بیٹی

مجیر احمدآزاد

میکے سے لوٹنے کے بعد روبیدہ بجھی بجھی سی مغموم دکھائی دے رہی تھی۔ نفیس کے دریافت کرنے پر اس نے سفر کی تکان کا عذر پیش تو کیا لیکن حقیقت کچھ اور تھی۔ یہ اسی کا دل جانتا تھا کہ اس پر کیا بیت رہی ہے۔ وہ کسی خیال میں ڈوبی ہوئی رنجیدہ خاطر تھی اور بچے اس کے سامنے اپنی اپنی ضرورت کے لئے پیکر سوال تھے۔ وہ ایک شفیق ماں تھی۔ نرم خو، سراپا محبت اور سب کا خیال رکھنے والی۔ سبھی ایک دوسرے کا چہرہ تکتے ہوئے خاموش تھے، جواب کے منتظر۔ ماں کی صورت پہ چھائی افسردگی کی وجہ جاننے کے لئے بچے بے تاب تھے۔ نفیس بھی بچوں اور خانہ داری سے لاتعلقی کی بناپرروبیدہ سے سوالی تھے۔ اس کے گرد افراد خانہ جمع تھے اور اس کی آنکھوں میں نمی تیررہی تھی۔ تبھی اکرام نے اپنی ماں کے گلے میں باز وڈالتے ہوئے کہا:

’’ممّا آپ پریشان نہ ہوں۔ نانا جان ٹھیک ہوجائیں گے۔‘‘

اب منظر نامہ صاف ہوچکا تھا۔ اکرام کے ساتھ والد سے ملاقات اور واپسی پر جذبات امڈ جانا سب کے سمجھ میں آچکا تھا۔ نفیس مسکرائے اور شرارت آمیز لہجے میں بولے ’’تم کو وہیں رہ کر ان کی خدمت کرنی چاہئے نا۔ پیاری بیٹی ہو اپنے پایا کی۔‘‘

روبیدہ نے پلکیں اوپر اٹھائیں اور نفیس کی شرارت بھری آنکھوں میں جھانکا اور بولی ’’مذاق کرنے کا تو آپ کو بہانہ چاہئے۔ موقع ملا اور شروع ہوگئے۔‘‘

نفیس تو بس اس کی بے حرکتی کو توڑنا چاہتے تھے ورنہ روبیدہ کے درد کو اس نے بھی محسوس کرلیاتھا۔ وہ تو روبیدہ اور اس کے خاندان والوں کو قریب سے جان چکے تھے۔ یہاں تک کہ اپنے خسر قمر الدین صاحب کی فکر سے شدید اختلاف رکھتے تھے۔ جن کے نزدیک بیٹیاں بیٹوں کے مقابلے دوسرے درجے کی مخلوق تھیں۔ اولاد نرینہ کو سبقت کے مزاج کی وجہ سے انہوں نے اپنی پھول سی بیٹی روبیدہ کو معقول تعلیم تک نہیں دی تھی۔ ان کے پاس پیسوں کی ریل پیل تھی مگر بیٹی کو پرایا دھن مانتے ہوئے اس پر خرچ کرنا وہ بے جا اسراف سمجھتے تھے۔ روبیدہ کی تعلیم سے منصوبہ بند بے توجہی اور اپنے بیٹوں کی تعلیم پر بے دریغ خرچ نے انہیں بیٹوں سے حد درجہ امید کا خوگر بنادیاتھا۔ روبیدہ اپنے بھائیوں کو اسکول آتے جاتے حسرت بھری آنکھوں سے دیکھتی اور بیٹی ہونے پر افسوس کرتی۔ ایک دوباراس نے اپنی ماں سے اسکول کی پڑھائی کے بارے میں کہا بھی تھا۔ مگر نتیجہ صفر نکلا۔ بلکہ والد نے اس کو جھڑک دیا تھا۔ اس دن وہ زار وقطار روئی تھی اور رب سے لڑکی ہونے پر خوب شکوہ کیا تھا۔ یہ اسے اب تک یاد ہے۔ بھائیوں نے کالج میں قدم رکھا اور اس کے لئے خاوند کی تلاش شروع ہوئی۔ ہر چند کہ اس کی عمر شادی کے قابل نہ تھی۔ کچھ اچھا منظور تھا کہ چار پانچ سال ’’اچھا لڑکا اور کم خرچ‘‘ کی تلاش میں بیت گیا۔ روبیدہ عمر کے ساتھ فکر میں بھی پختہ ہوتی گئی۔ اس کے لئے دولہا کی حصول یابی کہیں تعلیم کی وجہ سے آڑے آتی تو کہیں شادی میں کنجوسی کے چرچے کی بنا پر ناکام ہوجاتی۔ کہا جاتا ہے جوڑی تو اللہ بنا تا ہے۔ نفیس سے اس کی شادی تب ہوئی جب وہ تعلیم یافتہ تو تھے لیکن روزگار نہ تھا۔ نفیس کے والد نے یہ سوچ کر رشتہ کیا۔ لڑکی والے دھنی ہیں بیٹے کی مدد ہوگی لیکن شادی کے چند روز کے بعد ہی نفیس کی سمجھ میں ساری باتیں آگئیں۔ روبیدہ کو انہوں نے بیٹی تو مانا تھا مگر اولاد کا درجہ نہیں دیاتھا۔ نفیس بڑا ہی خوددار واقع ہوا تھا۔ اپنے سسرال کے بارے میں جان کر انہوں نے ان کی پشت پناہی تک سے خود کو الگ رکھا تھا، لیکن روبیدہ کی زبان اب کھلنے لگی تھی۔ اپنے دونوں بھائیوں کو عیش وآرام سے رہتے ہوئے دیکھ کر اس کو احساس کمتری نے جکڑلیاتھا۔ وقت کے ساتھ اس کی فکر نے احتجاج کا رویہ اپنالیا تھا۔ اس نے کھل کر مالی مدد کے لئے اپنی والد سے کہا تو دونوں میں بحث ہوئی۔ قمرالدین صاحب نے یہ کہہ کر دامن جھاڑ لیا تھا کہ شادی کے بعد ساری ذمہ داری نفیس کی ہے۔ اس کو خوش رکھنا نفیس کی ذمہ داری ہے۔ یہ سن کر روبیدہ کے ناتواں جسم میں غضب کی طاقت آگئی تھی اور اس نے صاف طور پر اپنے آئینی حق اور والد کی ناانصافی کو پورے گھر کے سامنے رکھ دیاتھا۔ نتیجہ وہی نکلا ڈھاک کے تین پات۔ والد کے غضب ناک تیور دیکھ کر اس کے ہوش اُڑگئے تھے۔ وہاں سے مایوسی کے بعد گھر واپس آکر نفیس کے سینے سے لگ کر وہ گھنٹوں روئی تھی۔ نفیس ان دنوں کافی پریشان تھے۔ سرکاری ملازمت کے لئے اس کی تگ ودو جاری تھی۔ گاؤں میں کاشت کی دیکھ بھال والد کے انتقال کے بعد اسی کے کندھے پر پڑی تھی۔ اسے اس بات کا ملال تھا کہ والد کے انتقال پر پرسہ کے لئے بھی سسرال سے کوئی نہیں آیاتھا۔ اس کے باوجود پریشان روبیدہ کو اس نے دلاسہ دلایا اور سب کچھ ٹھیک ہوجانے کی امید جتائی تھی جب کہ حقیقت یہ تھی کہ وہ خود حالات موافق ہونے سے ناامید ہوچکا تھا۔ کاشت کاری کے سوا اس کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ بس زندگی چل رہی تھی بیل گاڑی کی طرح ہچکولے کھاتی ہوئی۔

روبیدہ نے میکے کو آخری سلام کرلیاتھا اگرچہ وہاں کی خبر آنے جانے سے لیتی رہتی تھی۔ اچانک والدہ کے انتقال کی خبر نے اس کے پاؤں سے تمام زنجیریں توڑدیں۔ وہ روتے روتے ہلکان ہورہی تھی۔ ان دنوں نفیس بھی گھر پر نہیں تھے مگر اسے اپنے شوہر پر اعتماد تھا۔ موت کی خبر نے تمام شکایتوں کو نگل لیا۔ وہ بیٹے کے ساتھ برسوں بعد میکے پہنچی۔ ماں کے جسد خاکی سے لپٹ کر دیر تک روتی رہی۔ پاس پڑوس کے لوگوں نے بڑی مشکل سے خاموش کیا۔ تجہیز وتکفین تک نفیس بھی آپہنچے۔ تدفین کے بعد مہمان رخصت ہوتے گئے۔ روبیدہ بھی چلنے کو تیار ہوئی اور والد کے سامنے آکھڑی ہوئی۔ وہ خاموش رہے لیکن آنکھوں سے دریا رواں رہا۔ روبیدہ بیٹی سے ماں بن گئی اور انہیں ڈھارس بندھانے لگی۔ قمرالدین صاحب نے زبان سے کچھ نہ کہا مگر بیٹی کے لئے قدم اٹھانا مشکل ہوگیا اور چاروناچار دوچار دن مزید رکنے کے لئے اس نے خود کو آمادہ کرلیا۔

گھرکے تمام حالات اس کے سامنے تھے۔ دونوں بھائیوں کی الگ رہائش، آپسی نفاق اور سب سے بڑھ کر والد کی خبر گیری میں کمی اسے کھٹکنے لگی۔ جس درودیوار پر اس نے بچپن میں پنسل سے لکیریں کھینچی تھیں اب تو وہاں بٹوارے کی دیوار کھڑی تھی۔ والد صاحب ایک ایک ہفتہ کے کنٹریکٹ پر دونوں بیٹوں کے ذمہ تھے۔ اسے اور بھی تکلیف ہوئی جب والد صاحب کے دوست نے بتایا کہ ’’یہ سب ان کا اپنا کیا ہوا ہے۔ میں نے تمام جائداد اپنے بیٹوں کے نام کرنے سے منع کیاتھا۔ انجام تو ایسا ہونا ہی تھا۔ کہتے ہیں سب بیٹوں کاہی ہے۔ آج دوں یاکل کیا فرق پڑتا ہے۔ بیٹی سچ پوچھوتو اب قمر کو دقت ہوجائے گی۔ بھابھی بڑا خیال رکھتی تھی اس کا۔‘‘

اشک بارآنکھوں سے گھر واپس آئی تو بچے بہت خوش تھے۔ ایسے چہک رہے تھے جیسے دنیا بھر کی دولت مل گئی ہو۔ پل بھر کے لئے اس کے مغموم دل کو تشویش ہوئی مگر فوراً پتہ چل گیا کہ نفیس کو سرکاری ملازمت مل گئی ہے۔ اللہ کیا کیا کرشمے دکھاتا ہے۔ ابھی غم کے آنسو تھے آنکھوں میں مسرت بھری خبر نے آنسوؤں کو موتی بناڈالا۔ خواب جو پورا ہوا تھا۔ روبیدہ کی زندگی میں اب خوشیاں تھیں۔ البتہ نفیس کی ملازمت کے بعد بچوں کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری اس پر آگئی۔ اسے اپنے تعلیم یافتہ نہ ہونے پر تب افسوس ہوتا جب بچوں کی تعلیم میں ذاتی طور پر معاون نہیں ہوپاتی تھی۔ ایسے میں اسے ابو کی یاد ضرور آتی تھی۔ بیٹا بی اے کا اسٹوڈنٹ تھا۔ جب جی میں آتا اس کے ساتھ میکے ہوآتی۔ وہاں صاف ستھری دیواریں تھیں، عیش تھا، رنگینیاں تھیں، مگر محبت نہ تھی۔ روبیدہ کو اب وہاں سے ویرانی اور مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا تھا۔ قمر الدین صاحب کبھی بڑے بیٹے کے یہاں کھانستے مل جاتے تو کبھی چھوٹے بیٹے کے مکان میں بخار میں مبتلا نوکروں سے پانی مانگتے ہوئے۔ جب بھی روبیدہ وہاں سے لوٹتی دل میں درد کی ایک ٹیس کا اضافہ ہوجاتا۔ وقت کے ساتھ دردمدھم ہوتا کہ پھر والد سے ملنے کی تڑپ بڑھ جاتی۔ بیٹی جو ٹھہری اور ملاقات کے بعد پھر وہی درد کا سلسلہ۔ انہیں تکلیف میں دیکھ کر خود اذیت سے دوچار ہوجاتی۔ مگر درد کا در ماں اس کی سمجھ سے بالا تر تھا۔ اس دفعہ وہ کچھ زیادہ ہی ٹوٹ کر لوٹی تھی۔ بار بار اس کے آنکھوں کے سامنے اشک بار قمرالدین صاحب کا چہرہ گھوم جاتا اور دورتک ان کا جملہ پیچھا کرتا۔ چلتے وقت بڑی مشکل سے خود پر قابو پاتے ہوئے انہوں نے کہا تھا۔ ’’روبیدہ مجھے معاف کردو۔ کاش میں نے تجھے بھی بیٹا ماناہوتا۔‘‘

یہی جملہ روبیدہ کو مضمحل کئے ہوا تھا۔ والد کا پژمردہ چہرہ اور ان کے الفاظ جو احساس ندامت کے عکاس تھے اس کے ذہن پر بوجھ بنے ہوئے تھے۔ وہ پریشان ہورہی تھی لیکن گھریلو ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اس کی شدت میں کمی آتی گئی۔ وہ اپنے ضعیف والد کے واسطے کچھ کرنا چاہتی تھی اس لئے نفیس سے بات کرنے کا موقع تلاش کررہی تھی۔ وقت کاپرندہ تیز گامی سے سفر کررہا تھا۔ اب پھر اسے والد سے ملنے کی خواہش ہورہی تھی۔ وہ آج کل میں جانے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔

بچے کھپریل کے مکان کے سامنے احاطے میں کھیل رہے تھے۔ روبیدہ اپنے کام میں مصروف تھی لیکن کان دروازے پر تھا۔ نفیس کے آنے کا وقت جوہورہا تھا۔ دروازہ کھلا، پہلے سب بچے آگے بڑھے۔ خلاف توقع نفیس کے کندھے سے بوسیدہ بیگ جھول رہا تھا اور وہ کسی کو اندر آنے کا اشارہ کررہاتھا۔ روبیدہ بھی دروازے تک آچکی تھی۔ اپنے والد کو احاطے میں داخل ہوتے دیکھ کر پل بھرکو اسے خواب کااحساس ہوا لیکن نفیس کی آواز نے اسے حقیقت کی دنیا میں واپس لادیا۔

’’ابوجان مجھے اسٹیشن پر ملے۔ میں انہیں اپنے ساتھ لے آیا۔ آج سے یہیں رہیںگے ہم لوگوں کے ساتھ۔ بیٹوں نے ساتھ چھوڑ دیا تو کیا تمہارا تو بھی کچھ فرض بنتا ہے روبیدہ۔‘‘

اسے لگا جیسے نفیس نے اَن کہی مراد پوری کردی ہو۔ روبیدہ اپنے والد کے سینے سے لگ گئی اور دونوں کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ البتہ یہ پتہ لگانا مشکل تھا کہ کس کے آنسو خوشی کے ہیں اور کس کے…۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146