بیماریٔ دل کا علاج یوں بھی ہوتا ہے!

ستار طاہر

حکیم محمد سعید لاکھوں بیماروں کا علاج کرچکے تھے۔ وہ دست شفا رکھتے تھے اور دست شفا کے حصول کے لیے انھوں نے باقاعدہ مجاہدے بھی کئے تھے اور علم طب پر بھی عبور حاصل کیاتھا۔

زندگی میں انہیں بھی بعض بیماریوں کا شکار ہونا پڑا۔ جب ایک بہت بڑا طبیب بیمار ہوتا ہے تو وہ اپنا علاج کس طرح کرتا ہے، حکیم صاحب اپنی زندگی کے ان واقعات کو ناقابلِ فراموش قرار دیتے ہیں۔

جون ۱۹۵۶ء کی بات ہے۔ کراچی میں جزیرہ ہوائی والا انفلوئنزا بڑے زور سے چل رہا تھا۔ پورا شہر اس وبا کی شدید گرفت میں تھا۔ ’’ہمدرد‘‘ کے سارے مطب کراچی میں خدمت میں مصروف تھے۔ اس کے باوجود ایک اور کیمپ بھی لگانا پڑا جہاں کام کرنے کے لیے اطبا کی ضرورت تھی۔ سب کے ساتھ حکیم محمد سعید بھی مصروفِ خدمت تھے۔ بالآخر انفلوئنزا نے انہیں بھی آلیا۔ شدتِ مرض نے انہیں ادھ مرا کردیا۔ بخار ۱۰۵ سے متجاوز تھا، مگر احساسِ فرض کی وجہ سے اس شدتِ مرض کے باوجود مریضوں کو دیکھتے رہے۔

حکیم محمد سعید جون کے اس مہینے میں چھ تاریخ کو جمعے کا دن تھا۔ وہ بمشکل نماز جمعہ ادا کرنے گھر سے نکلے۔ انفلوئنزا کا زور کراچی میں ٹوٹ چکا تھا، لیکن ان کی طبیعت بدستور خراب تھی، چکر آرہے تھے، دو فرض ادا کرکے گھر چلے آئے اور تخت پر لیٹ گئے۔ انھوں نے بتایا:

’’ایسا لگتا تھا کہ گہرائی میں ڈوبتا چلا جارہا ہوں۔ غوطے لگ رہے ہیں۔ ہر غوطے کے بعد گہرائی زیادہ ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس کیفیت میں خاصا وقت بیت گیا۔ ہوش غائب تھا اور نبض کمزور۔‘‘

اتنے میں ان کے ہاں حکیم نصیر الدین ندوی صاحب اور پھر کرنل مظہر حسین شاہ، میجر حسن اور ڈاکٹر یحییٰ عباس بوہرا بھی تشریف لے آئے۔ حکیم صاحب کی یہ حالت تھی کہ وہ ان سے بات نہیں کرسکتے تھے۔

تشخیص یہ ہوئی کہ انفلوئنزا کے جراثیم نے عضلہ قلب پر حملہ کردیا ہے۔ حال دل نازک ہے۔ بلڈ پریشر نہ ہونے کے برابر ہے۔ تفصیلی معائنے ہوئے اور حکیم صاحب کو ’’صاحبِ دل‘‘ قرار دے دیا گیا۔ معالجین نے ہدایات دیں کہ بستر سے ذرا بھی نہ ہلا جائے۔ وضو اور نماز سب اشاروں سے ہوگی، غسل بند، حتیٰ کہ دانتوں کو برش بھی نرس کرے گی۔ مکمل آرام کیا جائے گا۔ معالجوں نے دوائیں بھی تجویز فرمائیں، قدیم اور جدید دونوں۔ حکیم صاحب نے بتایا:

’’قدرت شافیِ مطلق ہے۔ ذرا دیر بعد ہی بخار چڑھ آیا۔ اس بخار نے تریاق کا کام کیا۔ خون کا دباؤ بحال ہوگیا۔ نقاہت جیسے کم ہوگئی۔ دل گویا ٹھیر گیا۔ حواس واپس آئے تو آنکھیں کھلیں۔ ماحول دیکھا تو دھندلا تھا۔ آنکھیں مچیں اور ملیں، مگر کہر دور ہوئی نہ دھند۔ جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ اس حملہ قلب کی وجہ سے بینائی بری طرح متاثر ہوچکی ہے۔ یہ نابینائی کوئی پانچ دن جاری رہی۔ جب ذرا بحال ہوئی تو میں نے بارگاہِ ایزدی میں دعا کی کہ اگر اس حد تک بینائی قائم رہ جائے تو میں اس پر قناعت کرنے کے لیے بخوشی تیار ہوں۔‘‘

رات تک معالجین کی ہدایات پر عمل ہوا۔ جب دوسری صبح بیدار ہوئے تو حکیم صاحب نے چپکے سے غسل کیا۔ نمازِ فجر اطمینان سے ادا کی اور پھر تخت پر دراز ہوگئے۔ حکیم صاحب فکر مند تھے۔ انہیں بتایا گیا: ’’قلب کا حال نیم برشت سے ذرا زیادہ برشت انڈے جیسا ہے۔ اسے چھیل لیا، مگر وہ خل خل اور تھل تھل ہے۔ ذرا ٹھیس لگ جائے تو ٹوٹ جائے گا، مگر اپنی قوتِ ارادی پر بھروسہ اس سے زیادہ تھا۔‘‘

نرس جو ان کی تیمارداری اور نگرانی پر مامور تھی، وہ تین دن کی بیکاری سے تنگ آکر چلی گئی۔ حکیم صاحب نے دانتوں کو برش کیا۔ ان کے معالج ڈاکٹر عباس بوہراانہی دنوں ان کے دوست بنے تھے۔ کرنل شاہ ذرا بزرگ تھے۔ میجر حسن سے ان کی بے تکلفی تھی۔ یحییٰ عباس بوہرا بہت خوش مزاج انسان تھے۔ وہ آتے اور روز ای سی جی لیتے تھے۔ حکیم صاحب نے ان پر یہ راز کھلنے نہ دیا کہ وہ اپنے سارے کام خود کررہے ہیں اور دواؤں سے سخت قسم کا پرہیز کیا جارہا ہے۔

حکیم صاحب نے بتایا:

’’تازہ گلاب کا ایک پھول لیا، اسے عرق گلاب میں پیسا، ذرا سا شہد ملایا اور پیتا رہا۔ پھر خیال آیا کہ مجھے برگ تنبول (پان) کا استعمال کرنا چاہیے۔ ذہن نے یہ نسخہ تجویز کیا۔ پان کا ایک پتہ، پودینہ اور ادرک جوش دے کر چائے کی طرح پینا چاہیے۔‘‘

حکیم صاحب ان دو نسخوں سے اپنا علاج کرتے رہے۔ وہ نو دن تک بسترِ علالت پر رہے۔ ان نو دنوں میں تین ایسے افراد حادثہِ قلب میں جاں بحق ہوئے جو حکیم صاحب کے ملنے اور جاننے والے تھے۔

اسی دوران عید بھی آگئی۔ تمام معالجوں کا فیصلہ تھا کہ حکیم صاحب کو عید کی نماز کے لیے عیدگاہ نہیں جانا چاہیے۔ اب حکیم صاحب نے راز سے پردہ اٹھایا کہ وہ روزانہ غسل کرتے ہیں، آرام نہیں کرتے اور اپنے سب کام خود کررہے ہیں۔ بہرحال اس افشائے راز کے بعد بھی سب کا یہی اصرار تھا کہ وہ نمازِ عید کے لیے عیدگاہ نہ جائیں۔ احباب کے اصرار کے احترام میں نماز عید گھر میں پڑھی۔ وہ بتاتے تھے:

’’تین سال کی عمر کے بعد یہ پہلی عید تھی جو عیدگاہ میں ادا نہ ہوئی۔ اس کا غم آج تک ہے۔‘‘

حکیم صاحب نے اپنی نفسیات اور اس تجربے کے حوالے سے جو نتائج اخذ کیے ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’مریض قلب کو بستر سے لگا دینا غلط ہے۔ اس قسم کے آرام کی مدت یقینا طویل نہیں ہونی چاہیے، کیوں کہ اس تسلسل سے قوتِ ارادی مجروح اور مغلوب ہوجاتی ہے۔‘‘

گزشتہ چند دنوں میں جو اموات حملہ قلب سے ہوئی تھیں، انھوں نے ذہنی طور پر حکیم صاحب کو شکست نہیں دی تھی۔

حکیم صاحب کے ’’حالِ دل‘‘ کی اطلاع پاکر ان کے برادر محترم حکیم عبدالحمید دہلی سے کراچی پہنچے۔ ان کے آنے سے حکیم محمد سعید کو بہت سہارا ملا۔ دل کی حالت بہتر ہوگئی۔ بینائی بھی بحال ہوگئی۔ حکیم عبدالحمید صاحب بیمار کا حال اچھا دیکھ کر واپس دلی چلے گئے۔

اسی دوران حکیم صاحب ایک انقلابی فیصلہ کرچکے تھے۔ ایک شام حکیم صاحب نے ٹرین کا ٹکٹ لیا اور سوار ہوکر راولپنڈی روانہ ہوگئے۔ حادثہ قلب کے بعد یہ نواں دن تھا۔ راولپنڈی میں حکیم صاحب نے ایڈیٹر ’’تعمیر‘‘ صفدر صاحب کو اطلاع کرادی تھی۔ وہ انہیں راولپنڈی اپنے گھر لے گئے۔ حکیم صاحب بتاتے تھے:

’’رات ان کے ہاں خاصی بے چینی سے گزری۔ صبح میں نے کہا: صفدر صاحب اپنی موٹر نکالیے ذارایبٹ آباد کی طرف چلتے ہیں۔‘‘

حکیم صاحب کے اصرار پر وہ تیار ہوگئے اور ایبٹ آباد کی طرف روانہ ہوئے۔ حکیم صاحب بتاتے تھے: ’’مجھے اس قدر یاد ہے کہ مسیح الملک اجمل خاں علالت کے بعد آرام کے لیے ایبٹ آباد تشریف لاتے تھے۔‘‘

اس وقت ایبٹ آباد میں خاصی گرمی تھی۔ ماحول بھی صاف ستھرا نہیں تھا اور ہوٹل بھی کوئی قرینے کا موجود نہ تھا۔ حکیم صاحب نے صفدر صاحب سے کہا کہ وہ جلال بابا کا پتہ معلوم کریں۔

جلال بابا نے فوراً ٹیلی فون کردیا۔ وہاں سے معلوم ہوا کہ ہوٹل میں تو تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ بس ایک کوٹھڑی خالی ہے، کہیں تو اس میں انتظام کردیں۔ حکیم صاحب نے کوٹھڑی ہی قبول کرلی۔ ایبٹ آباد سے صفدر صاحب انہیں نتھیا گلی اپنی کار میں لے گئے۔

آٹھ ضرب دس فٹ رقبہ، پلاسٹر اکھڑا ہوا، فرش ادھڑا ہوا۔ فرنیچر مٹی میں اٹا ہوا اور ٹوٹا ہوا۔ تین ٹانگ کی میز، بید کی کرسی ٹوٹی ہوئی، جھولا پلنگ۔ اس پر مستزاد یہ خوش خبری کہ وہ صرف تین دنوں کے لیے ٹھہر سکتے ہیں۔ چوتھے دن اس کوٹھڑی کو بھی خالی کرنا ہوگا۔

حکیم صاحب نے یہ شرط منظور کرلی۔

صفدر صاحب پریشان تھے۔ وہ حکیم صاحب کے حملہ قلب سے بھی آگاہ تھے۔ حکیم صاحب نے جب انہیں واپس جانے کے لیے کہا تو وہ کہنے لگے: ’’آخر آپ کو کیا ہوا ہے،آپ یہاں تنہا رہیں گے۔ یہ تو اپنے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔‘‘

حکیم صاحب نے صفدر صاحب کو تسلی دی اور یہ بلیغ نکتہ سمجھایا کہ مریض قلب سے کوئی ان کا حالِ دل پوچھنے والا نہیں ہونا چاہیے۔ صفدر صاحب نے پوچھا: ’’اچھا تو یہ بتائیے تین دن بعد جب یہ ہوٹل والے کوٹھڑی خالی کرائیں گے تو آپ کہا ںجائیں گے؟‘‘

حکیم صاحب نے جواب دیا:

ملک خدائے تنگ نیست

پائے مرا لنگ نیست

حکیم صاحب کے اصرار پر صفدر صاحب چلے گئے۔ حکیم صاحب نے ان سے وعدہ لیا کہ وہ کسی کو نہیں بتائیں گے کہ میں کہاں ہوں۔

حکیم صاحب نے نمازِ ظہر کے بعد اس کو ٹھڑی کی صفائی کا فرض خود ادا کیا۔ اس میں خاصا وقت لگا، لیکن تین دنوں کے بعد آنے والے مسافر کے لیے کوٹھڑی صاف ہوچکی تھی۔ حکیم صاحب کا بیان ہے:

’’تھکن تو ہوئی تھی۔ میرے قلب کا تو یہ حال بتایا گیا تھا کہ نہ جانے کب دیوار قلب مسمار ہوجائے۔ اس پر ریل کا سفر، پھر ایبٹ آباد اور وہاں سے نتھیا گلی کا طویل سفر، بارہ تیرہ ہزارفٹ کی بلندی پر واقع مقام، مریض قلب کے لیے سخت خطرات تھے، مگر میں تو تجربات پر مصر تھا اور پوری طرح آمادہ۔ میں سمجھتا تھا کہ قدرت نے جو شافیِ مطلق ہے مجھے گرفتار مرضِ قلب کیا ہے تو ایک طبیب کی حیثیت سے میرے فکر وعمل کی بھی انتہا ہونی چاہیے کہ وہ تمام تجربات کر گزروں اور مریضانِ قلب کی بہتر خدمت کے لیے خود کو تیار کروں۔‘‘

طبی کتابوں میں یہ ہدایت درج ہے کہ مریض قلب کو بلندیوں پر نہیں جانا چاہیے۔ حکیم صاحب نے اس کے برعکس فیصلہ کیا تھا۔ ایک تو آرام کی افادیت کے باوجود حکیم صاحب آرام کو طول دینے کے حق میں نہیں تھے کہ اس طرح مریض کی قوتِ ارادی کمزور ہوجاتی ہے۔ وہ بسترِ علالت پر پڑا سوچتا رہتا ہے۔ پریشان رہتا ہے۔ پھر عزیزواقارب کی یورش، مریض کو ذہنی طور پر موت کے قریب لے جاتی ہے۔ اس لیے حکیم صاحب نے اس سفر کا انقلابی فیصلہ کیا تھا۔ اب انھوں نے اپنے آپ کو بلند مقام پر گم کردیا تھا۔

وہ رات انھوں نے کوٹھڑی میں گزاری اور آرام کی نیند سوکر اٹھے تو طبیعت کو بحال پایا۔ بیماری کو بارہ دن ہوچکے تھے۔ وہ کوٹھڑی سے باہرنکلے تو ابھی سب سو رہے تھے۔ حکیم صاحب کہتے ہیں:

’’نسیم سحر کی سرسراہٹیں خواب گراں سے کسی کو نہ اٹھا سکیں اور پھر سورج کی حیات بخش اولین کرنوں کا استقبال کرنے والا یہاں کوئی نہ تھا۔ میں نے سورج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ ان شعاعوں نے میرے جسم کو وٹامن ڈی سے بھردیا۔ نسیمِ سحر نے میرے خون کو سرخ کردیا۔ ایک گھنٹہ میں نے فضائے بسیط میں گزارا۔ چڑیوں سے باتیں کیں۔ پھول جب مسکرائے تو جواب مسکراہٹوں سے دیا۔‘‘

دوسرے دن کا بیشتر وقت انھوں نے غوروفکر میں گزارا۔ یوں تین دن گزرگئے اور اگلے دن کوٹھڑی خالی کرنی تھی۔ اس سوچ میں تھے کہ پائیں ہوٹل کے دفتر سے پیغام آیا کہ کمشنر صاحب حکیم صاحب سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ پیغام لانے والا آدمی ہانپ رہا تھا۔ بیچارہ تیز بھاگتا ہواآیا تھا۔ واقعی کمشنر بڑی چیز ہوتا ہے۔ کمشنر صاحب سے حکیم صاحب کا مکالمہ یوں ہوا:

’’فرمائیے جناب کمشنر صاحب کیا حال احوال ہیں؟‘‘

’’یہ آپ کو کیا ہوا کہ نتھیا گلی پہنچ گئے۔ یہاں سب پریشان ہیں۔ کراچی سے آپ کی اہلیہ نے مجھے ٹیلی فون کیا تھا کہ کیا آپ کے بھائی آپ کے ساتھ ہیں۔ میں نے کہا نہیں تو وہ بے حد پریشان ہوئیں۔ آخر کیا ہورہا ہے یہ؟‘‘

’’بھئی آرام کرنے آیا ہوں، مگر آپ کو میرا پتا کیسے چلا۔ میں تو گمنام ہوکر یہاں آپڑا ہوں۔‘‘

’’جناب ہماری سی آئی ڈی بڑی زوردار ہے۔ میں نے تلاش کروالیا۔ خیر عندیہ کیا ہے، پیشاور کیوں نہیں آجاتے؟‘‘

’’میں چاہتا ہوں کہ نتھیا گلی میں دس بارہ دن گزار لوں۔ یہاں کی فضا میرے حسبِ حال ہے۔‘‘

’’اچھا تو پائین ہوٹل والوں سے کہہ دیتا ہوں کہ وہ خیال رکھیں۔‘‘

یہ کمشنر صاحب حکیم صاحب کے عزیز از جان دوست مسرت حسین زبیری تھے۔ (جو اب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں) وہ اس علاقے کے ہر دلعزیز کمشنر تھے۔ بس اس کے بعد کیا تھا، ہوٹل کے منیجر صاحب بھی حکیم صاحب کی مزاج پرسی کے لیے حاضر ہوگئے۔ ’’ارے آپ کو کہاں جگہ دی گئی ہے۔ یہ تو چوکیدار کی کوٹھڑی ہے۔ مجھے سخت افسوس ہے کہ آپ کو صحیح جگہ نہیں ملی۔ فرمائیے میں آپ کا کون سے کمرے میں انتظام کروں۔‘‘

حکیم صاحب نے انھیں یقین دلایا کہ وہ اس کوٹھڑی میں بہت آرام و سکون سے ہیں اور منیجر صاحب کو تکلفات سے پوری سختی کے ساتھ منع کردیا۔ البتہ درخواست کی کہ یہ کوٹھڑی ان سے نہ خالی کروائی جائے۔ درخواست منظور ہوئی۔

چوتھے دن صبح حکیم صاحب نے ایک میل چہل قدمی کافیصلہ کیا۔ وہ نتھیا گلی ٹینس کلب کی طرف جانکلے۔ ٹینس کھیلنے کی ورزش بہت اچھی لگی۔ وہ خاصی دیر وہاں ٹھہرے رہے۔ ٹینس ان کے لیے اجنبی کھیل تھا۔ پہلے کبھی نہ کھیلا تھا۔ پانچویں دن دو میل چہل قدمی کی۔ شام کو ٹینس کورٹ میں گئے۔ دیکھا کہ وہاں جناب منظور قادر (وزیر خارجہ پاکستان) بھی کھیل رہے تھے۔ حکیم صاحب نے درخواست کی کہ وہ یہ کھیل کچھ انھیں بھی سمجھادیں۔ جناب منظور قادر صاحب نے ایک ریکٹ حکیم صاحب کے ہاتھ میں دے دیا، دوسرا خود سنبھالا اور عملاً یہ کھیل حکیم صاحب کو سمجھاتے رہے۔

چھٹے دن حکیم صاحب نے صبح تین میل چہل قدمی کی، شام کو ٹینس کی مشق کی۔ واپس اپنی کوٹھڑی پہنچے تو معلوم ہوا کہ کمشنر صاحب منتظر ہیں۔ جناب مسرت حسین زبیری پشاور سے آگئے تھے۔ حکیم صاحب بتاتے ہیں:

’’ان سے ملاقات کرکے دل باغ باغ ہوگیا۔ بڑی ڈھارس بندھی۔ کہنے لگے میں بے قرار ہوگیا اور پشاور رہا نہ گیا۔ میرا بھائی مریض قلب یہاں نتھیا گلی میں پڑا ہے۔ دس دن کی چھٹی لے کر آگیا ہوں۔ چلو بستر گول کرو، گورنمنٹ ہاؤس میں قیام رہے گا۔ وہ خالی ہے اور کمشنر کو رہنے کا حق ہے۔‘‘

حکیم صاحب نے اصرار کیا کہ انہیں اس کوٹھڑی میں ہی رہنے دیا جالے۔ کچھ رد وکد کے بعد وہ مان گئے۔ وعدہ لیا کہ کل حکیم صاحب خود گورنمنٹ ہاؤس آئیں گے۔

دوسرے دن حکیم صاحب ٹہلتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔ پھر آٹھ دن تک یہ معمول رہا کہ حکیم صاحب صبح جاتے اور شام کو کوٹھڑی واپس آجاتے۔ اب حکیم صاحب صبح و شام ملاکر سات میل چلنے لگے تھے۔ اس کے بعد وہ پشاور آئے۔ وہاں مسرت حسین زبیری کے ہاں بارہ دن قیام کیا۔ خوب کھایا، خوب پیا اور خوب آرام کیا۔ حکیم صاحب کہتے تھے:

’’میں نے اپنے مرض قلب کا علان اس طرح کیا۔‘‘

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146