سارے بیٹے آس پاس بیٹھ گئے۔بوڑھے باپ نے تلاوت ختم کی ، قرآن کو بند کر دیا ، آنکھوں سے لگایا ، چوما اور احترام سے سرہانے رکھ دیا۔ایک نظر سب پر ڈالی اور کہنے لگا : ’’میں اپنی زندگی گزار چکا ہوں ، اس سے پہلے کہ آنکھیں بند ہو جائیں، اپنی جائیداد تم میں تقسیم کر کے جاونگا ۔ ۔ ۔سب کو اچھا خاصہ حصہ ملے گا مگر یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ تم اپنی بہنوں کو مجبور کرو کہ وہ اپنے حق سے دست بردار ہو جائیں ۔ ۔ ۔ ورنہ ۔ ۔ ۔‘‘ ’’ورنہ کیا ہو گا ابا جان ؟‘‘ سب سے چھوٹا پوچھ بیٹھا۔ بوڑھے باپ کے چہرے پر کئی تلخ لہریں آئیں اور گزر گئیں، خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا :’’ورنہ تمہارے باپ کی زمین غیروں میں چلی جائے گی۔‘‘ چھوٹا ذرا خود سر سا تھا۔ پوچھنے لگا ، ابا جان ! بیٹی کو جائیداد سے حق دینے کا حکم تو خدا کا ہے ، کیا خدا کو یہ علم نہ تھا کہ بیٹی کو حصہ دینے سے زمین غیروں میں چلی جائے گی ؟؟‘‘کمرے میں خاموشی چھا گئی۔کسی کے کچھ بولنے سے پہلے وہ پھر بول اٹھا :’’بیٹی کو زمین دیتے ہوئے آپ کو لگا کہ زمین غیروں میں چلی جائے گی مگر داماد کو بیٹی دیتے ہوئے آپ نے کیوں نہ سوچا کہ بیٹی غیروں میں چلی جائے گی؟ “