ایک بزرگ دوست کافی عرصے سے بہت پریشان ہیں، ان کی بیٹی اپنے شوہر کی بعض عادتوں سے بیزار ہے، اور کسی طور ساتھ رہنا نہیں چاہتی۔ شوہر نہ تو اپنی اصلاح کے لئے تیار ہے، نہ طلاق دے رہا ہے اور نہ خلع کے لئے آمادہ ہے۔ دار القضا کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ ہم اس کے مجاز نہیں ہیں کہ مذکورہ اسباب کی بنا پر نکاح فسخ کر سکیں۔
یہ صرف ایک کیس نہیں ہے، میرے علم میں مختلف شہروں کے ایسے کئی کیس ہیں۔ لڑکیاں کئی کئی سال سے میکے میں ہیں، اور شوہر انہیں علیحدگی کا پروانہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ چونکہ نکاح کے بندھن میں بندھی ہوتی ہیں، اس لئے کہیں اور شادی کے بارے میں بھی نہیں سوچ سکتی ہیں۔ اس صورت حال میں تشویش کا ایک پہلو تو ان خواتین کی حالت زار ہے اور ان کی اس تکلیف دہ حالت پر خاموشی کسی طور مناسب نہیں ہے۔ تشویش کا دوسرا بہت خطرناک پہلو یہ ہے کہ کہیں یہ مسئلہ آگے چل کر شریعت کو نشانہ بنانے کا ایک اور بہانہ نہ بن جائے۔
اسلامی شریعت رحمت والی شریعت ہے، اس میں کوئی ایسا حکم نہیں ہے جس سے زندگی عذاب بن جائے۔ اگر ایسا کہیں نظر آتا ہے، تو اس میں کہیں نہ کہیں ہمارے عمل کی کوتاہی یا اجتہاد کی غلطی ضرور کارفرما ہے۔ ایسے میں ہمیں اصلاح حال کے لئے فکرمند ہونا چاہئے۔ اس کا انتظار ہرگز نہیں کرنا چاہئے کہ جب بات حکومت اور عدالت کی سطح پر پہنچے، اور مسئلہ شدید بحران کی شکل اختیار کرلے تو ہم اس بحران سے نکلنے کا راستہ تلاش کریں۔
یہ بحث کبھی بھی زور پکڑ سکتی ہے کہ جب نکاح دو طرفہ معاہدہ ہے جو دونوں کی رضامندی سے وجود میں آیا ہے، تو اس معاہدہ کو توڑنے کا اختیار صرف مرد کے پاس کیوں ہے؟ یا تو یہ معاہدہ دونوں کی رضامندی سے ٹوٹے، یا پھر دونوں میں سے ہر کسی کو اسے توڑنے کا اختیار رہے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ مرد تو کسی بھی وجہ سے جب چاہے طلاق دے دے، اور عورت خلع کا حق بھی مرد کی مرضی کے بغیر استعمال نہ کرسکے؟ اگر یہ بحث نہ بھی چھڑے تو بھی ظلم سے چشم پوشی کرنا کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے۔
واضح ہو کہ قانون کی غلط تشریح یا اس کا غلط استعمال ظلم کو جنم دیتا ہے۔ ظلم کی ایک صورت تو یہ ہے کہ مرد معقول وجہ کے بغیر غلط ارادے سے طلاق دے دے، اور ظلم کی دوسری صورت یہ ہے کہ عورت کے نہ چاہتے ہوئے بھی زبردستی اسے اپنی بیوی بناکر رکھے، یعنی خلع کے مطالبے کو پورا نہ کرے۔ افسوس ہمارے سماج میں دونوں طرح کے ظلم کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ کثرت وقلت کا فیصلہ تو صحیح سروے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔
اسلامی لٹریچر میں خلع کو عورت کا حق بتایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جس طرح مرد کے پاس طلاق کا راستہ ہے، اسی طرح عورت کے پاس خلع کا راستہ ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ طلاق کا راستہ تو مرد کے مکمل کنٹرول میں ہوتا ہے لیکن خلع کا راستہ بھی عملا مرد ہی کے کنٹرول میں رہتا ہے، کیونکہ جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ عورت خلع کا راستہ اسی وقت اختیار کرسکتی ہے، جب کہ مرد اس کے لئے راضی ہو، اور اگر مرد راضی نہ ہو تو عورت کے لئے یہ راستہ بند ہوجاتا ہے۔
اس سلسلے میں اصلاح کے دو راستے ہیں اور دونوں پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔
ایک راستہ یہ ہے کہ لوگوں کی اخلاقی سطح بلند کی جائے، اور انہیں یہ بتایا جائے کہ عورت اگر خلع کا مطالبہ کرے تو مرد کو نہ دینی لحاظ سے یہ زیب دیتا ہے اور نہ اخلاقی لحاظ سے کہ وہ اس مطالبے کے باوجود اسے اپنی بیوی بنائے رکھنے پر اصرار کرے۔ ایسی صورت میں اسے چاہئے کہ پہلے اپنی اصلاح پر توجہ دے، ساتھ ہی بیوی کو سمجھائے اور منائے، لیکن اگر وہ ساتھ رہنے پر کسی طرح آمادہ نہ ہو تو جلد از جلد اس کے مطالبہ خلع کو پورا کردے۔ یہ اتباع سنت کا بھی تقاضا ہے اور مردانہ عزت ووقار کا بھی۔
یاد رکھئے، جب عورت خلع کا مطالبہ کردے، تو ٹال مٹول سے نقصان (Damage) میں اضافہ ہی ہوتا ہے، بات بڑھتی ہے، دونوں گھروں کی رسوائی اور جگ ہنسائی ہوتی ہے، باہمی نفرت میں اضافہ ہوتا ہے، اور آئندہ ملاپ کے امکانات کم ہوتے جاتے ہیں۔ اور اگر خلع کے مطالبے کو مرد جلدی پورا کردے تو بات زیادہ نہیں بگڑتی اور اس کا بھی بہت امکان رہتا ہے کہ آئندہ دونوں نئے سرے سے نکاح پر آمادہ ہوجائیں۔ کیوں کہ خلع کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی کے مطالبہ پر ایک طلاق دے۔ اس طلاق کے بعد رجوع کا موقع تو نہیں رہتا ہے، تاہم دونوں کی رضامندی سے نیا نکاح کبھی بھی ہوسکتا ہے۔
اصلاح حال کا دوسرا راستہ یہ ہے کہ خود خلع کے نظام کو بہتر بنایا جائے، اور مرد کے لئے قانونی طور سے یہ لازمی قرار دیا جائے کہ اگر عورت سمجھانے بجھانے کے باوجود ساتھ رہنے پر آمادہ نہیں ہوتی ہے، تو مرد لازمی طور سے خلع کے مطالبے کو قبول کرے، اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو قاضی یا اس کے قائم مقام شرعی نظام ورنہ تو پھر محلہ اور گاؤں کے لوگ خلع کو دونوں پر نافذ کردیں۔ شوہر کو اس کا مہر واپس دلادیں اور بیوی کو اس سے آزاد قرار دے دیں۔
اصلاح کی یہ کوشش ہمیں اپنی فقہی تاریخ میں کہیں کہیں نظر آتی ہے۔ جمہور کی رائے تو یہی تھی کہ خلع کے مطالبے کو قبول کرنا شوہر کے لئے ضروری نہیں ہے، تاہم علامہ ابن تیمیہ (ت ۷۲۸ھ) نے اس مسئلے پر اپنے تردد کو درج کیا، چنانچہ علامہ ابن تیمیہ کی طرف دونوں رائیں منسوب کی گئیں، اور اس کے بعد سے حنبلی فقہ میں دونوں رایوں کا تذکرہ ہونے لگا، مشہور حنبلی فقیہ علامہ محمد بن مفلح المقدسی (ت ۷۶۳ھ) لکھتے ہیں کہ شام کے کچھ فاضل مقدسی قاضیوں نے خلع کو لازم کیا۔ (الفروع)غیر سنی فقہ میں اس کا تذکرہ ہمیں پانچویں صدی کے لٹریچر میں بھی ملتا ہے، ملاحظہ ہو ابوجعفر طوسی کی کتاب النھایہ۔
سعودی عرب میں چونکہ حنبلی مسلک رائج ہے، اس لئے وہاں اس سلسلے میں بہت نمایاں پیش رفت ہوئی۔ وہاں کے پہلے مفتی شیخ محمد بن ابراھیم بن عبداللطیف آل الشیخ (ت ۱۳۸۹ھ) بعد ازاں مشہور زمانہ عالم ومفتی شیخ بن باز، اور شیخ ابن عثیمین اور پھر دوسرے اہل علم نے اس موقف کو بہت قوت کے ساتھ پیش کیا۔ ان اہل علم نے سنت رسول سے بھی استدلال کیا، اور عورت کے مطالبہ خلع کو نظرانداز کرنے کے بہت سے اضرار ومفاسد کا حوالہ بھی دیا۔ ان لوگوں نے اس پر بھی زور دیا کہ خلع کی کارروائی جلد مکمل کرلی جائے، اس کے لئے مہینوں اور برسوں عورت کو معلق نہ رکھا جائے۔
خلع کے سلسلے میں مولانا مودودی بھی لکھتے ہیں:
’’اگر عدالت میں معاملہ جائے، تو عدالت صرف اس امر کی تحقیق کرے گی کہ آیا فی الواقع یہ عورت اس مرد سے اس حد تک متنفر ہوچکی ہے کہ اس کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہوسکتا۔ اس کی تحقیق ہوجانے پر عدالت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے جو فدیہ چاہے تجویز کرے، اور اس فدیے کو قبول کرکے شوہر کو اسے طلاق دینا ہوگا۔‘‘ (تفہیم القرآن)
اس عبارت میں ایک اور نکتہ بہت اہم ہے، وہ یہ کہ عورت کس قدر متنفر ہے، اس کی تحقیق ہونی چاہئے، آیا اس قدر تنفر کے ساتھ اسے شوہر کے ساتھ رہنا چاہئے؟ اصل اہمیت اسی پہلو کی ہے۔ ممکن ہے تنفر کی وجہ بہت معمولی اور غیر اہم لگتی ہو، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شوہر کی طرف سے کوئی کوتاہی یا بدسلوکی نہ ہو، لیکن اگر تنفر ناقابل برداشت ہو تو اس تنفر کا لحاظ کیا جائے گا۔ خلع کے ایک واقعہ میں کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر نے اسی طرح کی تحقیق کی، اور تنفر کی شدت دیکھ کر خلع کا حکم صادر کردیا۔ اب اگر عورت میکے میں جا کر بیٹھ گئی ہے، اور کسی طور واپسی کے لئے تیار نہیں ہے، بلکہ علیحدگی کی خاطر مہر بھی لوٹانے کو تیار ہے، تو سمجھنا چاہئے کہ تنفر ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکا ہے۔ اور اگر لڑکی کے ولی اور اہل خانہ بھی خلع کے مطالبہ کی تائید کریں تب تو یہ مطالبہ بہت زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے اور اسے نظر انداز کرنے کی کوئی وجہ نہیں رہ جاتی ہے۔ کیوںکہ یہ ایک عورت کے بجائے ایک خاندان کا مطالبہ ہوجاتا ہے۔
واضح رہنا چاہئے کہ عہد رسالت اور عہد خلافت میں ہمیں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا ہے جس میں بیوی نے خلع مانگا ہو، اور اس کے باوجود اسے شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور ہونا پڑا ہو۔ خلع کے سلسلے میں مذکور واقعات میں اس پر تو گفتگو ملتی ہے کہ شوہر خلع کے عوض بیوی سے کس کس چیز کو واپس مانگے، لیکن خود بیوی کو زبردستی ساتھ رکھنے کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ خلع خالص بیوی کا حق ہے، جس طرح طلاق خالص شوہر کا حق ہے، بیوی کو اس حق سے محروم کرنا ہرگز درست نہیں ہے۔
عہد رسالت میں خلع کے واقعہ یا واقعات سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ خلع کا عمل ایک بہت ہی آسان اور رواں (Smooth and Easy) عمل ہونا چاہئے۔ اسے پیچیدہ اور دشوار بنانا روح شریعت کے خلاف ہے۔ اس عمل کو طول دینا اور دنیا وآخرت کی وعیدیں سنا کر بیوی کو شوہر کے ساتھ رہنے کے لئے مجبور کرنا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ یہ دین کے مزاج اور اس کی عظمت کے خلاف ہے کہ تنفر اور بیزاری کے باوجود دین کا حوالہ دے کر دونوں کو ساتھ رہنے پر مجبور کیا جائے۔ ہمیں یقین ہونا چاہئے کہ اگر دونوں میں نیک نیتی اور خدا ترسی کے ساتھ علیحدگی ہوتی ہے، تو اللہ دونوں کے لئے خیر کی نئی راہیں پیدا کردے گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:ترجمہ: ’’لیکن اگر زوجین ایک دوسرے سے الگ ہو ہی جائیں تو اللہ اپنی وسیع قدرت سے ہر ایک کو دوسرے کی محتاجی سے بے نیاز کردے گا۔ (النساء:۱۳۰)