یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآئَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ۔ (سورۃ المائدۃ: ۱۱)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمھیں ناگوار ہوں۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عباسؓ اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو جمع کرایا اور فرمایا: لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے۔ ایک آدمی کھڑا ہوا اور سوال کیا: رسول اللہ! کیا ہر سال؟ تب رسول اللہﷺ کو شدید غصہ آیا اور فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں ہاں کہہ دیتا تو (حج ہر سال) فرض ہوجاتا اور اگر فرض ہوجاتا تو تم کر نہ پاتے اور اس طرح کفر میں جاپڑتے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: بس وہیں رک جاؤجہاں میں نے تمھیں چھوڑ دیا ہے، تم سے پہلے کے لوگ اپنے انبیاء سے اختلاف اور کثرتِ سوالات کی وجہ سے ہی تباہ و برباد ہوئے۔ اس لیے جب میں کسی چیز کا تمھیں حکم دوں تو حتی المقدور اسے بجالاؤ اور جس چیز سے منع کردوں اس سے رک جاؤ۔
امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو علم کی برکت سے محروم کرنا چاہتا ہے تو اس کی زبان پر الجھانے والی باتیں جاری کردیتا ہے۔
مذکورہ آیت اور حدیث سے جو روشنی ہمیں ملتی ہے وہ یہ ہے کہ:
(۱) لا یعنی سوالات اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں ان سے ایک مومن زحمت میں پڑسکتا ہے۔
(۲) کثرتِ سوال سے انسان گمراہی کی طرف جاسکتا ہے۔
(۳) ماضی میں کثرتِ سوال امتوں کی تباہی کا سبب بنی ہے جس سے احتراز لازم ہے۔
(۴) ایک اہم بات امام اوزاعیؒ کے قول کی روشنی میں یہ ہے کہ اس سے علم کی برکت فوت ہوجاتی ہے۔
امت کو بے جا سوالات کے بجائے فرائض کی ادائیگی کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔