اکیسویں صدی کی دہلیز پر پہنچ کر بھی عورت ہونا ’ابھشاپ‘ ہے۔ ہمارے ملک اور سماج میں عورت ہونے کا مطلب ہے پوری زندگی مصائب اور مشکلات سے جنگ کرنا۔ پیدا ہونے کے فوراً بعد اسے Unwellcomed Guest کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کچھ بڑی ہوئی تو تعلیم کا مرحلہ آیا۔ بس اچھے اسکول میں پڑھانے اور زیادہ خرچ کرنے سے کیا فائدہ، وہ تو ’پرایا دھن‘ ہے۔ اور یہاں لڑکی اور لڑکے کے درمیان تفریق شروع ہوجاتی ہے۔ پڑھ لکھ کر جب وہ جوان ہوتی ہے تو شادی کا دشوار مرحلہ آتا ہے۔ رشتوں کی تلاش میں والدین جوتیاں گھستے ہیں اور اس ’پرائے دھن‘ کو ’صاحبِ دھن‘ تک پہنچانے کے لیے مزید دھن کا انتظام کرتے ہیں اور کسی طرح اسے اپنے گھر سے رخصت کرتے ہیں۔ شوہر اور سسرال والے اگر سماج کی عام فکر سے کچھ الگ ہوئے تو ٹھیک ورنہ مشکلات اور مسائل کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ دراصل ہماری لڑکیوں کے لیے مسائل کی بھٹی ہے، جس میں ہر روز سیکڑوں جانیں ’روسٹ‘ ہوتی ہیں اور ہم سب اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اس کے علاوہ کتنی ہی خواتین ایسی ہیں جنھیں کچھ قدرتی حادثات اور کچھ زمانے کی مار شادی شدہ ہونے کے باوجود تنہا زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان میں کچھ تو بیوائیں ہیں اور کچھ طلاق شدہ اور کچھ ایسی ہیں جو نہ ادھر کی ہیں اور نہ ادھر کی بلکہ ان کی زندگیاں گھریلو تنازعات کی کھونٹی پر معلق اورلٹکی ہوئی ہیں۔
ایک دوسرا اہم مسئلہ جو خاص طور پر تعلیم یافتہ اور نوکری پیشہ لڑکیوں کے ساتھ ہے وہ یہ ہے کہ کئی اسباب کے چلتے جن میں مناسب رشتوں کا نہ ملنا یا والدین کی جانب سے ’کماؤ‘ لڑکیوں کی شادیوں میں غفلت کا بھی ہے۔ اور وہ معاشی خوش حالی کی کنجی ان لڑکیوں کو جلد چھوڑنا نہیں چاہتے۔ اس ذہنیت نے تیس پینتیس سال کی کنوراری لڑکیوں کی تعداد میں خاصہ اضافہ کیا ہے۔ اور گزشتہ مردم شماری میں ایسی خواتین کا تناسب 1.4فیصد پایا گیا ہے۔ جو سماج کے لیے کافی تشویشناک ہے۔ اس طرح سماج میں بیواؤں، طلاق شدہ خواتین، معلق خواتین اور بڑی عمر کی غیر شادی شدہ خواتین کی تشویشناک تعدا دپائی جاتی ہے اور ظاہر ہے ان میں سے اکثر تنہا رہنے پر مجبور ہیں۔ اور ہمارے سماج میں تنہا رہنے والی خواتین خواہ وہ بیوہ ہوں یا مطلقہ ہوں یا معلق انہیں نہ تو اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور نہ ان کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ ۲۰۰۱ء کی مردم شماری کے مطابق ۹ء۶ فیصد خواتین بیوگی کی زندگی گزار رہی ہیں جن کی تعداد ساڑھے تین کروڑ سے بھی متجاوز ہے۔ یہ ساڑھے تین کروڑ کی آبادی حقیقت میں دنیا کے کئی ملکوں کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے برعکس ایسے مردوں کی تعداد جن کی بیویاں وفات پاچکی ہیں اور وہ تنہا زندگی گزاررہے ہیں محض ایک فیصد ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مرد بہ آسانی دوسری شادی کرلیتے ہیں اور بیوہ خواتین کے لیے اس کے مواقع دستیاب نہیں یا پھر وہ اپنے بچوں کی خاطر اپنی زندگی کی قربانی دیتی ہیں اور تا حیات تنہا زندگی گزارتے ہوئے ان کی پرورش و پرداخت میں ہی لگی رہتی ہیں۔ اس راہ کی اہم رکاوٹ سسرال اور اہلِ خانہ کی طرف سے بیوہ کی دوسری شادی نہ کرنے دینے کی سوچ بھی ہے جو مال و جائداد کی حرص پر مبنی ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مختلف سماجی اور معاشرتی اسباب محض نو فیصد بیواؤں کو ہی دوبارہ شادی کا موقع دیتے ہیں۔
اس حقیقت کے پیچھے جہاں سماج کا بیواؤں کے سلسلے میں خاص نظریہ ہے وہیں ان کے بچوں کے مستقبل کو لے کر پائی جانے والی غیر یقینی کیفیت بھی ہے، جو انھیں تاحیات تنہا رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر سماج میں بیواؤں کی شادیوں اور ان کے مسائل کے حل کی سوچ پیدا ہوجائے تو ملک میں لاکھوں بیواؤں اور کروڑوں بچوں کی زندگیاں مستقل غیریقینی کیفیت سے نکالے جاسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں جہاں سماج کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے وہیں خود بیوہ خواتین کے ذہنی فریم کو بدلنے اور ان کے رشتہ داروں کی سوچ کو تعمیری اور ذمہ دارانہ بنانے کی ضرورت ہے۔ بیوہ خاتون کے والدین، بھائی اور دیگر قریبی رشتہ دار اگر ان کے بچوں کی کفالت کا ذمہ لے لیں تو ایک طرف تو ان بچوں کو سرپرستی کی چھتری فراہم کی جاسکتی ہے دوسری طرف بیوہ خواتین کی زندگیوں کو گھلنے سے بچایا جاسکتا ہے۔
ہمارے ملک میں ایسی خواتین کا تناسب بھی جو طلاق شدہ ہیں یا اپنے شوہروں کی جانب سے چھوڑ دی گئی ہیں اور تنہا رہ رہی ہیں بہ تدریج بڑھ رہا ہے اور اسی مردم شماری نے ان کے اعداد وشمار کل آبادی کا آدھا فیصد بتائے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں خاص طور پر شہروں اور بڑے شہروں کی فیملی کورٹس میں آنے والے گھریلو جھگڑوں کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے، جو اکثر طلاق پر ختم ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بھی مغربی سماج کی راہ پر چلتے ہوئے اپنے خاندانی نظام کو بکھراؤ کی طرف لے جارہے ہیں۔ اور اگر ماہرین سماجیات، غیر سرکاری اداروں، مذہبی تنظیموں اور کاؤنسلنگ کے اداروں نے اس پر توجہ نہ دی تو دھماکہ خیز صورتِ حال پیدا ہوسکتی ہے۔
خواتین کے ایک ادارے نے جو تنہا رہنے والی خواتین کے لیے کام کرتا ہے، ملک کی سات ریاستوں کیرل،تمل ناڈو، آندھرا پردیش، مغربی بنگال، بہار، راجستھان اور اترپردیش کا ایک سروے کیا اور یہ بتایا کہ صورتِ حال جنوبی ہند کے مقابلے میں شمالی ہند میں زیادہ خراب ہے۔ یہاں بیواؤں اور مطلقہ خواتین کو شروع میں تو پناہ دی جاتی ہے، لیکن دھیرے دھیرے انہیں بوجھ تصور کیا جانے لگتا ہے۔ چنانچہ سروے میں کئی ایسے واقعات کا بھی ذکر ہے، جہاں سسرال والوں یا مطلقہ اور بیوہ کے گھر والوں نے لڑکی کو زبردستی گھر سے نکال باہر کیا۔ مذکورہ ادارے نے شہید فوجی بیواؤں کا الگ سے سروے کیا اور پایا کہ ایسی صورت میں جہاں ان کے پاس پیسہ اور پنشن ہے ان کے ساتھ برتاؤ مختلف ہوتا ہے۔ گارگل جنگ میں مارے گئے جوانوں کی بیواؤں کا ان کے رشتہ داروں نے استقبال کیا بلکہ سسرال اور میکے والوں میں کھینچ تان ہوئی کہ انہیں پچیس تیس لاکھ کا معاوضہ ملا تھا اور ان کی نظراس معاوضے کی دولت پر تھی۔
ہمارے سماج میں بیواؤں اور مطلقہ خواتین کو حقارت آمیز اور بعض اوقات نفرت آمیز نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور سماج ہی نہیں خود اہل خانہ اس کو باعزت مقام دینے پر راضی نہیں ہیں۔ یہ ایک برائی ہے جس کی طرف سماج کو متوجہ کیا جانا چاہیے۔ مسلم سماج کو خاص طور پر اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے، اس لیے کہ ہمارے رسولؐ نے ان لوگوں کو جنت کی بشارت دی ہے جس نے ایک لڑکی کو بھی پڑھا لکھا کر اوراچھی تربیت دے کر اسے بے نیاز کردیا، اسی طرح ان والدین اور بھائیوں اور رشتہ داروں کے لیے بھی بڑے اجر کی خبر دی ہے جو ایسی خواتین کی کفالت کریں جو حالات زمانہ کے سبب ان کی طرف لوٹا دی جائیں۔
سماج کے ارباب فکر و نظر اور رفاہی ادارے ان کے معاشی استحکام اور روزگار کے مواقع فراہم کرکے انہیں ایک طرف تو راحت دے سکتے ہیں دوسری طرف ان کی عزت و وقار کو بھی بلند کرسکتے ہیں اس لیے کہ اسلام بیواؤں اور مجبوروں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی کفالت کی تعلیم دیتا ہے۔