پردھان جی بیٹے کی شادی کر کے بڑے خوش تھے۔ بہو تو چاند کا ٹکڑا تھی ہی سارا سمدھیانا بھی اپنی مثال بس آپ ہی تھا۔ سارے ہی لوگ بڑے ملنسار اور محبت کرنے والے تھے کوئی جھوٹے بھی یہ کہہ دیتاکہ میں تلسی پور سے آیا ہوں اور فخر و پردھان جی کو جانتا ہوں بس پھر تو کچھ نہ کچھ تواضع آؤ بھگت کا مہمان کو وقت دینا ہی ہوتا تھا اور اگر کوئی رشتہ نکل آیا تو رات کو ٹکائے بغیر مشکل ہی سے جانے دیتے تھے۔ گاؤں میں پردھان جی کا ذکر خیر کم و بیش ہوتا ہی رہتا تھا، لیکن بیٹے کی شادی میں جہیز لینے کی رسم توڑنے سے چرچا اور بڑھ گئی تھی۔ بہت سے غریب لوگ بڑے سکھ کا سانس لے رہے تھے کہ جہیز کی لعنت ختم کرنے کی ابتدا ہمارے گاؤں سے ہوئی ہے۔ اب غریب کی بیٹی زیادہ دنوں نہیں بیٹھی رہے گی۔
پہلا سال تو اچھی طرح گزر گیا لیکن اس کے بعد پردھان کو بڑی فکر رہنے لگی دو سال بعد تو یہ فکر بوجھ بن گئی۔ پردھان جی دن میں تو کام کاج میں لگے رہتے لیکن را ت کاٹے نہ کٹتی تیسر اسال بھی لگ بھگ ختم ہو رہا تھا لیکن اب بھی کوئی آثار بہو کی گود ہری ہونے کے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ کبھی کبھی تو پردھان جی بہت ہی ناامید ہوجاتے۔ ’’کیا خدایا میرے بعد میری بہو کی گود بھرے گا۔‘‘ کبھی یوں دعا کرتے۔ خدایا تو مجھے چاہے اگلے ہی دن اٹھا لے لیکن مجھے اپنی آنکھوں سے میری نسل کو آگے بڑھتا ہوا دکہادے۔ غرض وقت آگے بڑھتا رہا او رپردھان جی کے چہرے کی جھریوں میں برابر اضافہ ہی نہیں ہوتا بلکہ ان کی رنگت بھی گہری ہونے لگی۔ لیکن اللہ تو سب کی سنتا ہے گوکہ انسان بڑا ہی تھڑ دلا اور بے صبر واقع ہوا ہے۔ پردھان جی بھی بہرحال انسان ہی تھے اور پریشان ہی نہیں بہت پریشان تھے لیکن ان کی پریشانی اس وقت بے انتہا خوشی میں بدل گئی جب
تازہ الٹراساؤنڈ رپورٹ ان کے سامنے آئی۔
پہلے پردھان جی اس فکر میں دبلے ہو رہے تھے کہ ڈالی پر کوئی کلی ہی نہیں کھل رہی ہے او رکہاں اب یہ کہ ایک ایک دن گننے میں نیند اچاٹ رہنے لگی۔ بہو کے آگے پیچھے کئی ملازمائیں لگادیں کھانے میں الگ احتیاط رہنے لگی اور رات کو تو چارپائی سے پیر نیچے اتارنے کی اجازت ہی نہیں تھی۔ جیسے جیسے وقت قریب آرہا تھا گھر میں صفائی، چونا، قلعی، مرمت، پالش کچھ نہ کچھ روزانہ ہی ہونے لگا، کیوں کہ آتی سردیاں تھیں، اس خیال سے خوشی کے وقت موسم شدید ہوسکتا ہے۔ طرح طرح کی سوئٹر چھوٹے بڑے گداز کمبل جیسی چیزیں گھر میں آنے لگیں۔ گاؤں میں کوئی پھیری والا آتا تو اس سے کچھ نہ کچھ سامان خرید لیا جاتا۔ ان تمام سرگرمیوں نے چوپال میں بھی رونق کر رکھی تھی۔ اور سارے گاؤں میں بھی گھر گھر چرچا تھا کہ پردھان جی کے یہاں خوشی کا موقع آنے دو پھر دیکھنا گاؤں میں عید ہی تو ہوجائے گی اور اوپر والے نے اگر لڑکا دے دیا تو کہنا ہی کیا ہے۔کوئی امداد کے لیے آتا تو خالی ہاتھ نہ جاتا۔ ابھی کچھ لوگ مسجد کی مرمت کے لیے چندہ لینے آئے تو پردھان جی نے مندر کے پجاری اور دھرم شالہ کے پربندھک کو بھی بلا بھیجا اور دونوں کو خاصی بڑی رقم دی جس کا ساری ہی آبادی پر بڑا اچھا اثر پڑا۔
اللہ اللہ کرکے وقت پورا ہوا، ایک دو دن بلکہ اوپر بھی آگئے۔ پھر پردھان جی نے ضلع کی سب سے تجربہ کار اور قابل لیڈی ڈاکٹر کو صبح ہی سے بلا بھیجا تھا اور وہ پل پل کی خبریں پردھان جی کو بھیج رہی تھی۔ ادھر پردھان جی کے کان بھی گھر کی طرف لگے تھے۔ صبح سات آٹھ بجے کے قریب بہو نے زور سے چیخ ماری اور اک دم گھر میں توا بجنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں اللہ رکھی جس نے کبھی پردھان جی کو گود کھلایا تھا دوڑی دوڑی آئی او رپردھان جی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوتی پوتی مبارک ہو۔ پردھان جی کھل اٹھے۔ جیب میں جو کچھ تھا نکال کر اللہ رکھی کی چادر میں لپیٹ دیا او رحکم دیا تینوں بھینسوں کا دودھ سارے گاؤں میں تقسیم کرادو اور ان لوگوں کو زیادہ دینا جو گاؤں کے اتری کنارے پر جھگی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ بیٹے سے کہا۔ ’’جاؤ لالہ مرلی دھر سے کہہ دو کہ چار دھڑی گڑ میں ناریل ملا کر نئے سرے سے گندوڑے بنا دے۔‘‘
دس گیارہ بجے تک سارے ہی گاؤں میں یہ خبر پھیل گئی کہ پردھان جی کے یہاں بچے کی ولادت ہوئی ہے او رلڑکی ہوئی ہے۔ جس جس کو بھی معلوم ہوتا گیا پردھان جی کے یہاں آکر بدھائی دیتا تو کوئی مبارک باد کہتا جواب میں پردھان جی یہی کہتے ہاں بھائی سلامت ہو اوپر والے نے بڑی امیدوں کے بعد یہ دن دکھایا ہے۔ سب کو حیرت تھی تو اس بات پر کہ لڑکی کی پیدائش پر اتنی خوشی۔ چھوٹے بھائی نے پردھان کے کان میں کہا احسانوں کے لڑکا نہیں لڑکی ہوئی ہے۔ پردھان بولے۔ ’’ہاں ہاں مجھے معلوم ہے اللہ رکھی تو مجھے فوراً ہی بتلاگئی تھی۔ لوگ سمجھتے نہیں لڑکی تو اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے رسولؐ کا سلام ہے ہماری ایسی قسمت کہاں تھی جو ہمارے یہاں رسول اللہؐ کا سلام آئے جا ذرا تو بھی چلا جا لالہ جی کے یہاں۔ کہنا ایک دھڑی گڑ اور بڑھادے او ریہ بھی کہ مکھانے اور بادام کی گری بھی ملادے اور ذرا یہ بات تاکید سے کہہ دینا کہ مال اچھادے سارے گاؤں میں بٹنا ہے۔‘‘
سارے ہی گاؤں میں اس بات کا چرچا ہو رہا تھا کیسی بھاگوان بچی ہے جنم لیتے ہی ہمیں دودھ او رمیٹھا کھلا دیا۔ کچھ بزرگ یہ بھی کہہ رہے تھے اللہ جن سے خوش ہوتا ہے ان کے یہاں پہلا بچہ لڑکی ہی دیتا ہے۔lll