بیویوں کی انجمن

فکر تونسوی

چند دن ہوئے میں رات کو جب گھر لوٹا اور مردانہ روایت کے مطابق دیر سے لوٹا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری پہلی اور آخری بیگم نے اپنے کندھے پر ایک سیاہ بلّہ لگا رکھا ہے۔ میں نے عرض کیا ’’یہ کیا ہے حضور؟‘‘

وہ بولی: ’’جھنڈا اونچا رہے ہمارا۔‘‘

میرا ماتھا ٹھنکا کہ آج دال میں کالا ہے۔ چاند سا چہرہ جو کل تک رشک بتاں تھا، آج کسی انجمن کا پوسٹر لگ رہا تھا، جس پر تحریر تھا:

اٹھو، مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو

میں نے کچھ مسکرا کر (اور کچھ ڈر کر) کہا :’’اے انقلاب زندہ باد! کھانا لے آؤ۔‘‘

وہ اپنی بانہوں کو کسی جھنڈے کی طرح لہرا کر بولی: ’’آج کھانا نہیں ملے گا، آج چولہا بند ہڑتال ہے۔‘‘

شبہ یقین میں بدلنے لگا کہ معاملہ گمبھیر ہے اور اب بیگم کے ساتھ رومانوی گفتگو کرنا فضول ہے۔ سوچا، پتا نہیں کس ستم گر نے گھر پر ’’انقلابی‘‘ چھاپا مارا ہے کہ آج محترمہ کی آنکھوں میں کاجل کی تحریر کے بجائے مطالبات کا منشور دکھائی دیتا ہے۔ معاملے کی سنجیدگی دیکھ کر میں نے بھی اپنا لب و لہجہ بدل دیا اور مالکانہ وقار کے ساتھ کہا: ’’بیگم! تمہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تم میری بیوی ہو؟‘‘

تڑاخ سے جواب آیا: ’’ہاں مگر میں ایک کارکن بھی ہوں اور آپ میرے ایسے مالک ہیں جو میری محنت کااستحصال کرتے ہیں۔‘‘

’’مگر پیاری!‘‘ میں نے پھر اپنا لہجہ بدل لیا ’’مالک تو تم ہو، میرے دل و جان کی مالک، اس سلطنت کی تم نواب واجدعلی شاہ ہو، بتاؤ ہوکہ نہیں؟‘‘

ایک دن پہلے تک میرا یہی فقرہ طلسم ہو شربا کا کام کرجاتا تھا اور بیگم تڑپ کر میری ہر فرمائش پوری کردیتی ،لیکن آج خوش ہونے کے بجائے اس نے اپنی نرم و نازک مٹھی دکھائی اور میز پر مارتے ہوئے بولی: ’’سیٹھ جی! لچھے دار لفظوں کے یہ چھلے اب نہیں چلیں گے۔ صدیوں سے ظلم کی چکی میں پِستی ہوئی بیویاں اب بیدار ہوچکی ہیں اور اب اپنے حقوق منوا کردم لیں گی… ’’جو ہم سے ٹکرائے گا چور چور ہوجائے گا۔‘‘

میں نے کہا: ’’کیا آج ہمارے گھر میں کوئی ترقی پسند شاعر آیا تھا؟‘‘

وہ بولی: ’’جی نہیں! شاعر میرے اندر سویا ہوا تھا، آج جاگ اٹھا ہے، لہٰذا میرے مطالبات مانیے، نہیں تو …‘‘

’’کون سے مطالبات…؟‘‘

’’سب سے پہلے …‘‘ بیگم نے حلق میں تھوک نگلتے ہوئے کہا ۔ اس کی آواز میں گھنگھروؤں کی مانوس جھنکار نہیںبلکہ طبل جنگ کی سی گھن گرج تھی۔ ’’سب سے پہلے میرا مطالبہ یہ ہے کہ میرے کام کے اوقات گھٹائے جائیں، صبح پانچ سے رات کے گیارہ بچے تک اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے روزانہ کام کرتی ہوں، انہیں کم کرکے نو گھنٹے کیے جائیں، ہر مہذب معاشرے میں یہی دستور ہے۔‘‘

’’مگر پیاری، یہ تو ہندوستانی معاشرہ ہے۔‘‘

وہ پھڑک اٹھی ’’ذرا دھیان رکھیے ، جب تک مطالبات کی گفتگو جاری ہے، آپ مجھے پیاری کے لقب سے مخاطب نہ کریں۔ ہاں تو ہندوستانی معاشرے کو مہذب بنانے کے لیے نو گھنٹے کے اوقات آپ کو منظور ہیں؟‘‘

میں نے کہا: ’’دیکھو پیاری! اوہ، کارکن بیگم! گھر میں اگر صرف نو گھنٹے کام ہو تو اس سے کام کی رفتار پر برا اثر پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کام کی دو شفٹیں کرنا پڑیں گی۔ دو شفٹیں اور دو بیویاں۔ کیا تم چاہتی ہو کہ میں گھر میں دوسری بیوی لے آؤں؟‘‘

سوکن کا جلاپا عورت کی نازک رگ ہے، میں نے اس رگ پر جان بوجھ کر انگلی رکھ دی کہ انجمن کارکنان (ٹریڈ یونین) کے اندر انتشار پیدا ہوجائے مگر بیگم کے اندر جیسے وہ قدیم حاسد عورت مرچکی تھی، وہ بولی:

’’یہ مالک کا اپنا مسئلہ ہے، آپ چاہیں تو کوئی ملازمہ رکھ سکتے ہیں۔‘‘

بیگم سوکن والے پہلو سے صاف بچ کر نکل گئی۔ اس کی یہ چالاکی میرے لیے پریشان کن تھی، چنانچہ میں نے ایک اور ہتھیار نکالا:

’’مگر اسے تنخواہ کہاں سے دیں گے؟ جتنی تنخواہ ملتی ہے تمہارے ہاتھوں پر لاکر رکھ دیتا ہوں۔ تم چاہو تو اس تنخواہ میں سے ملازمہ رکھ سکتی ہو۔‘‘

’’اس تنخواہ میں ملازمہ نہیں رکھی جاسکتی۔‘‘

’’تو پھر کیا کیا جائے۔‘‘

’’میں نے کہا نا یہ مالک کااپنا مسئلہ ہے، اسے خود سوچنا چاہیے۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘ میںنے تنگ آکر کہا ’’انتظامیہ اس پر ہمدردانہ غور کرے گی۔ اب اگلا مطالبہ پیش کیا جائے‘‘

’’دوسرا مطالبہ چھٹیوں کا ہے۔‘‘

’’مستقل چھٹی کا؟ اس کی تومیں کئی بار پیشکش کرچکا ہوں مگر ہر بار تم نے اسے حقارت سے ٹھکرادیا۔‘‘

’’دیکھیے آپ اسے مذاق میں مت ٹالیے (حالاںکہ اللہ قسم یہ مذاق بالکل نہیں تھا) ہندوستان بھر کے سارے کامگاروں کو اتوار کی ہفتہ وار چھٹی ملتی ہے مگر مجھے اتوار کو سب سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ ہر اتوار کو آپ کے احباب آدھمکتے ہیں۔ کوئی کھانا کھانے، کوئی چائے پینے اور کوئی یوں ہی گھومنے گھمانے آٹپکتا ہے۔ عید بقرعید، کوئی چھٹی بھی تو نہیں ملتی اور نہ بیماری کی چھٹی، نہ ایمرجنسی کی … بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے؟‘‘ یہ کہہ کر وہ زار وقطار رونے لگی۔میں بھی رونا چاہتا تھا مگر انتظامیہ میں رونے کا رواج نہیں ہے۔

مطالبہ (خدا جھوٹ نہ بلوائے) بالکل جائز تھا لیکن انتظامیہ کا رویہ بھی اس کے متعلق بڑا واضح تھا کہ کسی بھی مطالبے کو جائز قرار نہ دیا جائے بلکہ اگر مطالبہ تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس کے بجائے اسے احسان کا درجہ دیا جائے۔ چنانچہ میں نے کہا: ’’دیکھو بیگم! عورت ذات کی تاریخ گواہ ہے کہ اسے موت سے پہلے چھٹی نہیں ملتی۔‘‘

’’لیکن میں تاریخ کا رخ موڑنا چاہتی ہوں۔‘‘

’’میری پیاری ہٹلر! اگر تم عقل کا تھوڑا سا بھی استعمال کر و تو تمہیں معلوم ہوگا کہ معاشرے کی تاریخ کا سارا ڈھانچہ عورت کے کندھے پر کھڑا ہے، جس دن بھی عورت نے چھٹی کی سماج میں تعطل آجائے گا۔ بھائیں بھائیں کرتی ہوئی ویرانی گھر پر مسلط ہوجائے گی۔ سارا کام اس روز چوپٹ ہوجائے گا، یوں لگے گا، کارخانے پر جبری تالہ بندی کروادی گئی ہے۔ بچے روئیں گے، میں روؤں گا، گھر کی بلی، طوطا اور چوہا سبھی روئیں گے۔ میں پوچھتا ہوں، تمہاری چھٹی کے دوران کام کون کرے گا؟‘‘

’’آپ کیجیے گا۔‘‘ جذبات سے بالکل عاری ہورہی تھی ظالم!

اب میں نے پینترا بدلا اور کہا: ’’اچھا چلو میں تمہاری ہفتے وار چھٹی منظور کرتا ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ اس چھٹی پر تم کرو گی کیا؟‘‘

’’بس بیٹھوں گی، سوئی رہوں گی، سہیلیوں کے ساتھ گھومنے جاؤں گی، فلم دیکھوں گی۔‘‘

لب و لہجے سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ بیگم صرف میری نقل کرنا چاہتی ہے، تقلید بالکل نہیں۔ ایک بار دل میں یہ شیطانی خیال بھی آیا کہ اسے اوور ٹائم کا لالچ دے دوں یعنی چھٹی کے دن کام کرو تو دوگنی اجرت ملے گی۔ اوور ٹائم کی رقم جمع کرکے ایک ساڑی خریدلینا لیکن بیوی کو اوور ٹائم کے ترازو پر تولنا کچھ اچھا نہیں لگا۔ میں نے مردانہ فراخ دلی کی انتہائی بلندی پر کھڑے ہوکر آواز دی ’’تمہاری ہفتہ وار چھٹی منظور کی جاتی ہے مگر ایک شرط پر کہ تم اس دن بال بچوں کو ہمراہ لے کے میکے چلی جایا کرو۔‘‘

میکے کے ذکر پر بیگم کچھ بوکھلا گئی۔ میکہ ہر عورت کی کمزوری ہے۔ میکے کے سامنے سارا ٹریڈ یونین ازم منتشر ہوجاتا ہے۔ اگرچہ بیگم کی سمجھ میں یہ بات فوراً سمجھ میں نہیں آئی کہ اس کا مطالبہ تسلیم کرلیا گیاہے یا اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا گیا ہے۔ مطالبے کے ساتھ شرط لگا کر میں نے ایک تیر سے دو شکار کرلیے تھے۔ میں نے سوچا کہ اس سے بیگم بھی خوش ہوجائے گی اور میں بھی! بیگم کی غیر حاضری میں خاوند کو جو آزادی نصیب ہوتی ہے اس کا اندازہ صرف وہی شادی شدہ مرد لگاسکتے ہیں جو مستقل یکسانیت سے نالاں رہتے ہیں۔

بیگم نے زیر لب تبسم سے اس فیصلہ پر صاد کیا اور میں نے دل ہی دل میں خوش ہوکر کہا ؎

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار

انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات

بیگم کا تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ گھر کے اخراجات کے لیے اسے جو رقم دی جاتی ہے اس میں اضافہ کیا جائے کیونکہ اشیاء کے پرانے نرخ قائم نہیں رہے، ہر چیز پہلے کے مقابلے میں دوگنی مہنگی ہوگئی ہے مگر اخراجات کی رقم بدستور وہی ہے۔گویا یہ مہنگائی الاؤنس کا مطالبہ تھا جو بیک وقت جائز اور ناجائز تھا۔ میں نے جھٹ کہا: ’’بیگم! مجھے تمہارے اس مطالبے سے ہمدردی ہے، بلکہ صرف ہمدردی ہے۔‘‘

وہ تڑپ اٹھی: ’’مگر ہمدردی سے تو بنیان بھی نہیں آسکتی۔‘‘

’’تو بنیان نہ خریدو۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ روکھی سوکھی روٹی کھا کر ٹھنڈا پانی پی، تو اس کا کچھ مطلب تھا، کچھ فلاسفی تھی۔ افسوس یہ ہے بیگم کہ تم ٹریڈ یونین ازم کے جوش میں بزرگوں کی فلاسفی بھول گئیں۔‘‘

اس کے جواب میں بیگم نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ بہت اذیت ناک تھا۔ اس نے صاف کہہ دیا کہ وہ روکھے سوکھے کی فلاسفی پر یقین نہیں رکھتی اور نہ ہی معیارِ زندگی گراکر محلے میں اپنی ناک کٹوانا چاہتی ہے۔ اس نے آنسوؤں کا ہتھیار نکال کر مجھ پر بار بار حملے کیے اور دھمکی دی ’’گھر کے اخراجات کی ذمے داری تم خود سنبھال لو، صرف ہمدردی اور بزرگوں کی فلاسفی کے ساتھ تم ایک ہفتہ میں ہی دیوالیہ نہ ہوگئے تو میں بیگم کہلانا چھوڑ دوں گی۔‘‘

’’تو پھر میں کیا کروں پیاری؟جتنی آمدنی ہے اس سے زیادہ کہاں سے لاؤں‘‘

’’اپنی آمدنی بڑھاؤ‘‘ انقلابی بیوی نے نعرہ لگایا۔

’’کیسے؟‘‘

’’رشوت لو، جیب کترنا شروع کردو،اسمگل کیا ہوا مال بیچو؟ کوئی پرمٹ لائسنس لے لو، ساری دنیا اسی طرح ترقی کررہی ہے؟‘‘

میرا جواب یہ تھا کہ مجھ سے یہ نہیں ہوسکے گا۔ گزشتہ ایک سو برس سے جو خاندانی شرافت ہمارے سرپر سایہ کیے ہوئے ہے، میں اسے چند کرسیوں، اناج کے چند دانوں، بنیانوں اور آلوگوبھی کی خاطر تباہ و برباد نہیں کرسکتا۔

مگر بیگم مصر تھیں’’ہر دور میں اخلاق اور شرافت کی قدریں بدلتی رہتی ہیں، اخراجات میں کمی کردینا بزدلی ہے اور بزدل انسان کو کسی معزز بیوی کا خاوند بننے کا کوئی حق نہیں، اس لیے میرا یہ مطالبہ مان لو ورنہ عام ہڑتال کے لیے تیار ہوجاؤ۔‘‘

اس نے مجھے بزدل کہا، میرے شوہر پن کو مشکوک قرار دیا، عام ہڑتال کی دھمکی دے کر گھر کے مفاد پر ضرب لگانے کا اعلان کیا۔ یہ رویہ سیدھا طلاق کی منزل کی طرف بڑھا جارہا تھا مگر میں نے بھی طے کرلیا کہ بیوی کو طلاق دے دوں گا خاندانی اخلاق کو نہیں۔

چند منٹ کی بحرانی خاموشی کے بعد وہ بولی: ’’تو کیا ارادے ہیں؟‘‘

’’مطالبہ رد کیا جاتا ہے۔‘‘ میں نے تاریخِ انسانیت کا عظیم ترین اعلان کیا۔

’’لیکن یہ میرابنیادی مطالبہ ہے، اگر اسے رد کیا گیا تو میں اس پر غور کروں گی کہ پہلے دو مطالبے بھی منظور کروں یا نہ کروں؟‘‘

’’مجھے یہ چیلنج منظور ہے۔‘‘

اس مرحلے پر آکر سمجھوتے کی بات چیت ٹوٹ گئی۔ مصلحت کے تحت بیگم پلنگ پر جا لیٹی۔ خصلت کے مطابق میں یوں ہی کوئی پرانا رسالہ اٹھا کر ورق گردانی کرنے لگا۔ گھڑی کی ٹک ٹک ہمارے غم اور مسرت دونوں کو پیچھے چھوڑ کر وقت کی بے نیاز منزلیں طے کرتی رہی۔ میں نے کھانا نہیں کھایا۔ شاید بیگم نے بھی نہیں کھایا اور پھر یوں لگا کہ جیسے ہم دونوں ایک دوسرے سے آہستہ آہستہ دور ہوتے جارہے ہیں۔ شاید ہم اندر ہی اندر روتے روتے سوگئے۔ پھر جب بھوک کے گھڑیال نے دو بجائے تومجھے یوں محسوس ہوا جیسے ایک گرم گرم آنسو پیشانی پر گرا ہے اور پھر ہلکی ہلکی سسکیوں کی آواز ، نرم و نازک ہاتھوں کا لمس اور چوڑیوں کی مترنم جھنکار۔

’’یہ کون تھا…؟‘‘ یہ کوئی ٹریڈ یونین لیڈر تو نہیں تھا۔یہ کوئی انقلابی بھی نہیں تھا۔

یہ میری اکلوتی، پہلی اور آخری بیگم تھی جو کہہ رہی تھی: ’’اٹھو، کھانا کھالو، مجھے نیند نہیں آرہی ہے۔‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146