’’عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘ یہ رسول اکرمﷺ کی بیش قیمت نصیحتوں میں سے ایک ہے۔ یہ نصیحت آپؐ نے خطبہ حجۃ الوداع کے دوران ارشاد فرمائی تھی۔ یہ نصیحت کتنی عظیم اور کتنی اہم ہے اس کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ یہ نصیحت حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمائی گئی۔ ازواج مطہرات کو خوش رکھنے کا آپؐ کا خاص انداز تھا۔ اس مضمون میں ہم آپؐ کے طریق نبوی ہی میں سے وہ کچھ بیان کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے لیے مفید و کار آمد ہے جس سے بیوی و شوہر کے تعلقات میں خوشگواری، ہمارے گھروں میں اخلاقی ارتقا اور ہماری آرزوؤں کی تکمیل ہوگی۔
۱- انس و محبت اور دلجوئی
اللہ کے رسول ﷺ ازواجِ مطہرات کے ساتھ بات چیت اور گفتگو کے لیے کچھ وقت نکالتے تھے۔ آپؐ ان کے ساتھ بیٹھتے اور انھیں اپنے انس اور محبت کا احساس دلاتے، ان کی دلجوئی فرماتے ۔ ازواجِ مطہرات بھی آپؐ کے ساتھ ایسا ہی کرتیں۔ آپؐ ان سے دلچسپ باتیں کرتے، اپنی خوشگوار یادوں اور ہنسی مداق میں انھیں شریک کرتے۔ اسی قبیل کی وہ روایت ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک رات ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپؐ کو دس عورتوں کا قصہ سنایا جو ایک جگہ اکٹھی ہوکر اپنے اپنے شوہر کے بارے میں اپنے خیالات بیان کررہی تھیں کہ ان کے اخلاق اور سلوک و معاملات کیسے ہیں۔ یہ روایت حدیث ام زرع کے نام سے جانی جاتی ہے۔
اس روایت کے سلسلے میں علماء نے لکھا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کے ساتھ کس قسم کا طرزِ سلوک ہونا چاہیے نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رات میں اچھے واقعات اور قصے سنانا جائز ہے۔ یعنی یہ کہ بیوی سے محبت و ملاطفت کا سلوک ہو، اسے خود سے مانوس کیا جائے اور آپس میں دلچسپ واقعات بیان کیے جائیں ایک دوسرے کو حکایات و واقعات سنائے جائیںاور ان سب کا مقصد ایک دوسرے کی دلجوئی اورخوش کرنا ہو۔
بعض افراد اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان تمام چیزوں کی ضرورت ہونے کے باوجود زندگی کی گراں باری اور اس کے تقاضے بیوی کے ساتھ دل جوئی اور اظہار انس و محبت کے درمیان حائل رہتے ہیں۔ زندگی کے مسائل اتنے رہتے ہیں کہ ان سب کے لیے وقت ہی نہیں نکل پاتا، حالانکہ یہ افراد جن پر محض ایک یا ایک سے زائد خاندان کا بوجھ ہ رہتا ہے، وہ نبی کریمﷺ کی شخصیت سے غیر واقف ہیں جو پوری امت کا غم اپنے سر لیے ہوئے تھے اور پوری دنیا کی ہدایت کے لیے رات دن کوشاں تھے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ہم نے تمہیں پوری دنیا کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔‘‘ (الانبیاء: ۱۰۷)
شاید ایک شوہر کی حیثیت سے آپ اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوں گے۔ اس لیے آپ اپنی ازدواجی زندگی کو نیا رخ دیجیے۔ یعنی بیوی کو اپنے مضبوط جذباتی تعلق سے آگاہ کیجیے،اس کا احساس دلائیے کہ آپ کی زندگی اس سے کس حد تک مربوط ہے۔ اس کو بتائیے کہ وہ آپ کے شعور، احساس اور توجہ کا مرکز ہے۔ اپنی باتوں اور عمل سے اس پر ظاہر کیجیے کہ وہ محض آپ کے شعور و عقل کے کسی کونے میں یوں ہی نہیں پڑی ہے بلکہ وہ تو آپ کے مرکزقلب کی مکین ہے۔ یہ احساس دلانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی مصروفیتوں کی وجہ سے اس سے غافل نہ ہوں اور اپنے کام اور مصروفیت کی وجہ سے محبت اور دلجوئی کا جو حق اس کا آپ پر ہے، اسے نہ بھول جائیں، آپ کی زبانِ حال اس کے لیے یہی پیغام دیتی رہے:
تری تصویر آنکھوں میں، ترا ہی نام ہونٹوں پر
مکیں ہے تو مرے دل میں، بھلانا تجھ کو ہے مشکل
اسوئہ انسانیت رسول اکرمﷺ نے حضرت جابرؓ کو اپنی بیوی کے ساتھ مداعبت کی تاکید فرمائی۔ خود رسول اکرمﷺ اپنی ازواج مطہرات سے مداعبت و دل لگی فرماتے تھے اور کھانے پینے کے اوقات میں ان سے خوش طبعی فرماتے تھے۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ آپؐ اپنے ہاتھوں سے انھیں کھانا دیتے اور اپنے ہاتھوں سے لقمہ ان کے منہ میں ڈالتے تھے اسی طرح ازواج مطہرات بھی اپنے ہاتھوں سے آپؐ کو کھلاتی تھیں۔ بتائیے کیا آپ کو اس سے زیادہ لطیف و پرکیف اور شیریں رومانس کہیں دیکھنے کو ملے گا؟
حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میںسے کوئی شخص کھانا کھائے (بیوی کے ساتھ) تو اس وقت تک ہاتھ نہ دھوئے جب تک وہ اپنی بیوی کی انگلیاں چاٹ نہ لے یا بیوی اس کی انگلیاں نہ چاٹ لے۔‘‘ حدیث میں یلعقہا کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کے مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ شوہر اپنی محبوب بیوی سے کہے کہ وہ اس کی انگلیاں چاٹے اور یہ اس کی انگلیاں چاٹے۔ یہ ایسا عمل ہے جو محبت و مودت سے بھر پور اور دو دلوں کی انسیت میں اضافہ کرنے والا ہے۔ اس عمل سے زوجین کے درمیان محبت و الفت میںاضافہ ہوگا۔ ان کے درمیان ہمیشہ محبت قائم رہے گی اور دونوں کے دل ایک دوسرے سے خوش رہیں گے۔ بیوی کے ساتھ اس اعلیٰ اخلاقی سلوک کے مقابلے میں جابر اور ظالم لوگوں کا طرزِ عمل کوئی مقابلہ نہیں کرتا جو اپنی بیویوں سے نفرت کرتے ہیں، ان پر سختیاں کرتے ہیں اور پھر اسلام کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ اسلام عورتوں پر سختی اورظلم کرتا ہے۔
۲- بیوی سے مشورہ
اکثر لوگوں نے غلط باتوں کو رواج دے رکھا ہے۔ لوگوں نے یہ بات مشہور کررکھی ہے کہ حضرت عمرؓ کا قول ہے کہ ’’عورتوں (بیویوں) سے مشورہ لو لیکن ان کے مشورے کے خلاف کرو۔‘‘ یا یہ کہ ’’عورت کی بات ماننا ندامت سے دوچار ہونا ہے۔‘‘
دیہاتی، صحرائی یا بدویانہ ماحول میں تو اس بات کو ایک عیب سمجھا جاتا ہے کہ مرد بیوی سے مشورہ کرے۔ اسی لیے دیہاتی لوگ شوہر کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’فلاں شخص اپنی بیوی کے مشوروں پر چلتا ہے۔‘‘ یہاں میں آپ پر یہ واضح کردوں کہ اس قسم کی باتیں جنھیں لوگوں نے مشہور کررکھا ہے۔ وہ غلط اور بے بنیاد ہیں۔ نبی اکرمﷺ سے یا حضرت عمرؓ سے ایسی کوئی حدیث یا قول ثابت نہیں ہے۔ بلکہ میں یہاں یہ ذکر کروں گا کہ ام المومنین ام سلمہؓ (یعنی ایک عورت) نے ہی صلح حدیبیہ کے موقع پر امت کو ایک عظیم حادثے کا شکار ہونے سے بچایا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب اللہ کے رسول ﷺ نے ام المومنین سے اس معاملے میں مشورہ کیا کہ صحابہ کرام احرام کھول کر مدینہ واپس جانے سے انکار کررہے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ صلح حدیبیہ کا معاہدہ ذلت قبول کرنے جیسا ہے۔ اس پر ام المومنینؓ نے آپؐ کو مشورہ دیا کہ آپؐ احرام کھول کر ان کے پاس جائیں۔ چنانچہ آپؐ احرام کھول کر صحابہ کرامؓ کے پاس گئے تو وہ سب رونے لگے اور احرام کھول دیا۔
۳- گھریلو معاونت
اکثر افراد اپنی بیویوں کے کردار کی قدر نہیں کرتے حالانکہ یہی بیوی ان کے بچوں کی ماں ہے، جو ان کی پرورش و پرداخت، کھانے پینے اور ان کی دیگر ضرورتیں پوری کرنے کی ذمہ داری نبھاتی ہے۔ اور بعض اوقات ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں وہ خود کو کمزو ر و لاچار پاتی ہے۔ بلکہ خاص حالات مثلاً حالت حیض، ولادت کے وقت، بیماری کی حالت یا اگر وہ زیرِ تعلیم ہے تو امتحانات کے زمانے میں لاچار سی ہوتی ہے۔ ان کے شوہر یہ ساری چیزیں دیکھتے ہتے ہیں لیکن ان کا دل نہیں پگھلتا کہ اس کی مدد کریں۔ بلکہ اکثر لوگ گھر کے کاموں میں بیوی کی مدد کرنے کو اپنے لیے عار سمجھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کی مردانگی اور شوہرانہ ہیبت و جلال میں کمی واقع ہوجائے گی۔
مجھے ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ ایک روز میرے ایک عزیز نے جو مدینہ میں رہتے ہیں میری دعوت کی۔ میرے ساتھ کچھ اور اعزہ بھی تھے جو بے بنیاد معاشرتی وراثتوں کو گھونٹے ہوئے تھے۔ جب ہم بطور مہمان عزیز کے یہاں پہنچے تو میزبان سلاد کی تیاری میں اپنی بیوی کی مدد کرنے لگے۔ اس بات کو میرے ساتھی اعزہ نے نشانہ تنقید بنالیا۔ سخت دل شوہروں اور ان لوگوں سے جو ظالمانہ معاشرتی تقلیدوں کو حرزِ جا ںبنائے ہوئے ہیں، یہی کہنا کافی ہے کہ جو ان کاموں میں اپنی مردانگی کم ہوتی محسوس کرتے ہیں وہ اس مردانگی پر قائم نہیں، جس پر حضرت مصطفی ﷺ تھے۔ آپؐ کی ذات عظیم ترین انسان کی ذات تھی۔ لیکن اس کے علی الرغم آپؐ اپنا جوتا خود گانٹھ لیتے تھے، کپڑے میں پیوند لگالیتے تھے اور اپنی بیویوں کی خدمت کرتے تھے۔