بیوی

فوزیہ مشتاق

’’اور مجھے تم سے سخت نفرت ہے۔‘‘ فرحین جھٹکے سے پلٹی
’’مسٹر عزیز جمال! کان کھول کر سن لو۔ تم ایسی غلطی ہرگز مت کرنا۔ مجھے یقین ہے تمہیں اپنی نہیں تو اپنی ممی کی عزت کاخیال ضرور ہوگا۔‘‘ وہ آندھی طوفان کی طرح گرج برس کر چلی گئی۔
ایک زبردست قہقہے کی مشترکہ آواز سن کر عزیز پلٹا۔ نوجوان ٹولی چنبیلی کے جھنڈ کے پار سے سامنے آگئی۔ اس کے کلاس فیلوز صائمہ، رفعت، غزالہ ہی نہیں عاصم اور نعمان بھی تھے۔
’’چہ چہ۔ بہت افسوس ہوا‘‘ صائمہ نے باقاعدہ تعزیتی شکل بناکر اظہار ہمدردی کیا۔
’’ذرا اپنے مقام سے دیکھا کیسی توہین کرگئی ایک معمولی سی لڑکی۔ اسی لئے کہتے ہیں۔ دل ہتھیلی پر لئے مت پھراکرو۔‘‘
ماناکہ وہ حسینہ عالم ہے لیکن ایسا بھی کیا حسن پرستی کا عالم کہ دل صبح کے اخبار کی طرح ہر ایک کو پیش کردیاجائے۔بہتر ہے کہ اسے اس کے مقام پر رہنے دو۔ نعمان نے عزیز کی پیٹھ پر دھپ لگاتے ہوئے کہا۔
’’سخت توہین ہوئی ہے تمہاری‘‘ عزیز سے زیادہ عاصم سنجیدہ نظر آنے لگا۔
’’بالکل یہ بھی کیا بات ہوئی کہ کوئی پرپوزل لے کر جائے تو اسے بے عزت کردیاجائے۔ اس سے تو لڑکی کی عزت افزائی ہوتی ہے کہ اتنے سارے پرپوزل آئے۔ اس کی قدرو منزلت بڑھتی ہے۔‘‘
’’بہت بُرا ہوا۔‘‘ عاصم، عزیز کی بے عزتی پر یوں تلملارہاتھا جیسے اس کی اپنی بے عزتی ہوئی ہو۔ البتہ عزیز بِنا کچھ کہے ایک طرف کھسک گیا۔
دوماہ بعد جمال وِلابقعہ نور بناہواتھا اور اندر بیڈ روم میں شاندار اسٹیج پر فرحین افتخار حیران پریشان بیٹھی تھی۔ دروازے کو پیر کی ٹھوکر مارکر اندر آنے والا عزیز جمال اس کا جیون ساتھی تھا۔ اس نے ایک ہاتھ مارکر پھولوں کی لڑیاں نوچ پھینکیں۔ کارنس پر رکھا پھولوں سے بھراگلدان چھناکے سے زمین بوس ہوگیا۔ جگ اور گلاس دیوار سے ٹکراکر چکناچور ہوگئے۔
’’فرحین دہشت زدہ ہوکر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ سخت اضطرار کی حالت میں کمرے میں اِدھر سے اُدھر ٹہل رہاتھا اور فرحین سہمی کھڑی تھر تھرکانپ رہی تھی۔
’’اب کہو فرحین افتخار۔ کس کی بے عزتی ہوئی۔ میری یا تمہاری؟ دیکھا تم نے دولت میں کتنی طاقت ہے۔ کہاں گیا وہ تمہاراچچا زاد اور منگیتر؟ دو لاکھ میں بک گیا۔ تمہارے حق سے دست بردار ہوگیا اور ہاں یہ قیمت اس نے خود لگائی ورنہ میں اس سے بھی زیادہ دے سکتاتھا۔ عزیز جمال کی توہین کی قیمت تمہیں ساری زندگی چکانی ہوگی۔ سمجھیں؟‘‘
محبتوں کی قسمیں کھانے والا، زندگی نچھاور کرنے کے وعدے کرنے والا، وہ سلجھا ہوا نوجوان آتش انتقام میں سلگ رہاتھا جس کی آنچ سے فرحین کو جھلس جاناتھا۔ مٹ جاناتھا۔ اس کازرتار آنچل عزیز کے بھاری بوٹوں تلے روندا جا چکاتھا جس کی کسک اسے روح تک محسوس ہوئی۔
’’وہ سرپھرا عزیز جو یونیورسٹی کے کیمپس میں مارا مارا پھرا کرتاتھا۔ کسی کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے اسی دن مرگیاتھا۔ جب چنبیلی کی جھنڈتلے کسی نے اس کا ہاتھ دھتکارا تھا۔ اوراب یہ دوسرا ہاتھ جس میں اس حسینہ کا مقدر بندہے‘‘ عزیز مٹھیاں بھینچ کر اس کے چہرے پر چھاجانے والی نفرتیں دیکھ کر فرحین نے جھرجھری سی لی۔ یہ عزیز اس عزیز سے الگ تھا۔
جمال ولا میں صرف چھ ماہ گزارنے کے بعد ہی فرحین افتخار یوں ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئی جیسے چھ صدیوں کا کرب سہہ کر آئی ہو۔ وہ ذہنی اور جسمانی اذیتیں جو اسے عزیز لمحہ بہ لمحہ پہنچارہاتھا ناقابل برداشت ہوتی جارہی تھیں۔ اچانک ہی بالکل اچانک اتنا بڑا نقصان کہ کئی پشتوںسے شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے رہنے والا خاندان تباہی کے دوراہے پر پہنچ گیا۔ عزیز کے بھی سارے کس بل نکل گئے۔ وہ گم صم رہتا اور نجانے کیا کیا سوچتا رہتا۔ لیکن فرحین کے ساتھ اس کا رویہ وہی روزاول جیسا تحقیرآمیز تھا۔ بلکہ اس میں اور شدت آگئی تھی۔ ذہنی کشمکش کاشکار عزیز ایک حادثے کاشکار ہوا اور بستر سے لگ گیا۔ فرحین مالی پریشانیوں کا سامنا کرنے کے لئے خود کو تیار کرنے لگی۔ عزیز کے علاج کے لئے بھاری رقم کی ضرورت تھی اور فرحین کو بہرحال کچھ کرناتھا۔
’’ارے آپ۔ مسز عزیز جمال؟‘‘ عاصم اسے دیکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا۔
’’ہاں میں‘‘ فرحین بمشکل مسکرائی۔ ’’اتنی معمولی نوکری کے لئے آپ نے درخواست کیوں دی؟‘‘
’’رفعت جواب مسز عاصم بن چکی تھی۔‘‘
’’نہیں… نہیںآئی ایم سوری… یہ آپ کی شان کے خلاف ہے۔‘‘
’’تو کیا ہوا۔ آپ نے اعلیٰ تعلیم یافتہ گورنس کے لئے اشتہار دیاتھا اور معاوضہ بھی بھاری ہے جس کی مجھے فوری ضرورت ہے۔‘‘
’’سوری… سوری‘‘
فرحین وہاں کھڑی رہی اور وہ لوگ اندرچلے گئے۔
وہ تھکے قدموں سے گھر لوٹ آئی۔ عزیز سے فون پر بات کرنے والا یقینا عاصم ہی تھا۔ عزیز نے آہٹ پر سراٹھاکر اسے دیکھا اور بلند آواز سے بولا ۔ ’’وہ جس طبقے کی پیداوار ہے۔ اس کے لئے یہی کام ٹھیک ہے۔ تم اسے ملازمت دے دو اور ہاں یہ مت سمجھانا مجھے اس کے روپوں کی ضرورت ہے۔ بس اسے اس کی حیثیت یاد آجائے گی۔‘‘ عزیز نے کھٹاک سے فون بندکردیا۔
ایسی توہین… ایسی نفرت… فرحین سسک پڑی۔ اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
وہ کروٹ بدل کر لیٹ چکاتھا۔ سوکر جاگا۔ تو شام ڈھل رہی تھی۔ ڈرائنگ روم سے کسی کی باتوں کی آواز سن کر عزیز کو تشویش ہوئی۔ فرحین دھیرے دھیرے لہجے میں کسی سے مخاطب تھی۔ عزیز بمشکل تمام وہیل چیئر پر بیٹھا اور دھیرے دھیرے کھسک کروہاں تک پہنچ گیاتھا۔ آج سے قبل اس نے بستر سے اٹھنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ فرحین کو زک پہنچانے کی خاطر وہ ہر ضرورت بسترپر پوری کرواتا۔ فرحین کی پشت ان کی طرف تھی۔
’’خدا کی قسم! عاصم صاحب۔ گورنس تو کیا مجھے اپنے شوہر کی خاطر سڑک پر جھاڑو بھی دینا پڑی تو میں دوںگی۔ بس آپ اتنا احسان کریں کہ کسی طرح ڈاکٹر کو راضی کرالیں کہ وہ عزیز کا علاج جاری رکھے۔ میں ایک ایک پیسہ ادا کردوںگی بس عزیز ٹھیک ہوجائیں مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔‘‘
فرحین کے لہجے میں محبت کی سچائیاں تھیں۔ عزیز سوچ میں پڑگیا۔ فرحین اس کی خاطر سڑک پر جھاڑو دینے تک کو تیار تھی۔ ایک جملہ عزیز کو شرم سے زمین میں گاڑگیا۔ اسے اپنا آپ بہت چھوٹا لگا اور فرحین عظمتوں کی دیوی نظرآئی۔
’’میں آپ سے ہاتھ جوڑتی ہوں مجھے ملازمت دے دیں۔ آخر میرا کچھ تو حق ہے آپ پر۔ چار سال آپ کی کلاس فیلورہی ہوں۔ آپ کے دوست کی بیوی ہوں۔ فرحین سسک پڑی۔
بھابی…بھابی… مجھے معاف کردیں۔‘‘ عاصم کی آواز بھراگئی۔ اس نے فرحین کے ہاتھ تھام لئے۔ ’’آپ عظیم ہیں۔ بہت عظیم مجھے شرمندہ نہ کریں۔ میں آپ کو جنرل منیجر کی جاب آفر کرتاہوں۔ یہ جاب آپ کے لائق نہیں ہے۔‘‘ عاصم نے کہا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔ آہٹ سن کر فرحین چونکی۔ وھیل چیئر پر عزیز اس کے سامنے تھا۔ وہ چہرے پر ہاتھ رکھ کر اپنے کمرے کی طرف دوڑگئی اور بیڈ پر گرکر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ کئی پل گزرگئے۔ کسی نے اسے پشت سے تھام کر کھڑا کیا۔ وہ جھٹکے سے پلٹی اس کے سامنے اس کا شوہر اپنے پیروں پر صحیح و سلامت کھڑاتھا۔
’’آپ؟… اور اپنے قدموں پر؟‘‘ وہ حیرت اور مسرت سے چلّائی۔
’’ہاں… میں… اپنے قدموں، … اور کاروبار… اپنی سابقہ بہترین ساکھ اور تم میری ہمدم میری ہم قدم مجھے معاف کردو۔ میرا خیال تھا ایسے حالات پیدا کردوں تو تم مجھے چھوڑجائوگی۔ لیکن تمہارے جذبے نے مجھے خرید لیا۔ مجھے شکست دے دی۔ پل کے پل میں دو سال پیچھے لوٹ گیا ہوں۔ وہی عزیز… زندہ ہوگیا جو تم پر نثار تھا اور اس نے بدطینت عزیز کو قتل کردیا جوتمہارے جذبوں کاقاتل تھا… سو… یہ ایک چھوٹا سا ناٹک تھا جس میں، میں ہارا اور تم جیت گئیں۔‘‘ وہ شوخی اور شرمندگی کے ساتھ گویا تھا۔
عزیز کی بات سن کر فرحین دو قدم پیچھے ہٹی لیکن اب زیست کی ہر راہ پر عزیز ہی عزیز کھڑا تھا۔ اسے تھامنے کے لئے اپنی آنکھیں اس کے قدموں میں بچھانے کے لئے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں