دنیا کا ہر شخص کسی نہ کسی ظاہری یا باطنی بیماری کا شکار ہوتا ہے۔ بیماری یہی نہیں کہ نزلہ، زکام، کھانسی یا زیادہ نامی گرامی بیماری کینسر، ایڈز یا ذیابیطس ہو، بیماری تو حسد، جلن، تعصب، فرقہ پرستی، مذہبی جنون، دہشت گردی، رنگ و نسل کا امتیاز، امارت پسندی، نفرت اور حقارت اور اسی قبیل کی ہزار ہا بیماریاں ہیں جن کا علاج ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ ڈاکٹروں کاایک بڑا طبقہ انہیں بیماری ہی نہیں گردانتا۔ وہ کہتے ہیں بیماری اور مرض وہ ہے جو ہماری ادویہ اور انجکشنوں سے قابو میں آجائے۔ باقی سب عذاب کی مختلف صورتیں ہیں۔ ڈاکٹروں کی سمجھ سے جو امراض بچ نکلتے ہیں وہ نفسیات دانوں، جھاڑ پھونک کرنے والے سیانوں، فرائیڈ اور جان ایڈلر کے اصولوں کے ماہرین جنسیات کی طبع آزمائی کے لیے رہ جاتے ہیں۔ سادھو، سنت، پیر، فقیر، راتوں رات سمندر پار سے محبوبوں کو کھینچ لانے والے بھی ایک طرح سے علاج و حکمت کا فرض انجام دیتے ہیں۔ ان میں جادو گر بھی شامل ہیں۔ وہ بھی کسی نہ کسی مرض کا علاج کرتے ہیں۔ مداریوں کو اس فن سے الگ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ مداری کھیل ختم کرنے کے بعد اعلان کردیتا ہے یہ سب کچھ ہاتھ کی صفائی تھی۔ اس قسم کے لوگ ڈاکٹروں اور حکیموں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اسے ’’پروفیشنل جیلسی‘‘ کہا جاسکتا ہے۔
طاعون آتا ہے، پلیگ پھیلتا ہے، ہیضہ دور دور تک لاشوں کے ڈھیر لگا دیتا ہے۔ لیکن یہی ڈاکٹروں کا موسم بہار بھی ہوتا ہے۔ اس وقت ڈاکٹروں کو سرکھجانے کی بھی فرصت نہیں ہوتی اور مرنے والے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ دولت تو دولت اپنے عقیدے تک بیچ دیتے ہیں۔
سردیوں میں برفیلی ہوا چل جائے، گرمیوں میں لو اور کڑک دار دھوپ نکل آئے تو فالج ہوسکتا ہے۔ لُو لگ سکتی ہے اور بھی انجانے مرض وجود میں آسکتے ہیں اور آتے ہیں۔ ’’مریضوں کی بیماری ڈاکٹروں کا روزگار ‘‘۔ اب کسے برا بھلا کہا جائے۔ دونوں کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ بیماری ختم ہوجائے تو ڈاکٹروں کا وجود خطرے میں پڑ جائے اور ڈاکٹر نہ ہوں تو مریضوں کی حسرت دل میں رہ جائے گی کہ وہ علاج کے نام پر موت سے لڑتے جھگڑتے تو!
بیماری کے معنی طبیعت کی ناسازی کے علاوہ کمزوری اور ناتوانی کے ہیں۔ کمزوری ایک مکمل علامت کے طور پر ابھرتی ہے۔ بعض سرکاری صنعتوں کو ان کے سنبھالنے والے لقمۂ تر سمجھ کر ہضم کرجاتے ہیں۔ بعد میں ایک سرکاری اعلان داغ دیا جاتا ہے کہ ہم نے ان صنعتوں کی جان نکال لی ہے، اب اسے اونے پونے بیچ دیا جائے۔
بعض ملک بیمار قرار دئے جاتے ہیں۔ بیمار ملک بھیک مانگتے ہیں۔ اس مانگی ہوئی بھیک سے سیاست دان عیش کرتے ہیں۔ ملک کو گروی رکھ کر پہلے ذہنی غلام بنتے ہیں، پھر حقیقی غلامی کا تاج پہن کر خوشی مناتے ہیں۔
ہمارے معاشرے بیمار ہیں۔ رسم و رواج جو سراسر نقصان دہ، فضول اور فرسودہ ہیں، ہم انہیں گلے کا ہار بنالیتے ہیں۔ پھر ہماری مجبوری اور معذوری بیماری بن جاتی ہے۔ پیری اور مریدی کو بھی بیماری بنادیا گیا ہے۔ چالاک لوگ مریدوں کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مرید ان کے سحر میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور جان جان کر دھوکے کھاتے ہیں۔
حسد بھی ایک مہلک بیماری ہے۔ حسد کی آگ دل و دماغ کو جلا کر بھسم کردیتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ آگ میں بھسم ہونے والا مریض مرتے دم تک اپنی بیماری سے بے خبر رہتا ہے۔ دھوکا کھانا اور دھوکا دینا دونوں بیماری ہیں۔ تحقیق اور توجہ کے فقدان سے یہ بیماری لاحق ہوتی ہے۔ اس کی علامتوں کے متعلق نہ دھوکا دینے والا توجہ دلاتا ہے، اور نہ دھوکا کھانے والا اس پر توجہ دیتا ہے۔ بہت سستے داموں وہ خودی کو بیچ دیتے ہیں۔ بعض پیشہ ور گدا گر ہوتے ہیں۔ انھیں کبھی اپنی بیماری کا احساس نہیں ہوتا۔ گدا گری کو وہ پیشہ سمجھ کر اپنی خودی کو بیمار بنا لیتے ہیں اور مطمئن رہتے ہیں۔
نزلہ، زکام، کھانسی، ٹی بی، السر، ذیابیطس اور ایسی کوئی تین ہزار بیماریوں کا وجود ہے۔ ہزار ہار برس میں حکیموں اور ڈاکٹروں کی جدوجہد کے بعد ایک ہزار بیماریوں کو نام دیا جاسکا ہے۔ اب بھی دو ہزار بیماریاں ایسی ہیں جو اس بات کی متمنی ہیں کہ انہیں کوئی نام دیا جائے۔ علاج کرنے والے بڑے سے بڑے ڈاکٹر کی مجبوری اور لا علمی بھی ایک بیماری ہے۔ وہ برملا اپنی جہالت کا اقرار کرتے ہیں۔ کہتے ہیں بھئی کینسر مرض ضرور ہے لیکن ابھی تک اس کا قطعی علاج کوئی نہیں۔ اس کے باوجود مریض شفایاب بھی ہورہے ہیں۔ ایڈز کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے لیکن خود مرض لا علاج تصور کیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر کا تسلی دلانا بڑا نہیں چھوٹا سہی علاج ہی تصور ہوتا ہے۔ ایسی ہی نہ جانے کتنی بیماریاں ہیں جن کے وجود کا اقرار کیا جاتا ہے اور لا علاجی کا اعلان بھی ہوتا ہے۔ خوف آتا ہے اس وقت سے جب باقی دو ہزار بیماریوں کے نام تقسیم کیے جائیں گے۔ نہ معلوم اس وقت ڈاکٹر اپنی کون کون سی معذوریوں کو پیش کریں گے۔ معذوری بھی تو ایک بیماری ہے۔ دراصل ہمت ہارنے، مایوسیوں میں غوطے کھانے اور زندگی کو فضول سمجھنے کا فیصلہ ذہنی بیماری کے مترادف ہے۔
بعض بیماریاں اپنے نئے نئے رنگوں میں پنپتی ہیں اور لوگ اسے بیماری کے نام سے نہیں پکارتے۔ اس لیے کہ معلوم بیماریوں کے نام گنتے گنتے سانس اکھڑ جاتی ہے اور زبان سوکھ جاتی ہے۔ ان باتوں کا شمار کرنا خود بیماری بن جاتا ہے۔ ظلم بھی تو ایک بیماری کی شکل ہے۔ ظالم میں ظلم کرنے کی بیماری نہ ہوتی تو وہ ظلم کیوں کرتا۔ اسی طرح ظلم سہنا بھی بیماری ہے کہ مظلوم ہر بات کو مقدر کا ایک حصہ سمجھ کر ہر بات کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ اب رہی علاج کی بات، بیمار اپنا علاج خود کرسکتا ہے، اگر چاہے تو۔
بعض بڑے ملک بگلا بھگت ہوتے ہیں۔ ان کا کام چھوٹے ملکوں کو کھلونا سمجھ کر کھیلنا ہوتا ہے۔ جب تک جی چاہتا ہے کھیلتے ہیں اور جب جی چاہتا ہے توڑ دیتے ہیں۔ پھر انھیں نیا کھلونا مل جاتا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سب سے بڑی بیماری کمزوری ہوتی ہے جو ہر برائی کی ماں ہے۔
جتنی بھی آپ تحقیق کریں گے، اس میں جتنے بھی منطقی روئیے آتے ہیں، انھیں آپ بلا جھجک بیماری کہہ سکتے ہیں۔ رویوں کا بگاڑ جو بدنما شکل اختیار کرتا ہے، وہیں سے بیماری کی ابتدا ہوتی ہے۔ جب بیماری بڑھ جاتی ہے تو اس پر قابو پانا سرکش اور منہ زور گھوڑوں کو سدھانے سے کم نہیں ہوتا۔ گھوڑا سدھر جائے مگر بیماری جان کا نذرانہ مانگتی ہے۔ کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے نذرانے کو بھول جائے اور زندگی سے پیا رکرنے لگے۔