روٹی بھی پکانی ہے سالن بھی بنانا ہے
بچوں کو مجھے لے کر اسکول بھی جانا ہے
شوہر تو مرے بھنّو بالکل نکھٹّو ہیں
دھکے مجھے کھا کھا کر اس گھر کو چلانا ہے
سگریٹ کے لیے اپنی، روپیوں کی کمی کیا ہے
شیمپو کے لیے میرے پیسوں کا بہانا ہے
کہتی ہوں بہت ان سے پر کان نہیں دھرتے
یہ دورِ ترقی ہے ’رشوت‘ کا زمانہ ہے
کیا کیا میں کروں ہائے چھوٹی سی کمائی میں
صوفے بھی منگانے ہیں ٹی وی بھی منگاناہے
مل جائے ذرا تنخواہ اس بار انھیں دیکھو
جھمکے ہیں مجھے لینے لہنگا بھی منگانا ہے
اشعار میرے سن کر ہنستے ہیں سبھی نجمیؔ
مقصد تو مگر میرا روتوں کو ہنسانا ہے