سینئر گروپ کی چھٹی ہوئی۔ بستے سنبھائے باحجاب لڑکیوں کا قافلہ اپنے گھروں کی جانب رواں ہوا اورتعلیم نسواں کی خوشبو فضا میں پھیل گئی۔ کچھ دیر کے لیے راستے پر لش لش کرتے سیاہ برقعے اور دبی دبی شوخیاں اپنی جانب متوجہ کرنے لگیں۔ گنج پورہ چوراہے کے پاس برگد کا بوڑھا درخت جھوم اٹھا اور وہیں شاہراہ کی دوسری جانب پھونس سے بنے دالان میں بیٹھے ہوئے ادریس درزی کے ملگجے چہرے پر مسکراہٹ کھل اٹھی۔ یہ روز کا معمول ہے جو برسوں سے جاری ہے۔ سہ پہر بعد یہ نظارہ برگد کا پیڑ اپنی نوجوانی سے دیکھتا آرہا ہے اور ادریس درزی بھی۔ ادھر کچھ دنوں سے ادریس درزی گرلس اسکول کی چھٹی ہوتے ہی پریشان ہو اٹھتا ہے۔ اس کی بے چینی اضطراب کی کیفیت لے لیتی ہے۔ جب تک لڑکیوں کا برگد کے سایہ سے گزرنے کا سلسلہ تھم نہیں جاتا اس وقت تک اسے اطمینان نہیں ہوتا۔ اِن دنوں اسے برگد بھی بے چین دکھائی دیتا ہے۔ اس کے تنے ہوا میں تیرتے رہتے ہیں اور پتّوں سے ایک عجیب سرگوشی سنائی دیتی رہتی ہے۔ ایک ہفتے سے ساجدہ بھی الجھی الجھی سی ہے۔ اس کی بہترین دوست نغمہ اچانک کچھ بتائے بغیر ایک ہفتے سے اسکول نہیں آرہی ہے۔ نغمہ کے محلے کی لڑکیاں بھی اس کی وجہ بتانے سے قاصر ہیں۔ کافی کوششوں کے بعد ساجدہ نے نغمہ کے گھر کا نیا فون نمبر حاصل کرہی لیا۔
اسکول سے واپسی کے بعد اس نے نغمہ کو فون کیا اورغیر حاضری کی وجہ دریافت کی۔ ساجدہ کا چہرہ مغموم ہوگیا۔ شاید ادھر سے رونے کی آواز آرہی تھی۔ بات کرتے ہوئے ساجدہ کے چہرے سے پریشانی ٹپکنے لگی۔ وہ کچھ بے چین سی ہوگئی۔ نغمہ سے بات کرنے کے بعدفوراً آسیہ کے اسکول چھوڑنے کی بھی سمجھ میں آگئی۔ ایک لمحہ کے لیے اسے بھی خوف کا احساس ہوا لیکن دوسرے ہی پل اس نے نغمہ کی مدد کا تہیہ کرلیا۔
ترانہ ختم ہوجانے کے بعد اس نے نغمہ کے محلے کی لڑکیوں سے گفتگو شروع کی۔ ابھی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ نرگس آپا کلاس میں آگئیں۔ وہ حاضری کے بعد سماجیات پڑھانے لگیں۔ ساجدہ کا دماغ کہیں اور تھا اس لیے وہ نرگس آپا کا لکچر بھی ٹھیک سے نہ سن سکی۔ جب انھوں نے لڑکیوں سے ان کے مسائل دریافت کرنے شروع کیے تو مجبوراً اسے بھی سوال سیشن میں حصہ لینا پڑا۔ تب بھی اس کا ذہن کہیں اور تھا۔ لنچ کے وقت تک اس نے بہت ساری معلومات یکجا کرلیں۔ اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب ایک لڑکی نے بتایا کہ نغمہ کے والد نے اس کی شکایت سننے کے بعد اسے اسکول آنے سے منع کردیا ہے۔ اسے تعجب بھی ہوا کہ والدین لڑکیوں کے مسائل اس طرح نمٹاتے ہیں!نغمہ کے ساتھ جانے والی لڑکی آمنہ نے بتایا۔
’’باجی دو تین لڑکے برگد کے نیچے روز رہتے ہیں، ہم لوگ نظریں نیچی کیے آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن لڑکے پھبتیاں کسنے سے باز نہیں آتے۔‘‘
روبی نے بتایا: ’باجی اس میں سے ایک لڑکا نغمہ کا نام بھی جانتا ہے، جو شاید اسی کے محلے کا ہے۔‘‘
’’لیکن نغمہ نے مجھے نہیں بتایا۔‘‘ ساجدہ نے ان لڑکیوں سے سوال کیا۔
آخر کیا بتاتی آپ کو کہ وہ بدمعاش لڑکے نغمہ کو دیکھ کر عجیب عجیب حرکتیں کرتے ہیں اور گانا گاتے ہیں۔ اس وقت نغمہ تیز قدم اٹھاتی ہوئی آگے نکل جاتی۔ پھر جب ہم سب اس کے پاس پہنچتے تو وہ پسینے سے شرابور ملتی تھی۔‘‘
نویں جماعت کی ایک طالبہ نے بتایا کہ: ’’ایک دن ایک لڑکے نے برگد کے پیڑ کے پاس ہمیں بلاکر ایک لڑکی کا گھر اور نام پوچھا تھا۔ میں ڈرگئی تھی اور بغیر کچھ بولے تقریباً دوڑتی ہوئی اپنی سہیلی سے جاملی تھی۔‘‘
آج ساجدہ کا دل پڑھائی میں نہیں لگ رہا تھا۔ ٹیلی فون پر نغمہ کے رونے کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔ دسویں کلاس کی طالبہ ساجدہ مدد کرنا چاہتی تھی، مگر اس کا ذہن کوئی ترکیب سوچنے سے قاصر تھا۔ اسے نغمہ کے والد پر سخت غصہ آرہا تھا، جنھوں نے نغمہ کی شکایت پر اسے اسکول سے ہی ہٹا لیا تھا۔ کچھ دنوں قبل آسیہ بھی اسکول چھوڑ چکی تھی۔ تب ساجدہ کو اس کی وجہ معلوم نہ تھی۔ نغمہ اس کی بہترین دوست تھی اور درجہ میں اچھی لڑکی شمار کی جاتی تھی اس لیے اسے قلق تھا۔ وہ ایک اچھی سہیلی کھونا نہیںچاہتی تھی۔ وہ اسی ادھیڑ بن میں تھی کہ اسکول کی چھٹی ہوگئی۔ زیادہ سوچنے کی وجہ سے اس کے سر میں درد ہونے لگا اس لیے گھر آتے ہی وہ بستر پر دراز ہوگئی۔ یہاں بھی اسے سکون نہ ملا۔ بار بار آنسوؤں سے تر نغمہ کا چہرہ اس کے سامنے آجاتا، اس کی پڑھائی کا شوق اس کی سوچ پر حاوی ہوجاتا۔ اسے محسوس ہوتا کہ نغمہ کسی کھائی میں گر گئی ہے اور بڑی عاجزی سے اسے مدد کے لیے پکار رہی ہے۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ وہ آنکھیں بند کیے بستر پر پڑی رہی۔ ان کے والد پروفیسر کلیم اللہ نے جب اسے اسٹڈی ٹیبل پر نہیں دیکھا تو وہ اس کے کمرے میں پہنچے۔
’’تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے بیٹا!‘‘
’’جی … جی وہ تھوڑا سا درد…‘‘ وہ جلدی سے بستر پر بیٹھ گئی۔
انھوں نے سر پر ہاتھ رکھا تو ساجدہ کو طمانیت کا احسا س ہوا۔ دستِ شفقت نے اس کی تھکان دور کردی۔ دونوں ساتھ ساتھ ڈرائنگ ہال میں آئے۔ حسب عادت انھوں نے اسکول کی پڑھائی کے بارے میں پوچھا۔ دن بھر تو وہ پڑھائی میں توجہ نہیں دے سکی تھی، ہاں سماجیات میں عورتوں کے مسائل پر نرگس آپا کا لیکچر تھوڑا سا ذہن میں تھا۔ ساجدہ نے سوال کیا:
’’ابوجان عورتوں کے مسائل کس طرح حل کیے جاسکتے ہیں؟‘‘
وہ پہلے تو مسکرائے پھر بیٹی کی طرف دیکھتے ہوئے نرمی سے بولے:
’’خواتین کے بہت سے مسائل ہیں لیکن ان میں بیشتر کا حل انہیں خود نکالنا ہوگا۔ تعلیم ان کا ہتھیار ہو تو وہ میدان کار زار میں بھی کامیابی حاصل کرسکتی ہیں۔‘‘
ساجدہ کے تاثر سے لگا وہ جواب سے مطمئن نہیں ہے۔ انھوں نے بھی بھانپ لیا پھر گویا ہوئے: ’’دراصل لڑکیوں میں عزم، تعلیم، احتجاج کی صلاحیت اور سرپرستوں کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔‘‘
اب ساجدہ نے خاموشی توڑی: ’’اگر والدین تعلیم ہی دلانا نہ چاہیں تو بھلا لڑکیوں کے مسائل کیسے حل ہوں گے۔‘‘
کلیم اللہ صاحب نے جواب دیے بغیر سوال کیا:
’’کیا بات ہے ساجدہ تم اس طرح کا سوال کررہی ہو۔‘‘
ساجدہ پریشان ہوگئی۔ وہ تقریباً ہکلا کر بولی:
’’دراصل ابو… جان، تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں جو دقتیں لڑکیوں کے ساتھ ہیں اس کی وجہ سے ہی شاید والدین انہیں اس زیور سے محروم کردیتے ہیں۔‘‘
’’نہیں اس کا مقابلہ لڑکیوں کو خود کرنا چاہیے۔‘‘
اتنے میں چائے آگئی اور گفتگو کا موضوع بدل گیا۔ ساجدہ کو رات میں بھی ٹھیک سے نیند نہیں آئی۔ وہ سوچتی رہی اور پریشان ہوتی رہی۔ آخر کار رات کے آخری پہرمیں اس کے دماغ میں ایک ترکیب کوندی، وہ خوشی سے جھوم اٹھی۔ اب اسے عملی جامہ پہنانا تھا۔
آج اسکول میں وہ تروتازہ لگ رہی تھی۔ لنچ کے دوران اس نے اپنے درجے کی چنندہ لڑکیوں کو میدان کے کنارے بلایا اور انہیں اپنے منصوبے کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا۔ ایک دو نے خوف کا اظہار کیا تو ساجدہ نے قریش کی عورتوں کی مثالیں دیں۔ انہیں نبیؐ کے ساتھ جنگ میں شریک ہونے والی عظیم عورتوں کا حوالہ دیا۔ بمشکل تمام ساجدہ نے آٹھ دس لڑکیوں کو اپنے منصوبے کے لیے تیا رکرلیا۔ بعد ازاں نویں جماعت کی اسی لڑکی کو بلایا جسے ان دنوں برگد کے پاس لڑکے اشارہ کرتے تھے۔ اس کو اپنے پلان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ اسے اس کام کے لیے تیار کیا کہ وہ ساجدہ سمیت دو تین لڑکیوں کو نغمہ کے یہاں پہنچادے، بس۔ وہ بخوشی تیار ہوگئی۔
ٹن …ٹن … ٹن… ٹن سینئرڈویژن کی چھٹی ہوئی۔ باحجاب لڑکیاں اپنے اپنے گھروں کی جانب روانہ ہوئیں۔ شاہراہ پر بستے سنبھالے سیاہ نقاب والی لڑکیاں دور تک بڑھتی گئیں۔ شیدائیِ علم و فن خوش ہیں کہ قوم و ملت کی لڑکیاں تعلیم سے آراستہ ہورہی ہیں لیکن برگد کا بوڑھا پیڑبے چین و مضطرب ہے۔ ادریس درزی کی آنکھیں خوف زدہ ہیں اور چہرے پر پریشانی ہے۔ لڑکیاں اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوئیں۔ برگد کے تنے پر دو نوجوان بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ساجدہ اور اس کی سہیلیاں بھی لڑکیوں کے قافلے کے ساتھ تھیں۔ برگد کا پیڑدکھائی دینے لگا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے نغمہ کا چہرہ آگیا، مغموم افسردہ نغمہ اپنی پڑھائی کی خاطر مدد مانگتی ہوئی۔ وہ سب برگد کے درخت کے سامنے پہنچیں، درخت کے تنے پر بیٹھا نوجوان کھڑا ہوگیا۔ اس نے لڑکیوں کو اشارہ کرنا شروع کردیا۔ لڑکیاں بدستور قدم بڑھاتی رہیں۔ساجدہ نے اپنی سہیلیوں کو اشارہ کیا۔
راہ گیر ٹھہر گئے۔ سڑکے کے دونوں جانب بنی اونچی عمارتوں کی کھڑکیاں کھلنے لگیں۔ سڑک کے اس پار سامنے بیٹھا ادریس درزی پہلے تو کچھ سمجھ نہ سکا مگر گول بند ہوتی ہوئی نقاب پوش لڑکیوں کے ہاتھ میں شوز، سینڈلس اور پٹتے ہوئے اوباش لڑکوں کو دیکھ کر ساری باتیں سمجھ میں آگئیں۔ خاطر خواہ پٹائی کے بعد جب تک لوگوں کی بھیڑ جمع ہوتی لڑکیاں یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئیں: ’’خبردار جو آج کے بعد کسی لڑکی کو … ورنہ انجام۔‘‘
وہ دن ہے اور آج کا دن، دخترانِ صغرا کا قافلہ سڑک سے گزرتا ہے۔ برگد اپنی جگہ مطمئن کھڑا ہے اور سامنے ادریس درزی مسکراتا رہتا ہے۔