہنگامہ کھڑا کیا ہے۔‘‘
’’تمہارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہنگامہ میںنے شروع کیا ہے؟‘‘
’’نہیں، نہیں میں نے کیا ہے۔‘‘
’’اچھا بھئی، میں نے ہی شروع کیا ہے، خوش! لیکن یاد رکھو تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔‘‘
’’مجھے پتہ ہے کہ تم مرجاؤ گے تو بھی دوسری بوتل نہیں منگواؤگے۔‘‘
’’کیونکہ مجھے تمہاری پچھلی بری حالت یاد ہے۔‘‘
’’تم تو اس کے پیچھے ہی پڑگئے۔ تم ہر وقت مجھے ستانے کے نت نئے طریقے سوچتے رہتے ہو۔‘‘
’’کیا بکواس ہے۔‘‘
’’اب تمہیں میری باتیں بھی بکواس لگنے لگیں… افوہ یہ بچہ کیوں رو رہا ہے۔؟ پتہ نہیں کب رونا بند کرے گا؟ جب سے ہم آئے ہیں، ایک منٹ کے لیے بھی چپ نہیں ہوا۔‘‘
’’اب تم اس ننھے سے بچے کے پیچھے پڑگئیں۔‘‘
’’اس کے پیچھے نہیں، میں تو اس کے ماں باپ کو کوس رہی ہوں۔ نہ جانے کیوں اسے اپنے ساتھ لے آئے۔‘‘
’’وہ اتنے چھوٹے سے بچے کو کہاں چھوڑ کر آتے؟‘‘
’’یہ تو ان کا مسئلہ ہے، اگر ان کے پاس بچے کو چھوڑ کر آنے کا بندوبست نہیں تھا پھر یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی، گھر ہی پر رہتے۔‘‘
’’اب چھٹی والے دن بھی انسان گھر پر رہے؟ انسان فطرتاً تبدیلی پسند کرتا ہے۔‘‘
’’یہ تو ٹھیک ہے، لیکن وہ ہمیں کیوں پریشان کررہے ہیں؟‘‘
’’میں تو بالکل پریشان نہیں ہورہا۔‘‘
’’افوہ، میں تو پریشان ہورہی ہوں، تم دوبارہ میرا مذاق اڑانے لگے ہو۔ تم باتوں باتوں میں میری طرف طنز کے تیر پھینکتے ہو۔‘‘
’’بخدا میرے ذہن میں ہرگز ایسا خیال نہیں تھا، میں تمہیں صرف یہ بتا رہا ہوں کہ بچے کا رونا فطری ہے لہٰذا اس پر دھیان نہ دو۔ تمہیں حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے۔ ذرا ذرا سی بات پر اپنی جان کو عذاب میں مت ڈالا کرو۔ چاروں طرف دیکھو، یہاں اور بھی بہت سے لوگ بیٹھے ہیں لیکن کوئی بھی بچے کے رونے سے پریشان نہیں۔‘‘
’’کیونکہ یہ سب لوگ بے حس ہیں، کسی کودوسرے کی پروا نہیں۔‘‘
’’یہ بات نہیں دراصل سب کو علم ہے کہ اس معاملے میں وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ یہ آسانی سے سمجھ میں آنے والی با ت ہے۔ اگر ہمارا بھی بچہ ہوتا تو یقینا تم اس کے رونے کی عادی ہوتی اور اب ننھے کے رونے سے پریشانی نہ محسوس کرتی۔‘‘
’’میرا کوئی بچہ نہیں تو اس کی وجہ بھی تم ہو۔‘‘
’’مجھے پہلی بار یہ بات معلوم ہوئی ہے۔‘‘
’’سچی بات تو کڑوی ہی ہوتی ہے۔ کیوں ٹھیک ہے نہ؟‘‘
’’خدا کے لیے اب جھگڑا بند کرو اور خاموشی سے کھانا کھاؤ۔‘‘
’’میں نے یہ فساد شروع نہیں کیا، تم ہی ہر بات کی کھال نکالے جارہے ہو۔‘‘
’’اچھا بابا، اب معاف کردو، میں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں۔‘‘
’’میں تمہیں کیوں معاف کروں، میری زبان بند نہیں ہوگی۔‘‘
’’ میں نے کہا ہے کہ اب بہت ہوچکا ہے۔‘‘
’’بہت ہوچکا؟ ابھی تو بہت کچھ باقی ہے۔ تم نے اپنے ذہن میں یہ بات بٹھالی ہے کہ میری وجہ سے بچہ نہیں ہورہا ہے حالانکہ اگر میں کسی دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کررہی ہوتی، تو اب تک درجنوں بچوں کی ماں بن چکی ہوتی۔‘‘
’’بابا چھوڑو اس قصے کو۔‘‘
’’نہیں، بالکل نہیں! اگر میری شادی تمہارے بجائے ایک اَن پڑھ مزدور سے ہوجاتی تو زیادہ اچھا ہوتا۔ میں اس کے ساتھ زیادہ خوش و خرم ہوتی۔ تم میری بات سمجھ رہے ہو نہ۔‘‘
’’سمجھ رہا ہوں، سمجھ رہا ہوں۔ لو تم یہ پھل کھاؤ۔‘‘
’’میرا دل نہیں چاہ رہا۔‘‘
’’اچھا، یہ کافی پی لو۔‘‘
’’افوہ، مجھے کچھ نہیں چاہیے۔‘‘
’’شاید تم کھانا ختم کرچکی ہو۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’بیرے، بیرے! بل لاؤ۔‘‘
’’ہاں بھئی چلیں۔‘‘
’’ہاں، ذرا یہ میری بیساکھیاں پکڑادو۔‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146