میں اک لڑکی ہوں…اپنے امی ابو کی بیٹی…شاید آپ سب کو یہ تعارف عجیب لگے۔میں چا ہوں تو اپنا تعارف اپنے نام کے ذریعہ بھی کرواسکتی ہوں،لیکن اس وقت میں کسی مخصوص شخصیت کے طور پر آپ سب سے مخاطب نہیں ہوں بلکہ ایک لڑکی اور زیادہ درست یہ ہے کہ ایک بیٹی کے طور پر مخاطب ہوں اور ان تمام بیٹیوں کی نمائندگی کر رہی ہوں جو اپنے والدین کی ممنون و مشکور ہیں۔ کس چیز کے لئے یہ آپ خود جان جائے گے۔
میں چا ہتی تو اپنا نام ظاہر کر سکتی تھی لیکن پھر آپ کی سوچ ایک ہی راستے پر بڑھتی جبکہ یہ الفاظ ہر ماں باپ کے نام ہے…ان تمام والدین کے نام جو جنّتوں کے پاسباں ہیں، وہ جنت جو انکی بیٹیاں تعمیر کریں گی، وہ جنت جو وہ ان بیٹیوں کے عوض پائیں گے اور وہ جنّت جو ان کے قدموں تلے ہیں اور جو جنّت کے دروازوں میں سے ایک ہے…
میں بیٹیو ں کی جانب سے ایک نمائندہ ہوں اور ایک بیٹی کے طور پر اپنے جذبات کو الفاظ میں پرورہی ہوں…
کیا لکھوں ان ہستیوں کے بارے میں…
ان کے بارے میں جنکے وجود سے میں قائم ہوں…جن کی وجہ سے آج بھی میں ’میں‘ ہی ہوں… جو اللہ رب العزت کی اک انمول نعمت ہے جسکے شکر کے لیئے کروڑوں سال بھی کم ہیں… میرے ماں باپ …میرے امّی ابّو…اللہ کا عطا کردہ اک بیش بہا تحفہ…
ہر کوئی پنے والدین سے محبت کرتا ہے…میں بھی کرتی تھی …لیکن اب نہیں کرتی…اب میں اپنے امّی ابّو سے محبت نہیں کرتی…!!
بلکہ میں ان سے عشق کرتی ہوں …میری محبت کب عقیدت میں بدلی…!؟ اس وقت جب مجھے یہ احساس ہوا کہ ان دو شفیق ہستیوں نے مجھے کیا دیا…؟
میں ان سب چہزوں کو consider نہیں کروں گی جنھیں ہم عام طور پر کرتے ہیں…
ماں کا نو ماہ درد اٹھنا،اپنے خون جگر سے پرورش کرنا…،
باپ کی محبت،اس کی محنت،اپنی خون پسینے کی کمائی کو ہمارے لیے خرچ کرنا…بیماری کے دن اور راتوں میں ان کا پریشان ہونا،فکر مندی…
اپنی خواہشات کو پرے ڈال کر میری پرواہ کرنا،سچا خالص،بے ریا محبت کا جذبہ۔۔۔ ہاں یہ considerable چیز ہے لیکن مجھے لگتا ہے اس الودود ذات نے محبت کا یہ لافانی جذبہ ان ہستیوں کو بڑی فراخدلی کے ساتھ بخش دیا ہے…
والدین اور اولاد کی bonding میں یہ سب چیزیں ہوتی ہی ہیں… ہر ماں باپ اپنی اولاد کے لیے یہ سب کچھ کرتے ہی ہیں…
2۔ کونسی ماں ہے جو درد نہیں سہتی …کونسا باپ ہے جو خون جگر سے اولاد کی پرورش نہیں کرتا…
شاید کوئی اسے نا شکری سمجھے…لیکن یہ ناشکری نہیں ہے…ان احسانوں کا بدلہ کوئی اولاد نہیں چکا سکتی …مجھے اپنے ماں باپ کے ان احسانوں کا … اور ان بے ریا جذبوں اور محبت کا دل سے اعتراف ہے اور اسی بنا پر میں ان سے محبت کرتی تھی…اور ان سے عقیدت کا آغاز اس وقت ہوا جب مجھے یہ احساس ہوا کہ انھوں نے مجھے کیا بنا دیا…!!
انھوں نے تربیت اس پیمانہ پر نہیں کی جو عام طور پر رائج ہے…!!
’’یہ کام مت کرو‘‘’’کیوں؟‘‘ ’’ایک بار کہہ دیا نہ کہ مت کرو تو بس مت کرو…‘‘
وہی ازلی مسئلہ …ہر’کیوں‘کا غیر اطمینان بخش جوابobjection …… اٹھانے کے قابل جواب۔ ’’ابّا نے دیکھ لیا تو غصّہ کریں گے۔‘‘ ’’بڑے بھیا ناراض ہو جائے گے۔‘‘ ’’ہم بڑے ہیں کچھ سوچ کر ہی تمھاری بھلائی کے لیے منع کر رہے ہیں۔‘‘
ایسی باتیں جو الجھا دیتی ہیں…یہی وہ پیمانہ ہے جو جنریشن گیپ پیدا کرتا ہے…
مجھے نہیں یاد کے میرے والدین نے مجھ سے کبھی ایسا کچھ کہا ہو یا ایسا کوئیجواب دیا ہو۔
انھوں نے بس ایک ہی کام کیا…اچھائی اور برائی کی اک کسوٹی میرے اندر لگا دی…ایک پیمانہ جو چیزوں کو ،باتوں کو ،واقعات کو جانچ پرکھ کر میرے سامنے رکھتا ہے…
اولاد کے لیے اخلاقیات کا منبع والدین کی نصیحتیں اور تعلیمات ہوتی ہیں،نصیحتیں تو تقریبا سبھی والدین کرتے ہیں، اپنی اولاد کو اچھّی تعلیم و تربیت سب ہی دیتے ہیں،لیکن اپنی نصیحتوں اور تعلیمات کو قرآن کے پیمانہ پر بتانا تربیت کا اصل منبع و پیمانہ ہے۔۔
انھوں نے’ہم نے کہہ دیا‘ ہم نے بتا دیا نا’ والا صیغہ استعمال ہی نہیں کیا…کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ’ہم‘ ہمیشہ ہر جگہ ساتھ نہیں رہتا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ ‘ہم’پیروں کی زنجیر نہیں بنا کرتا۔۔ اس ‘ہم’ کا ڈر اولاد کو لگا تو رہتا ہے لیکن جہاں جس لمحہ انھیں یہ لگے کہ اب ان ‘ہم’ کی نظروں سے دور ہیں وہ ہمارے کاموں سے لا علم رہیں گے تو بس اسی وقت اس ‘ہم’ کا ڈر اور زور ٹوٹ جاتا ہے…
“ہمارے زمانے میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ہم تمھارا صیحح غلط سمجھ سکتے ہیں…’’ہم بڑے ہیں…‘‘
یہ وہ جملے ہیں جو ذہن کی دھارا موڑ دیتے ہیں کہ یہ سب ان کے زمانے کی باتیں ہیں۔۔زمانہ اب بدل گیا ہے اور پھر وہ کئی کام زمانے کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے لیے کر لیتے ہیں۔
میرے والدین نے میرے ہاتھ میں قرآن تھما یا۔۔انھوں نے مجھے’ ایک زمانہ ‘ دے دیا۔۔۔وہ زمانہ جو پرانا اور نیا نہیں ہوتا۔۔جب قرآن نہیں بدلا، اسکی ترجیحات نہیں بدلیں تو قرآن کا زمانہ بھی نہیں بدلتا۔۔انھوں نے میرا مدار طے نہیں کیا۔۔۔اگر وہ خود ہی میرا مدار طے کر لیتے تو شاید آج میں بھی اپنے مدار کو تنگ سمجھتی اور دوسرے کے مدار مجھے زیادہ وسیع لگتے۔دوسروں کی تہذیب اور دوسروں کے مدار کی کشش مجھے میرے مدار سے باہر نکال لاتی اور جو اپنے مدارسے نکل جاتے ہیں وہ وسیع کائنات میں ضم ہو جاتے ہیں،گم ہو جاتے ہیں یا پھر… کہیں دھماکے سے پھٹ جاتے ہیں اور اسکے ذرّے بکھر جاتے ہیں… جن کا کوئی نام نہی،کوئی نشان نہیں، کوئی انفرادیت نہیں… جو اپنے مدار میں ہوتے ہیں انفرادیت انہیں کی ہوتی ہے،نام و نشان انھیں کا ہوتا ہے۔
انھوں نے میرا مدار مجھے خود طے کرنے دیا۔ انھوں نے مجھے قرآن تھمادیا،اسلامی لٹریچر کا ماحول دیا،اخلاق کا عملی نمونہ پیش کیا اور پھر مجھے چھوڑ دیا کہ میں اپنا مدار خود طے کروں۔
میرا دین بہت آسان ہے۔۔مجھے بہت وسعت دیتا ہے اور اسی اعتبار سے مجھے میرا مدار بہت وسیع لگتا ہے۔۔کبھی کبھی مجھے بھی دوسروں کے مدار بہت پر کشش لگتے ہیں…بہت وسیع…لیکن یہ وقتی کیفیت ہوتی ہے۔انکی تربیت نے جو اچھائی ،برائی،صحیح ، غلط، وسعت اور تنگی کی جو کسوٹی میرے اندر لگائی ہے وہ لمحہ بھر میں مجھے حساب کر کے بتا دیتی ہے کہ انکا مدار کتنا نا پائیدار ہے،بیت العنکبوت یعنی مکڑی کا گھر ہے ،کتنا کمزور، کتنا دل فریب اور کتنی جلدی ٹوٹ جانے والا…
اوہ میں تو بھول ہی گئی کہ میں بیٹیوں کی نمائندہ ہوں مگر پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ذرا دلی جذبات ہیں اسی لیے ہم کا صیغہ استعمال کرنے کے بجاے میں کا صیغہ استعمال کئے جا رہی ہوں…معاف کیجیے گا…
ہاں تو اکثر ہمارے دوست، سہیلیاں ہمیں عجیب odd one outسمجھتی ہیں۔ لیکن ہمیں اس عجیب ہونے پر فخر ہے۔ ہم دوسری لڑکیوں کی طرح بہت سے ایسے کام نہیں کرتے جو وہ اپنی زندگی کا ضروری حصّہ سمجھتی ہیں جسے کرنے میں فخرمحسوس کرتی ہیں۔کوئی ہمیں minded narrowتنگ ذہن، دقیانوسی اسلئے کہے کہ ہم اپنے جسم کو مہذب طریقہ سے ڈھانپتے ہیں،لڑکوں سے دوستی نہیں کرتے،Just for engoyment کے نام پر خرافات نہیں کرتے تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں۔ کیوںکہ ہمیں اطمینان ہے کہ کوئی ہم سے خوش ہو یا نہ ہو ہمارا ربّ ہم سے ضرور خوش ہوگا۔
آج جب لڑکیاں ہر میدان میں لڑکوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں،مخلوط تعلیمی نظام ،مخلوط سوسائٹی کی عجیب فضا ہے۔ جب ہمارے والدین ہمیں اڑنا سکھا کر اس فضا میں چھوڑنے لگے تو کئی دن ہم منتظر رہے کہ کوئی جذباتی جملہ، کوئی لمبی چوڑی نصیحت…بہت عرصہ ہم منتظر رہے۔پھر سخت حیرانی ہوئی کہ انھیں ہم پر اتنا اعتماد ہے…!! لیکن بعد میں ہم نے جانا کہ انھیں ہم پر بھروسہ ہو یا نہ ہو، انہیں اس پر بھروسہ تھا جو نھوں نے ہمیں تھمایا تھا’کتاب الٰہی‘ اس کسوٹی پر بھروسہ تھا جو ہمارے اندر لگائی تھی کہ ہمارے ذہن میں غلط کام کرنے کا خیال نہیں آتا، اگر آجائے تو کسوٹی کا تخمینہ نقصان کا احساس دلاتا ہے۔۔وہ خسارہ جس میں انسان چلا جاتا ہے جو وہ اللہ کی رسی کوچھوڑ دیتا ہے۔
اور تب ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے والدین نے ہمیں کیا دیا؟
انھوں نے ہمارے اندر ’احساس‘کو باقی رکھا، صحیح اور غلط کو صحیح اور غلط سمجھنے کا احساس،اچھائی اور برائی کو سمجھنے کا احساس،صحیح کہ صحیح اور غلط کو غلط کہنے کا حوصلہ۔ انھوں نے میرے گرد ایک حصار قائم کیا جو مجھے ترقی کے نام پر،تفریح کے نام پر، زمانے کے ہمقدم چلنے کے نام پر ہر چیزاپنانے سے روکتا ہے۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ کن الفاظ میں ربّ کا شکر ادا کریں اور اپنے ماں باپ کا شکر ادا کریں؟ جنھوں نے ہمیں انفرادیت بخشی، ہمیں ‘ہم’ سے الگ نہیں کیا،ہمارا وقار ہمارا حصار ہمارے ساتھ رکھا۔ شکر ادا ہو نہیں سکتا، احسان چکایا نہیں جا سکتا۔ ایک دعا عزت واحترام، شکر و احسان مندی کے جذبوں کو دل میں سجا،نم آنکھوں کو جھکا اللہ کی بارگاہ میں سربہ سجود ہو کر یہ مانگتے ہیں کہ…
“اے مالک کل کائنات! ربّ ذوالجلال!! یا ’الودود‘… تو ہمارے والدین پر رحم فرما جیسا کہ انھوں نے ہمارے حال پر کیا۔ ہماری پرورش کی۔‘‘تو نے ہمیں اسلام کی فطرت پر پیدا کیا انہوں نے اس فطرت کو ہمارے اندر باقی رکھا، یا المھمین ہمارے ماں باپ کی حفاظت فرما،انھیں بہترین اجر عطا کر،جنت کے اعلی مقامات انھیں عطا کر اور …اور ہمیں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور ان کے دل کا سکون بنا…انھیں اجر عظیم عطا کر یا ربّ اجر عظیم…آمین ثم آمین