اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح طور پر بیان کر دیا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی سلطنت و بادشاہت صرف اللہ ہی کے لیے ہے وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں عطا کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔ اس کے ہاں نہ لڑکا پیدا ہوتا ہے اور نہ لڑکی پیدا ہوتی ہے، لاکھ کوشش کرے مگر اولاد نہیں ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت پر مبنی ہے۔ جس کے لیے جو مناسب سمجھتا ہے وہ اس کو عطا فرما دیتا ہے۔
لڑکیاں اور لڑکے دونوں اللہ کی نعمت اور ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ عورت مرد کی محتاج ہے اور مرد عورت کا محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے دنیا میں ایسا نظام قائم کیا ہے جس میں دونوں کی ضرورت اور دونوں۔ اللہ کی اس حکمت اور مصلحت کی روشنی میں جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو ہم میں سے بعض لوگ ایسے نظر آتے ہیں کہ جن کے یہاں لڑکے کی بہت آرزو اور تمنا کی جاتی ہے جب لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اس وقت بہت خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور اگر لڑکی پیدا ہوجائے تو خوشی کا اظہار نہیںکیا جاتا ہے، بلکہ بچی کی پیدائش پر شوہر یا گھر کے دیگر افراد عورت سے خفا ہوتے ہیں۔ حالاں کہ اس میں عورت کا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اللہ کی عطا ہے، کسی کو ذرہ برابر بھی اعتراض کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ لڑکیوں کو کم تر سمجھنا زمانہ جاہلیت میں مشرکین کا عمل تھا۔ نبی اکرمﷺ نے بیٹیوں کی پرورش پر جتنے فضائل بیان فرمائے ہیں، بیٹے کی پرورش پر اس قدر بیان نہیںفرمائے، لہٰذا بیٹی کے پیدا ہونے پر بھی ہمیں خوشی کا اظہار کرنا چاہیے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا۔ ترجمہ:
’’جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں او روہ ان کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے زندگی گزارے (یعنی ان کے جو حقوق شریعت نے مقرر فرمائے ہیں وہ ادا کرے، ان کے ساتھ احسان اور سلوک کا معاملہ کرے) اور ان کے حقوق کی ادائگی کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اللہ تعالیٰ ان کی بدولت اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔‘‘(ترمذی)
اسی مضمون کی حدیث حضرت ابو ہریرہ سے بھی مروی ہے مگر اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپؐ کے ارشاد فرمانے پر کسی نے سوال کیا کہ اگر کسی کی ایک بیٹی ہو (تو کیا وہ اس ثواب عظیم سے محروم رہے گا؟) آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص ایک بیٹی کی اسی طرح پرورش کرے گا اس کے لیے بھی جنت ہے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص پر لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمے داری ہو او روہ اس کو صبر و تحمل سے انجام دے تو یہ لڑکیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔‘‘ (ترمذی)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی دو یا تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھے انداز سے پرورش کرے (اور جب شادی کے قابل ہوجائیں تو ان کی شادی کردے) تو میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح داخل ہوں گے، جس طرح یہ دونوں انگلیاںملی ہوئی ہیں۔‘‘ آپؐ نے داہنے ہاتھ کی دونوں انگلیوں کے اشارے سے سمجھایا۔ (ترمذی)
حضرت عائشہؓ سے ایک قصہ منقول ہے کہ ایک خاتون میرے پاس آئی، جس کے ساتھ اس کی دو بچیاں تھیں۔ اس خاتون نے مجھ سے کچھ سوال کیا، اس وقت میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہیںتھا۔ وہ کھجور میں نے اس عورت کو دے دی۔ اس اللہ کی بندی نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کیے اور انہیں دونوں بچیوں کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ خود کچھ نہیں کھایا۔ حالاں کہ خود اسے بھی ضرورت تھی۔ اس کے بعد وہ خاتون بچیوں کو لے کر چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور اکرمﷺ تشریف لائے تو میں نے اس خاتون کے آنے اور ایک کھجور کے دو ٹکڑے کر کے بچیوں کو دینے کا پورا واقعہ سنایا۔ آپ نے ارشاد فرمایا : ’’جس کو دو بچیوں کی پرورش کرنے کا موقع ملے اور وہ ان کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرے تو وہ بچیاں اس کو جہنم سے بچانے کے لیے آڑ بن جائیں گی۔‘‘ (ترمذی) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ لڑکیوں کی شریعت کے مطابق تعلیم و تربیت اور پھر ان کی شادی کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تین فضیلتیں حاصل ہوں گی: جہنم سے چھٹکارا، جنت میں داخلہ اور حضور اکرمؐ کے ساتھ جنت میں ہم راہی۔
قرآن مجید کی آیات و دیگر احادیث کی روشنی میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ شریعت کے مطابق اولاد کی بہتر تعلیم و تربیت وہی کرسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو۔ حضور اکرمؐ کا طرزِ عمل ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ حضور اکرمؐ اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہؓ سے بہت ہی شفقت اور محبت فرمایا کرتے تھے۔