بیوی کی تنخواہ اور گھریلو جھگڑے

ڈاکٹر سمیر یونس ترجمہ : تنویر آفاقی

ایک عرصے تک شوہر اور بیوی کے درمیان ازدواجی تعلقات بہت مضبوط، اور ان کی زندگی بڑی خوشگوار رہتی ہے، لیکن کچھ دنوں کے بعد ان کے درمیان اختلافات کی دراڑ ابھرنے لگتی ہے۔اس صورت حال میں بچے بلوغت کی عمرکو پہنچتے ہیں توآوارگی اوربے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں۔دلوں میں فرق آجاتا ہے، مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں اور دونوں فریق کسی پنچایت یا عدالت کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

خانگی زندگی کی یہ وہ کہانی ہے جو تقریباً ہمارے ہر گھر میں دہرائی جارہی ہے۔اس طرح کے واقعات کی مثالوں میں روز اضافہ ہورہا ے۔اوران واقعات اور مسائل کا سبب ایک ہے، اور وہ ہے بیوی کی تنخواہ یا اس کی آمدنی۔حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ عورت کی آمدنی بھی گھر کے جھگڑوں کا سبب بن سکتی ہے اور حیرت در حیرت یہ اس بات پر ہے کہ یہ چیز جھگڑے کاسبب ان گھروں میں بھی بنتی ہے جہاں ہر شخص دینی تعلیم سے آراستہ ہے، شریعت کی تعلیمات سے واقف ہے، رات دن جن کے گھروں میں اللہ کی کتاب کی تلاوت اور اللہ کے رسولﷺ کی احادیث کا مطالعہ اور ان پر غورو تدبر کیا جاتا ہے۔کیا روپیے پیسوں کی چمک اتنی نظر فریب اور مسحور کن ہے؟! کیا اس مادی دولت میں اتنی طاقت ہے کہ مرد کو اس کا دین اور اور اپنے رب کی شریعت کچھ بھی یاد نہیں رہتا؟!!

حیرت ہے ان کے لالچ اور حرص پر

مجھے اس شخص پر واقعی بہت حیرت ہوتی ہے جو اپنی بیوی کے مال کا مالک بن کر بیٹھ جاتا ہے۔اس کے مال پر اس حد تک قابض ہو جاتا ہے کہ اس کا اے ٹی ایم کارڈ وغیرہ بھی شوہر ہی کے تصرف میں رہتے ہیں۔گویا بیوی تو اس کی لونڈی ہے وہ کما کر لائے گی اور یہ حضرت اس کی کمائی پر قابض ہو جائیں گے اور بیوی کا اپنی ہی کمائی پر کوئی حق نہیں ہوگا۔

ایسے شخص پر سخت حیرت ہے جو اللہ کے کبھی نہ ختم ہونے والے خزانوں کے بجائے اس مال پر نظر رکھتا ہے جو دوسروں کے ہاتھ میں اسے دکھائی دیتا ہے۔بلکہ اسے اپنی بیوی کے وہ چند روپے ہی نظر آتے ہیں جنھیں وہ اپنی محنت سے حاصل کرتی ہے۔مہینے بھر کی کمائی کو یہ شخص کسی بڑی شکاری مچھلی کی طرح آکر ہڑپ کر جاتا ہے اور نہ اس کا ضمیر اسے ایسا کرنے سے روکتا ہے اور نہ ہی شریعت کی طرف سے اسے کوئی رکاوٹ نظر آتی ہے!!بیوی بے چاری اپنی ہی کمائی کے اتنے حصے سے بھی محروم رہ جاتی ہے کہ وہ اپنی ماں یا اپنے ضرورت مند بھائی بہنوں کے لیے کوئی تحفہ وغیرہ خرید سکے۔

دلوں میں خوف کب آئے گا؟

یہ ایسے لوگوں کا نمونہ ہے جن کے دل کبھی آسودہ نہیں ہوتے۔انھیں نہ اپنے رب کی نصیحتیں یاد ہیں اور نہ ہی محبوب خدا ﷺ کی ہدایت اور تعلیمات یاد ہیں۔ روپیے اور پیسے کے لالچ میں انھیں کچھ یاد نہیں رہا اور دل الگ سخت ہو گئے ہیں۔

ایک عورت نے کسی واعظ کی تقریر سنی ۔ تقریر کے بعد حاضرین میں سے کسی دوسری خاتون نے سوال کیا کہ مرد عورت کے مال پر زبردستی اپنا حق ملکیت قائم کرلے تو اس کا کیا حکم ہے۔ واعظ نے اللہ کے احکامات کی روشنی میں اس کے سوال کا جواب دے دیا۔ اس عورت نے بھی وہ جواب سنا۔ گھر آکر یہ بات اس نے اپنے شوہر کو بتائی۔ لیکن شوہر صاحب بجائے اس کے کہ اپنی حرکت سے باز آتے ، انھوںنے اس کے اے ٹی ایم اور پاس بک وغیرہ اس سے چھین لیں ، ا س کے پاس جو روپیے تھے وہ بھی اپنے قبضے میں کیے اور انتہائی ظالمانہ طریقے سے عورت کو اختیار دے دیا کہ چاہے تو اس کی مرضی کے تابع رہ کر اس گھر میں رہے ورنہ بہ خوشی اپنے میکے واپس چلی جائے۔اس کے بعد یہ کہہ کراپنی بات کی معقول توجیہ کرنے کی کوشش کی کہ ’’میری تنخواہ سے گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوپاتے۔‘‘ کیا ظلم ہے؟! اور اس ظلم کا اسے کس نے حق دے دیا؟!!ایک اور شخص کے ساتھ ایسا ہی معاملہ پیش آتا ہے ، بیوی کی موجودگی میں اسے شریعت کا صحیح حکم سنایا جاتا ہے، لیکن وہ یہ کہہ کرمعاملے کو ختم کردیتا ہے کہ ’’ ایسی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دی جاتی ہیں۔‘‘

اس ظلم کی شکار عورتیں

۱۔ شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے شہر میں جاکر رہنے لگے۔ گھر کا ماحول محبت اور جذباتی تعلقات و وابستگی سے آباد تھا۔ شوہر نے اپنی آمدنی اور بیوی کی آمدنی میں کوئی فرق نہیں کیا۔ دونوں کو یک جا کرلیا۔اب دونوں کی آمدنی میں سے جو رقم ہر ماہ بچ جاتی تھی وہ شوہرنے اپنے والد کے پاس بھیج دی۔ شوہر کے والدنے اس رقم سے سمندر کے کنارے ایک حوبصورت سا فلیٹ خریدا اور اسے اپنے بیٹے کے نام کرا دیا۔چند برسوں کے بعدمیاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہوگیا ، آپس میں اختلافات پیدا ہو گئے۔ جھگڑے اور اختلاف کی وجہ یہ تھی حضرتِ شوہر کو انٹرنیت پر چیٹنگ کی لت لگ گئی تھی، اور لڑکیوں سے شادی کی باتیں کرنے لگے تھے۔ بیوی اس مسئلے کو لے کر اہل خیر حضرات کے پاس گئی۔ انھوں نے فیصلہ دیا کہ بیوی کی جو بھی رقم نکلتی ہے وہ واپس کی جائے۔ لیکن شوہرکے پاس دینے کے لیے رقم تھی ہی نہیں۔ اس لیے انھوں نے فیصلہ سنایا کہ وہی فلیٹ جو خریدا گیا تھا بیوی کو دے دیا جائے۔ انھوں نے اپنے اس فیصلے کو لکھ کر اس پر دستخط بھی کر دیے۔تھوڑی جدوجہد کے بعدبالآخر فلیٹ بھی حاصل ہو گیااور عورت نے اسے قالین وغیرہ سے آراستہ کر دیا ۔ چند دن ہی گزرے تھے کہ شوہر کا باپ آیا اور فلیٹ کا تالہ توڑ کردوسرا تالہ لگا دیا ۔ فلیٹ کے قالین وغیرہ نکال کر انھیں اپنے قبضے میں کر لیا۔اسی دوران بیوی اس کارروائی سے بے خبر اپنی بعض سہیلیوں کے ساتھ فلیٹ کو کرایے پر دینے کا پروگرام بنا رہی تھی۔اچانک اسے معلوم ہوا کہ فلیٹ کا تالہ بدل کر اس میں دوسرا تالہ لگا دیا گیا ہے اور اس کا سامان اور قالین وغیرہ سب نکال لیا گیا ہے!!!شوہر اور بیوی دونوں کے پیسوں کو یکجا کرنے کا یہ انجام ہوا کہ عورت کا حصہ مارا گیا۔

۲۔ ایک تربیتی پروگرام کے دوران ایک صاحب نے مجھ سے کہا : ’’مجھے معلوم ہے کہ عورت کی آمدنی پر عورت کا ہی حق ہے اور اس کے اس حق کا احترام اور اور اس کی حفاظت مجھ پر واجب ہے، لیکن میری بیوی کا اصرار ہے کہ وہ جو کچھ کمائے گی مجھے ہی دے دے گی۔ اسے اس بات سے بھی شدید انکار ہے کہ میری اور اس کی آمدنی کے درمیان کسی طرح کا کوئی فرق ہو۔‘‘ میں نے اس شخص سے پوچھا کہ تم دونوں کی مشترکہ آمدنی سے جو رقم بچتی ہے اس کا کیا کرتے ہو؟

اس نے جواب دیا(اس وقت وہ کویت میں ملازمت کر رہا تھا اور وہیں رہتا تھا): ’’ میں وہ رقم اپنے والد صاحب کے پاس بھیج دیتا ہوں۔ اس سے یا تو وہ زمین خرید لیتے ہیں یا کسی کاروبار میں لگا دیتے ہیں۔‘‘ اس بات کوکافی عرصہ بلکہ کئی برس گزر گئے۔ایک روز اچانک اس شخص کے انتقال کی خبر آئی۔پھر جب اس کی بیوی کی عدت پوری ہوئی تو اس نے بھی مجھ سے رابطہ قائم کیا اور بتایا کہ اس کے مرحوم شوہر سے اس کو کوئی نرینہ اولاد نہیں ہوئی صرف لڑکیاں ہی ہوئیں۔ صرف لڑکیاں ہونے کی صورت میں شوہر کے اہل خانہ ہی اس کی تمام جائیداد کے وارث ہوجائیں گے کیوں کہ وارث ہونے کے لیے اس کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے۔ شوہر کی جائیداد کے وارث اس کے اہل خانہ ہوں اس میں کوئی حرج یا اعتراض کی بات بھی نہیں ہے ، لیکن وہ میرے مال کے وارث نہیں ہو سکتے۔اپنی بات مکمل کرتے ہوئے اس نے کہا کہ’’ اب میں یہ متعین طور پر نہیں بتا سکتی کہ میں نے اپنے شوہر کو کتنی رقم دی ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے ہم دونوںاپنی رقم خلط ملط کرلیتے تھے۔کاش میںنے اپنے رب کی شریعت کا خیال رکھا ہوتا۔ اب مجھے اپنی بچیوں کی پرورش کے لیے روپیوں کی ضرورت ہے لیکن میرے پاس اللہ کے سہارے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘

۳۔ یہ واقعہ بھی ایک منفی نمونہ ہے اس صورت حال کا جو ہمارے ان گھروں میں بہت عام ہے جو شادی شدہ لڑکے اور اس کی مختصر سی فیملی کے تعلق سے ایسے کسی اصول اور ضابطے کا تعین ضروری نہیں سمجھتے جس سے اس کی فیملی کے حقوق محفوظ رہ سکیں۔اس سلسلے میں اللہ کے رسولﷺ کے اس قول مبارک کو غلط معنی پہنا دیے جاتے ہیں کہ’’تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔‘‘بہت سے ماں باپ اور شوہر اللہ کے رسول ﷺکے اس کے قول کو دوہراتے رہتے ہیں لیکن اس کا صحیح مفہوم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔اور پھر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسولﷺ کی ہدایت پر عمل پیرا ہیں۔

یہ واقعہ اس شخص کا ہے جو کبھی میرا پڑوسی بھی رہ چکا تھا۔رہنے والا کہیں اور کا تھا اور اپنے وطن سے یہاں کام کی غرض سے آیا ہوا تھا۔جو پیسے وہ اور اس کی بیوی کماتے تھے انھیں وہ اپنے والد صاحب کے پاس اس نیت سے بھیج دیا کرتا تھا کہ وہ اس پیسے کو کسی کاروبار میں لگا دیں۔اس کے والد اس رقم کی زمین خرید کراسے اپنے نام کرا لیتے تھے۔اس پر اس کی بیوی نے اعتراض کیاتو شوہر نے اس پر گالیوں اور ملامتوں کی بوچھاڑ کردی بلکہ بیوی پر یہ الزام تک لگا دیا کہ تم قطع رحمی اور والدین کی نافرمانی کی کوشش کررہی ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ حضرت دین دار آدمی ہیں ، روزہ نماز کے بڑے پابند ہیں۔ اس رویے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے دین کو اور اس کے احکامات کوکتنے غلط طریقے سے سمجھا ہے کہ انھیں اپنی بیوی کا مال ہڑپ کرنے میں ذرا بھی خدا کا خوف نہیں معلوم ہوتا۔

ان تین واقعاتی نمونوں کے بعد شاید اب یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کی آمدنی کے سلسلے میں شریعت کا حکم بھی بتا دیا جائے۔

بیوی کی آمدنی کا فقہی حکم

جامعہ ازہر کے سابق استاد ڈاکٹر محمد المسیر ؒ کہتے ہیں: ’’بیوی کو یہ حق حاصلہے کہ وہ اپنی رقم کو شوہر کی اجازت کے بغیرجہاں چاہے خرچ کرلے البتہ شرط یہ ہے کہ جہاں بھی خرچ کرے وہ حلال دائرے سے باہر نہ ہو۔ بیوی کی آمدنی جو بھی ہے وہ اس کی اپنی ملکیت ہے۔کیوں کہ عورت کے پاس جو بھی مال ہے وہ مرد کے مال سے بالکل الگ ہے۔وہ مرد خواہ باپ ہو، بھائی ہو یا شوہر ہو۔شریعت نے عورت کو اپنی ملکیت اور اس میں تصرف کا پورا اختیار دیا ہے۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ بیوی کو مکمل مالی اختیارحاصل ہے اور اس کی آمدنی یا تنخواہ اس کے مال کا ہی ایک جز ہے۔ اس لیے شوہر کے لیے یہ قطعی جائز نہیں ہے کہ وہ بیوی کے مال میں سے کچھ خرچ کرے، الّا یہ کہ عورت اپنی خوشی سے اور اپنے دل کی آمادگی سے کچھ دے دے۔زبردستی عورت کا مال یا اس میں سے کچھ لیناغصب شمار کیا جائے گا اور کسی کا مال غصب کرنا حرام ہے۔

عورت کو یہ مالی اختیار شریعت نے دیا ہے۔ شریعت کی جانب سے عورت پر یہ نوازش اس بات کی دلیل بھی ہے کہ اسلام نے عورت کو عزت دی ہے جواسلامی شریعت کا ایک قابل فخر پہلو ہے۔

جامعۃ الملک سعود کے ڈاکٹر عبد العزیز الدبیش نے مطالعاتی جائزہ پیش کیا ہے جس کا عنوان ہے ’’ملازمت پیشہ بیوی کی تنخواہ کا اثر ازدواجی زندگی پر: ایک فقہی جائزہ‘‘۔ اس جائزے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عورت شادی شدہ ہویا غیر شادی شدہ اگر وہ بالغ ہے تواسے ملکیت اوراپنی اس ملکیت میں تصرف کا حق حاصل ہے۔اسی طرح اس جائزے میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ عورت کی تنخواہ یا آمدنی اس کے اپنے مال کا حصہ ہوگی کسی اور کا اس پر کوئی حق نہیں ہوگا۔

بیوی شوہر کی مدد کرے یا نہیں؟

فقہا نے اس بات کو جائز قرارا دیا ہے کہ بیوی ضرورت پڑنے پر اپنے شوہر کی مالی مدد کرے۔ لیکن اس کا تعلق افضلیت سے ہے ، یعنی ایسا کرنا اس کے لیے واجب یا ضروری نہیں ہے۔ان تمام حالات اورصورتوں میں جب کہ شوہر اور بیوی دونوں کے درمیان باہمی رضامندی سے کوئی بات طے پاگئی ہو -خواہ اس کا تعلق عورت کی ملازمت اور اس کی تنخواہ سے ہو – تو اسلام نے اس میں عورت کے ساتھ آسانی اور گنجائش کا راستہ اختیار کیا ہے۔ شرعی طور پر یہ بھی جائز ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے حق میں اپنے حق یا اس کے بعض حصے سے دستبردار ہو جائے۔شرط یہ ہے کہ آپسی رضامندی اور آمادگی کے ساتھ ہو، اس سے خانگی زندگی مزیدمستحکم اور خوشگوار ہوتی ہو،اور اس سے گھریلو حالات کو فائدہ ہی ہوتا ہو۔ البتہ مرد کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ بیوی اگر ایسا کرتی ہے تو یہ اس کا احسان ہے ، اس پر ایسا کرنا واجب نہیں ہے۔شوہرکو یہ حق نہیں حاصل ہے کہ وہ بیوی کو گھر کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے مجبور کرے، خواہ وہ خود غریب و محتاج ہی کیوں نہ ہواور بیوی مالدار ہی کیوں نہ ہو۔قرآن نے عورت پر مرد کی قوّامیت کی بات کہی ہے اور یہ قوامیت اسے اپنی تکوینی طبیعت اور مزاج کی وجہ سے اور اس وجہ سے ملی ہے کہ وہ عورت کی ضروریات پر خرچ کرے گا۔

تنخواہ کے بدلے ملازمت کی اجازت

بعض مرد یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنی بیویوں سے ان کی تنخواہ اس لیے لے لیتے ہیں کہ انھوں نے اس کو ملازمت کرنے کی اجازت دی ہے اور اس سے اس کی تنخواہ لے لینا اسی اجازت کی قیمت ہے۔حالانکہ یہاںوہ دو الگ معاملوں کو گڑ مر کر دیتے ہیں۔شریعت میں اس طرح کا کوئی حکم ہی نہیں ہے کہ شوہر اگر عورت کو کام کرنے کی اجازت دیتا ہے تو اس کی قیمت کے طور پر اس کی تنخواہ اپنے پاس رکھ لے۔بلکہ حالات سے بھی اسے کوئی مناسبت نہیں ہے۔اس سلسلے میں تو مرد کو یہ سمجھ لینا ہی کافی ہے کہ اگر دورت کو کام کرنے سے روکا جاتا ہے تو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے معلمات اور اور عورتوں کے علاج کے لیے خاتون ڈاکٹر کہاں سے آئیں گی۔

سوال یہ کہ کیا مرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ چاہے تو عورت کو کام کرنے یا ملازمت اختیار کرنے سے روک دے؟ اس بارے میں سب سے پہلے سمجھنے والی بات یہ ہے کہ عورت کے لیے مرد کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے۔اگر وہ ایسا کرتی ہے تو اپنے شوہر کی نافرمانی کرتی ہے اور گناہ گار ہوتی ہے۔ایسی صورت میں شوہر کے اوپر سے اس کے نان نفقے کی ذمہ داری ساقط ہوجاتی ہے۔ اس پر چاروں ائمہ کا اتفاق ہے۔لیکن اگر بیوی نے یہ شرط طے کی تھی کہ وہ کام کرے گی تو پھر شوہر کے لیے اس شرط کو نبھانا لازمی ہے۔ اسی طرح اگر نکاح کے وقت شوہر نے یہ شرط لگائی تھی کہعورت کام کرے گی تو پھر اس کے لیے بھی اس شرط کا لحاظ کرنا ضروری ہے اور شرط پوری نہ کرنے کی صورت میں وہ معاہدے کو توڑنے والی اور اور شوہر کی نافرمان کہلائے گی۔

عورت کی ملازمت گھریلو ذمہ داریوں میں مخل ہو تو

اگر عورت کی ملازمت سے اس کی اصل ذمہ داری متاثر ہوتی ہو ، یعنی گھر ، شوہر اور بچوں کی پرورش کے تعلق سے جو ذمہ داریاں اس پر عائد ہوتی ہیں ، وہ متاثرہوتی ہوں تو اسے ملازمت پر اپنی ان ذمہ داریوں کو ترجیح دینی چاہیے بشرطیکہ پہلے سے اس سلسلے میں میاں بیوی کے درمیان کوئی معاہدہ نہ ہوا ہو۔

عورت اگر ملازمت اختیار کرنا چاہتی ہو اور مرد بھی اس بات سے اتفاق کرلے کہ ملازمت کی صورت میں جو گھریلو کام وہ نہیںکرپائے گی ، اس کے لیے ایک خادمہ رکھ لی جائے اور وہ اس خادمہ کی اجرت ادا کرے گی اور گھر کے اخراجات میں بھی اپنی تنخواہ سے کچھ دے گی تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اس حالت میں وہ جو بھی خرچ کرے گی وہ محض ایک معاہدے کے تحت ہوگا ، اس سے یہ بات لازم نہیں آئے گی کہ گھر اور شوہر پر اپنی آمدنی کا کچھ حصہ خرچ کرنا اس کے لیے لازمی ہے۔

استثنائی مثالیں

دنیا میں ایسی نیک عورتوں کی مثالیں بھی بہ کثرت مل جائیں گی جو ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے نقش قدم پر چلتی ہوئی نظر آتی ہے۔حضرت خدیجہ ؓ نے اپنے شوہر نام داراللہ کے رسولﷺ کی دلجوئی کی، اپنے مال سے ان کی مدد کی، ہر معاملے میں ان کے پہلو بہ پہلو کھڑی رہیں، ان کا سہارا بنیں، ان پر ایمان لائیں اور اپنی ہر قیمتی چیز ان کے لیے قربان کی۔

ہماری عورتوں میں اب بھی نیکیاں اور بھلائیاں موجود ہیں۔ چنانچہ یہ آج کی عورت کا ہی واقعہ ہے کہ شوہر اپنی ماسٹر ڈگری چھپوانا چاہتا تھا لیکن اس کے پاس رقم نہیں تھی۔ بیوی نے اپنا زیور بیچ کر اس کی مدد کی۔شوہر بھی وفادار نکلا اور اس نے اپنی بیوی کی اس قربانی کا پورپورا بدلہ دیا۔ اللہ تعالی نے جب اس کے رزق میں کشادگی عطا فرمائی تو اس نے اپنی بیوی کے لیے اس سے زیادہ قیمتی زیور خرید کر دیا ۔ اور شوہر ایسا کیوں نہ کرتا جب کہ اس کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی بیوی نے وہ زیور بیچ کر اس کی مدد کی تھی وہ اس کے شوہر کا خریدا ہوا نہیں تھا بلکہ وہ زیور تھاجو اس کے ماں باپ نے اسے خرید کر دیا تھا۔

اور یہ واقعہ بھی آج ہی کا ہے کہ شوہر نے کبھی اپنی بیوی کے مال پر نظر نہیں گاڑی ، لیکن بیوی بہت نیک اور شوہرکی ضرورت کو سمجھنے والی تھی اس لیے شوہر کو اپنے مال میں سے بہ خوشی دیتی رہتی تھی۔ شوہر کو جب اللہ نے کشادگی عطا فرمائی تو اس نے اپنی بیوی کو اس سے بڑھ کر نوازا جو اس نے خرچ کیا تھا۔ اسے ایسی قیمتی چیزیں خرید کر دیں کہ زندگی بھر اس سے زیادہ حسین اور خوبصورت تحفہ اسے کہیں سے نہیں ملا اوراس باہمی جذبہ قربانی نے دونوں کی زندگی کو خوشیوں اور اور محبت سے بھر دیا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں