میرے دوست عبدالرحمن کے ذریعے جب مجھے معلوم ہوا کہ ہمارا ایک اور دوست فہد آج کل اپنی بیوی سے ناراض ہے اور دونوں کے درمیان کچھ اختلافات پیدا ہوگئے ہیں تو مجھے واقعی بہت تکلیف ہوئی۔ تکلیف کی وجہ یہ بھی تھی کہ میں فہد کو اچھی طرح جانتا ہوں ، اس کے اخلاق وکردار سے واقف ہوں۔ وہ ایک پاکیزہ نفس اور زاہد ومتقی قسم کا انسان ہے۔فہد سے میرے قلبی تعلق کی بنا پر ہی شاید عبدالرحمن نے ایک دن مجھ سے کہا کہ ان کے درمیان اختلافات کی خلیج وسیع ہونے سے پہلے ہی میں ان کے معاملات میں مداخلت کرکے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کروں۔ لیکن میں نے عبدالرحمن سے کہا کہ پہلے ان کے درمیان اختلافات اور ناراضی کا سبب بھی تو معلوم ہونا چاہیے۔
عبد الرحمن نے مشورہ دیا کہ میں فہد ہی سے معلوم کرنے کی کوشش کروں۔لیکن میں اس سے کیا پوچھوں ؟ یہ کہ تم اپنی بیوی سے کیوں ناراض ہو؟؟ کیا یہ سوال کچھ اٹ پٹا سا نہیں لگے گا؟۔اس کے بعد عبدالرحمن نے دوسرا مشورہ دیا کہ میں اپنی بیوی سے اس کا سبب معلوم کروں کیوں کہ عورتیں اپنے اور شوہر کے درمیان کی باتیں اپنی سہیلیوں سے کم ہی چھپاتی ہیں۔مجھے اس کا یہ مشورہ مناسب لگا۔
٭٭
میں نے اپنی بیوی سے کہا: ’’فہد کی بیوی سے ملاقات اور گفتگو کے دوران تمھیں تو کچھ نہ کچھ معلوم ہوا ہوگا کہ وہ اپنی بیوی سے کیوں ناراض ہے؟‘‘
میری بیوی نے مسکرا کر جواب دیتے ہوئے کہا: ’’کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ بیوی ہی اس سے ناراض ہو؟‘‘
بیوی کے اس ریمارک پر مجھے تعجب تو ہوا لیکن میں یہ بھی سمجھ گیا کہ وہ ان دونوں کے درمیان اختلافات کے سبب سے اچھی طرح واقف ہے۔‘‘
میں نے بھی مسکراتے ہوئے کہا: ’’ٹھیک ہے، ایسا ہی سہی۔ اب بتائو اس کی بیوی اس سے کیوں ناراض ہے؟‘‘
کہنے لگی: ’’سچی بات یہ ہے کہ فہد کی بیوی اس کی بہت تعریف کرتی ہے اور اسے اس کی ہر بات اچھی لگتی ہے ، بس اس کے ایک عیب سے اسے شکایت ہے۔‘‘
مجھے اپنے دوست کے اس عیب کو جاننے کاتجسس ہوا۔ اس لیے میں نے فوراً ہی پوچھا: ’’ وہ کون سا عیب ہے؟‘‘
’’اس کا ہاتھ بہت تنگ ہے۔‘‘ میری بیوی نے جواب دیا۔
’’تمھارا مطلب بخل سے ہے؟‘‘ میں نے وضاحت چاہی تو اس نے جواب دیا کہ میں یہ مناسب نہیں سمجھتی کہ فہد کو کنجوس یا بخیل کہوں۔‘‘ میں نے کہا: ’’ لیکن تمھارے اس جملے سے مجھے تو یہی سمجھ میں آیا ہے۔ کیوں کہ وہ صدقہ وخیرات کرتا رہتا ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے ہمیشہ کمر بستہ رہتا ہے۔
بیوی نے کہا:’’یہ بات تو اس کی بیوی بھی کہتی ہے۔‘‘
مسئلہ گویا میری سمجھ میں آگیا ۔ اس لیے میں نے اپنی بیوی سے کہا:’’اس کا مطلب ہے اس کا یہ زہد وتقوی ہی اسے اپنی بیوی پر خرچ کرنے سے روک رہا ہے۔‘‘
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میری بیوی نے کہا:’’فہد کی شادی کے بعد سے تم اس کے گھر نہیں گئے۔ تم اس کے گھر کیوں نہیں چلے جاتے ۔تمھیں اس کے گھر جاکر اس کو احساس دلائے بغیر اور اس کے دل کو کسی طرح کی ٹھیس پہنچائے بغیر اس مسئلے پر اس سے بات کرنی چاہیے۔
میں نے اس کے مشورے کو تسلیم کرتے ہوئے کہا:’’تم ٹھیک کہتی ہو۔ میں ان شاء اللہ اس کے گھر جاکر اس سے بات کروں گا۔‘‘
٭٭
فہد کی شادی حال ہی میں ہوئی تھی۔ لیکن جب میں اس کے گھر میں داخل ہوا تو مجھے گھر میں وہی پرانا سامان نظر آیا جو شادی سے پہلے تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے اپنی بیوی کی بات درست معلوم ہوئی کہ واقعی گھر کی طرف سے فہد نے اپنا ہاتھ تنگ کررکھا ہے۔
فہد نے انتہائی گرمجوشی سے میرا استقبال کیا بلکہ شادی کے اتنے دن گزر جانے کے بعد آنے پر ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔میں نے معذرت کی اور واقعی اپنی کوتاہی کو تسلیم کیا۔ اس کے بعد ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے لیکن میں ایسا کوئی موقع تلادش نہیں کرسکا کہ اس موضوع پر بات کرسکتا جس پر بات کرنے کے لیے اس کے گھر آیا تھا۔
بالآخر میں نے کہا:’’مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ شادی کے بعد بھی غریبوں، بیوائوں اور یتیموں سے تمھاری محبت کم نہیں ہوئی اور اب بھی تم پہلے کی طرح ان پر دل کھول کر صدقہ کرتے ہو۔‘‘
اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا:’’لیکن یہ بات تمھیں کیسی معلوم ہوئی۔ میں اس بات کی پوری کوشش کرتا ہوں کہ میں جو کچھ خرچ کرتا ہوں اس کی خبر میرے بائیں ہاتھ کو بھی نہ ہوپائے۔‘‘
میں نے مذاق کے انداز میں کہا:’’ہم صحافی اپنی خبروں کا ماخذ (source)ظاہر نہیں کیا کرتے۔‘‘
فہد بولا:’’صحافت کا ذکر آہی گیا تو بتائو اور کیا خبریں ہیں؟‘‘
مجھے یہ ڈر ہوا کہ کہیں میں اپنے اصل مقصد سے قریب آکر پھر دور نہ ہوجائوں ، اس لیے میں نے کہا:’’چھوڑو یار صحافت وحافت کومارو گولی ۔‘‘میری بات سے اتفاق کرتے ہوئے فہد مسکرا دیا۔
میں نے پوچھا:’’لیکن کیا تم یہ سب کچھ اپنی بیوی کا حق مار کر نہیں کررہے ہو؟‘‘
شاید اس کے ذہن سے یہ بات نکل گئی تھی کہ ہم کس موضوع پر بات کررہے تھے اس لیے اس نے پوچھا: ’’کیا مطلب؟‘‘
میں نے کہا:’’ یہی جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو، کیا یہ سب اپنی بیوی کا حق مار کر نہیں کرتے؟‘‘
بولا:’’میں نے شروع میں ہی اپنی بیوی کو یہ بات سمجھا دی تھی کہ اس دنیا میں ہماری حیثیت راہ رو اور مسافر کی سی ہے۔ ہم اللہ کے نبی ﷺ اور ان کے صحابہ ؓ سے بہتر ہر گز نہیں ہوسکتے جو کہ زہد اور کفاف (ضرورت بھر کمائی )کی زندگی بسر کیا کرتے تھے۔
میں دل ہی دل میں اس بات پر خوش ہوا کہ فہد کو اس مقام پر لے آیا تھا جہاں میں اسے لانا چاہتا تھا۔لیکن ساتھ ہی مجھے یہ بھی احساس ہوگیا کہ اس مسئلے میں اسے قائل کرنا ذرا مشکل ہوگا۔بہر حال میں نے کہا:’’لیکن اللہ کے رسول ﷺ ہی نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہر حق دار کو اس کا حق دیا جائے۔ اس اعتبار سے تمھاری بیوی کے بھی تم پر بہت سے حقوق ہیں۔‘‘
’’لیکن مجھے نہیں لگتا کہ میں اپنی بیوی کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہوں۔وہ میرے ساتھ رہ رہی ہے، کھاپی بھی رہی ہے اور، پہن اوڑھ بھی رہی ہے۔‘‘اس نے جواب دیا۔
میں نے پوچھا:’’مگر کیا کھا پی رہی ہے اور کیا پہن اوڑھ رہی ہے؟‘‘
شایدوہ میری بات سمجھ نہیں پایا، اس لیے اس نے سوال کیا:’’ کیا مطلب؟‘‘
میں نے کہا:’’کیا تم نے کبھی اس سے یہ بھی پوچھا کہ وہ اپنے لیے کیا کچھ خریدنا چاہتی ہے؟‘‘
وہ خاموش ہوگیا اور کوئی جواب نہیں دیا۔
میں نے پھر پوچھا:’’کیا تم نے کبھی اسے صرف سو روپے دے کر بھی یہ کہا کہ ان پیسو ں سے اپنے لیے نئے کپڑے خرید لو؟‘‘
میرے اس سوال پر ہلکا سا اعتراض ظاہر کرتے ہوئے اس نے کہا:’’نئے کپڑے کیوں؟ جب کہ اس کے پاس جو سوٹ ہیں وہ خراب بھی نہیں ہوئے۔‘‘
میں نے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا:’’آج کون سی عورت ایسی ہے جو صرف اسی لیے کپڑے خریدتی ہے کہ اس کے کپڑے بوسیدہ یا خراب ہوگئے ہیں؟! عورتوں کو نیا پن پسند ہے۔اور اگر اس سے ان کے دل کو ذرا خوشی حاصل ہوجاتی ہے ان کے اس مزاج کی رعایت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
اس نے مذاق کے انداز میں کہا:’’یا رتجھے میری بیوی کی طرف سے وکیل کس نے مقرر کیا ہے؟‘‘
میں نے اس کے اس سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا:’’غریبوں اور مسکینوں پر صدقہ کرنے کا تمھارا مقصد کیا ہے؟‘‘
اس نے کہا:’’اس کام میں اللہ تعالی نے بہت اجر رکھا ہے۔‘‘
میں نے کہا:’’واقعی۔۔۔۔۔ لیکن کیا تمھیں معلوم ہے کہ اگرتم اپنی بیوی پر صدقہ کرو تو اس میں بھی تمھارے لیے بہت بڑا اجر ہے! بلکہ اگر تم اپنی بیوی پر خرچ کرتے ہو تو اس کا اجر غریبوں اور مسکینوں پر صدقہ کرنے سے بھی زیادہ ہے!‘‘
اس نے اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا: ’’لیکن بیوی پر جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے وہ تو واجب ہے،ایسی صورت میں صدقے کی مد تو باقی رہ جاتی ہے ، صدقہ تو آدمی باہر کے غریبوں پر ہی کرے گا؟‘‘
میں نے کہا:’’ میں تمھیں اللہ کی رسول ﷺ کی ایک حدیث سناتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا:’’ایک دینار تم نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا، ایک دینار غلام کو آزاد کرنے میں خرچ کیا، ایک دینار کسی مسکین پر خرچ کیا اور ایک دینار تم نے اپنی بیوی پر خرچ کیا۔ ان تمام دیناروں میں سب سے زیادہ اجر اس دینار پر ہے جو تم نے اپنی بیوی پر خرچ کیا ہے۔‘‘
میرے دوست نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’اللہ اکبر، یہ حدیث میں نے آج پہلی بار سنی ہے۔ لیکن کیا تمھیں یقین ہے کہ یہ صحیح حدیث ہے؟‘‘
میں نے کہا:’’ہاں، اس کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘ (کتاب الزکاۃ، باب فضل النفقۃ علی العیال۔ عن ابی ہریرۃ)
اس نے خود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’میں اپنی بیوی کے لیے کھانے پہننے وغیرہ کی وہ چیزیں خریدوں جو اس کو پسند ہیںتو اس طرح میں اس کی محبت پالوں گااور دوسری طرف مجھے اس کا اجر بھی ملے گا۔! میں نے کتنا اجر ضائع کردیا اور واقعی میں نے اپنی بیوی پر کس قدر ظلم کیا ہے؟!
میں نے کہا:’’کوئی بات نہیں ۔ جو ہو چکا ہے اس پر افسوس کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ابھی تمھاری ازدواجی زندگی شروع ہوئی ہے۔ پوری زندگی ابھی تمھارے سامنے پھیلی ہوئی ہے ان شاء اللہ۔ بس تمھیں اپنی ترجیحات کو الٹ دینا ہے۔ہر صاحب حق کو اس کا حق دیتے جائو، بس۔‘‘
’’میں اپنی بیوی پر خرچ کروں تو مجھے اس کا اجر کسی غریب پر خرچ کرنے سے بھی زیادہ ملے گا بلکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بھی زیادہ؟! اللہ تعالی نے واقعی شوہر بیوی کے درمیان الفت و محبت پر کس کس طرح ابھارا ہے!‘‘
میں نے کہا:’’لیکن دیکھو۔۔۔۔‘‘
بولا:’’کیا‘‘
میں نے کہا:’’لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ بیوی پر خرچ کرنے لگو تو ان غریبوں اور مسکینوں کو بھول ہی جائو جن پر تم اب تک خرچ کرتے آئے ہو۔ اللہ کے رسول ﷺ کے فرمان کا مقصد یہ ہر گز نہیں ہے۔ یہ صرف ترجیحات کی ترتیب کا مسئلہ ہے جیساکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’آغاز ان سے کرو جو تمھاری کفالت میں ہیں۔‘‘
’’اور میرے زیرکفالت سب سے پہلے میری بیوی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
میں نے مزید اس کو پکا کرنے کے لیے ایک اور حدیث کا حوالہ دیا جسے بخاری نے حضرت ابو مسعود انصاریؓ سے روایت کیا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’جب مسلمان اپنی بیوی پر اس حال میں خرچ کرتا ہے کہ وہ اس عمل کا احتساب کررہا ہو تو یہ خرچ کرنا اس کے لیے صدقہ ہے۔‘‘
اس نے پوچھا:’’احتساب کرنے کا کیا مطلب؟‘‘
میں نے کہا:’’مطلب یہ ہے کہ وہ صرف اس لیے خرچ کرے کہ اس کے ذریعے اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل ہواور یہ سوچ کرکرے کہ بیوی پر خرچ کرنا اس پر فرض ہے اور وہ ایسا کرکے اللہ کے حکم کی تعمیل کر رہا ہے۔‘‘
’’اللہ واقعی کتنا کریم ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’کیا ان لوگوں پر حیرت نہیں ہونی چاہیے جو بخل سے کام لے کر خود کو بڑے اجر سے محروم کر لیتے ہیں۔‘‘
’’بالکل انفاق کے اور بھی بہت سے فائدے ہیں۔‘‘ اس نے کہا۔
’’ہاں اور تم ان فوائدسے صدقہ کے عمل کے طفیل اچھی طرح واقف ہو۔ اور وہ یہ ہے کہ تمھارے صدقات اور خیرا ت کے طفیل اللہ تعالی دنیا میں تمھیں نیک نام کردیتا ہے اور دنیا میں ہی تمھیں اس کا بدلہ دے دیتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالی فرماتا ہے:’’تم خرچ کرو تو میں تم پر خرچ کروں گا۔‘‘ (بخاری کتاب تفسیر القرآن، باب وقولہ ’وکان عرشہ علی الماء‘) اسی طرح ایک حدیث میں اللہ کے رسول نے تین چیزوں پر اللہ کی قسم کھائی ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ ’’صدقہ سے بندے کا مال کم نہیں ہوتا۔‘‘
tanveerafaqui@gmail.com