ان کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ دلہن بن کر اس کے کمرے میں آچکی تھی ۔ وہ خالص اسکی ماں کی پسند تھی۔ اسے بھی اپنی ماں کی پسند پر کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن ایک عجیب سا دھڑکا اپنی ہوچکی بیوی کی طرف سے لگا ہوا تھا مگر جب اس نے اپنی بیوی سے ملاقات کی تو اسکے واہمے کسی حد تک کم ہوچکے تھے ۔
وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا:’’آپ پیاری ہیں ۔‘‘
جی صرف پیاری! !! وہ اس کی بات سن کر بلا ساختہ مسکرا دیا تھا ۔اپنی زوجہ سے کہنے لگا:’’جی صرف پیاری! لیکن آپ پہلی لڑکی ہیں جنھیں میری والدہ نے میرے لئے بطور شریک حیات دیکھا اور پسند کیا ۔پتہ ہے جب انھوں نے آپ کو پسند کیا تو یقین جانیے میں حیران تھا کہ اپنے رشتہ داروں میں موجود خوبصورت لڑکیوں پر آپ کو ترجیح دی۔‘‘
امی کا کہنا ہے کہ آپکے اخلاق و عادات کی وجہ سے آپ انھیں پسند آئی تھیں اور اس سے بھی حیرانی والی بات یہ کہ جب ہمارا (ہاتھ سے اشارہ کیا )آپکا اور میرا رشتہ طے ہوچکا تو امی کہنے لگیں وہ آپکو اپنی بہو کے طور پر کئی سال پہلے پسند کرچکی تھیں بس مناسب وقت آنے کا انتظار کر رہی تھیں۔ آپ انھیں بہت پسند آئی ہیں ۔
’’اور آپ کو؟‘‘وہ بے ساختہ کہ بیٹھی تھی ۔
امی آپ سے خوش ہیں تو میں بھی راضی ہوں ۔ امی کی پسند میری پسند ہے ۔بس مجھے اس بات کا خوف ہے کہ کہیں امی کی امیدیں ٹوٹ نہ جائیں۔ آپ ان کی امیدوں پر پوری نہ اتریں تو؟
آپ بے فکر رہیں اگر اللہ نے چاہا تو میں آپکو اور آپکی والدہ کو کسی شکایت کا موقع نہیں دونگی۔
اپنی بیوی کو اتنے پختہ انداز میں بات کرتے دیکھ کر وہ خوشگوار حیرانی کا شکار ہوا تھا ۔
اگلے دن جب وہ فجر کیلئے بیدار ہوا تو اس کی بیوی پہلے ہی بیدار ہوچکی تھی۔اسے اچھا محسوس ہوا۔ ماں کے انتخاب پر فخر محسوس ہوا ۔ وہ بھی مسجد چل دیا مسجد سے اس کی واپسی صبح روشن ہونے کے بعد ہی ہوتی تھی اور اکثر ایسا ہوتا کہ جب تک وہ واپس لوٹتا اس کی ماں دوبارہ سو چکی ہوتی تھیں۔
آج جب وہ گھر لوٹا تو گھر میں ویسی ہی چہل پہل تھی جو عموما شادی والے گھروں میں ہوتی ہے ۔
اس کی ماںاپنی بہن بھابیوں کے درمیان گھری مسرور بیٹھی تھیں اور دیگر مہمان بھی اپنے کاموں میں مصروف تھے۔وہ سب کے درمیان سے ہوتا ہوا اپنے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ اس کی بیوی قرآن کریم کو واپس رکھ رہی تھی ۔
’’السلام علیکم!‘‘اس نے بڑے بھر پور انداز میں اپنی بیوی کو سلام کیا اور اس نے بھی جواب دیا۔
شادی کو چند ماہ گزرے، ایک سال ہوا، ان کی زندگی میں ایک خوبصورت اضافہ ہوا پھر آگے پیچھے ان کے یہاں تین بچے ہوگئے ۔
آج اس کے سارے بچے جوان ہوچکے تھے اور اس کے بڑے بیٹے کی شادی تھی۔اس کی بیوی اپنے بیٹے کی ناز برداریوں میں مصروف نظر آرہی تھی۔ اس کی دونوں بیٹیاں اس کے دائیں بائیں بیٹھی اس کی معلومات میں اضافہ کررہی تھیں وہ اپنی بیٹیوں کی باتیں سنتا ہوا اپنی بیوی کی مسکراہٹ بھی دیکھ رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی اپنی آنکھوں کو مزید بڑا کئے اپنے بیٹے کو کسی کام سے باز رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔ وہ اپنی بیوی کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ …….اس کی بیوی نے کس طرح اس کے گھر کو جنت بنایا اور اس کے گھر میں ہمیشہ اطمینان کی فضا کو قائم رکھا ۔
اس کی ماں کا انتقال ہوا تو وہ اپنی منتخبہ بہو سے خوش تھیں۔اس نے اپنے بچوں کی تربیت اس انداز سے کی کہ وہ گھرکے، خاندان کے، اپنے کالجس کے بہترین بچے تھے اور اس کی بیوی اپنے خاندان کی مثالی بہو ۔
اس نے ہمیشہ کی طرح اپنی بیوی کو دیکھتے ہوئے اللہ کا ایک بار پھر شکر ادا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے’’اس خاتون کو بحیثیت بیوی اس کی زندگی میں داخل کیا ۔‘‘