بے جہت سفر

امجد طفیل

سفر ان کی زندگی کا دوسرا نام تھا۔ وہ پہلا نام اگرچہ بھول بیٹھے تھے لیکن جہاں تک یاد پڑتا تھا شکست اور ناکامی کے آثار صاف تھے۔ وہ کم ہوتے ہوتے انگلیوں پر گننے جتنے رہ گئے تھے۔ وقت کی جس ڈور نے انہیں ایک دوسرے سے جکڑ رکھا تھا اس کا دوسرا سرا خوف سے ملا تھا۔ مسلسل ہر محاذ پر شکست کھاتے وہ اب صرف اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے۔ جہاں بھی سستانے کی جگہ ملتی، وہ اپنی کمروں سے لدھے بوجھ اتارتے اور اس پر براجمان ہوکر اپنے ماضی میں کھوجاتے۔

وہ جب اپنی سرزمین سے چلے تھے تو ان کے ہمراہ ساتھیوں اور سامان بردار سواریوں کی قطاریں تھیں۔ جہازوں پر سوار ان کی آنکھیں بے چینی سے دور کناروں کی کھوج میں مصروف رہتیں۔ بچھڑنے والوں سے پھر آملنے کی آس کی رسی بڑی مضبوطی سے اُن کے جسموں سے لپٹی تھی۔ دور جب انھیں سیاہ لکیر نظر آئی تو سب کام چھوڑ کر اسے دیکھنے لگے۔ جہازوں کے لنگر ڈالے گئے۔ چھوٹی کشتیاں منزل کا سراغ لگانے روانہ ہوئیں، اور اُن کے جسم کسی نوید کے لیے سراپا انتظار بن گئے۔

جوانی کے خون سے سرخ چہرہ، کسرتی جسم، اور بلند عزم زیادؔ، سب سے الگ کھڑا بے چینی سے آنے والوں کا منتظر تھا۔ پھر وہ اس سرزمین پر اترے اور اپنے سردار کے حکم سے انھوں نے اپنے جہازوں کو پانی میں نذرِ آتش کردیا۔ دو طرفہ آگ کے درمیان وہ بازی ہار گئے اور قیدی بنے۔ تب انھوں نے سوچا کہ دائروں میں سفر کے عادی سیدھے راستے پر زیادہ دور تک نہیں چل سکتے کہ مڑنے کی عادت انہیں واپس لے آتی ہے۔ زیادؔ جو ان میں سب سے زیادہ توقیر والا تھا اپنا منہ بازوؤں میں چھپائے بیٹھا تھا۔

سب کو سوچ میں گم دیکھ کر اُن میں سے ایک بزرگ نے لمبی سانس لی۔

’’ہم سب بچھڑ گئے ہیں۔ وہ جنہیں ہم نے کھودیا، یا جن سے ہم کھوئے گئے، وہ ہمارے بارے میں جانتے بھی ہیں یا نہیں۔‘‘

’’تم نے اگر کشتیاں جلانے پر مجبور نہ کیا ہوتا تو ہم واپس تو جاہی سکتے تھے۔‘‘

’’کس منہ سے واپس جاتے۔‘‘

’’کیا وہ پرانی کشتیاں ہمارا بوجھ سہار لیتیں۔‘‘

’’کیوں ہم تو پہلے سے کم ہوچکے ہیں۔‘‘

’’ہمارے اعمال کا بوجھ اُن سے نہ اٹھتا۔‘‘

’’واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔‘‘

’’کیوں! کیا جنہیں ہم چھوڑ آئے ہیں وہ ہمارے منتظر نہ ہوں گئے۔‘‘

’’جب ہم جدا ہوئے تھے تو کون جانتا تھا کہ واپسی ہوگی۔‘‘

’’بچھڑنے والے یاد تو آتے ہی ہیں۔‘‘

’’تمہیں کون یاد کرتا ہوگا۔‘‘

’’زیادؔ! مرد کو چھٹی ہوئی زمین اور عورت ضرور یاد آتے ہیں۔‘‘

’’ہوسکتا ہے جن کی یاد ہمیں ستارہی ہے وہ ہم پر صبر کرچکے ہوں۔‘‘

مدت گزری جب وہ وہاں بس گئے۔ ان کی نسلیں اس زمین سے اس طرح پیوست ہوئیں جیسے وہ اپنی مٹی سے تھیں۔ تب ایک دن ایک گوشے سے آواز آئی۔ یہ غیر ملکی ہیں۔ بدیشی، ان کا اس ملک پر کوئی حق نہیں۔ تب انھوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ ہم آج اپنے دیس میں اجنبی بن گئے ہیں۔ تب وہ شہر جسے وہ جانتے تھے، اس کی گلیوں میں ان کا اتنا خون بہا کہ گھوڑے گھٹنوں گھٹنوں تک اس میں ڈوبے۔ ان کے سروں کے مینار تعمیر ہوئے اور دجلہ و فرات کا پانی کئی دن تک اُن کے خون سے سرخ رہا۔

’’ہمیں اب یہاں سے بھی جانا پڑے گا۔‘‘

’’ہم کب تک اپنے ملکو ںمیں جلا وطن ہوتے رہیں گے۔ اب تو ہماری ہجرتیں نامعتبر ہوگئی ہیں کہ ہم جس شہر سے نکلتے ہیں دوبارہ اس کے درودیوار دیکھنا نصیب نہیں ہوتے مگر ہمارے اجداد کی مٹّی اس مٹّی میں ملی ہے۔ اس وطن کے لیے ہم نے اپنے سروں کو کرپانوں اور برچھیوں پر سجایا تھا۔‘‘

’’دیکھو تو ہماری تیسری نسل نے خیموں میں جنم لیا ہے او رہم پھر بھی بے وطن ہیں۔‘‘

’’یاد کرو کہ ہم سب سے پہلے کہاں سے نکلے تھے۔‘‘

’’کہاں سے نکالے گئے، ہاں یاد آیا،صحرا تھا اور ہم اونٹوں پر سوار تلواریں لہراتے نکلے تھے۔ ہم سے آگے گھڑ سوار تھے اور ہم اُن کے تعاقب میں منزلیں مارتے اپنے گھر کا رستہ بھول گئے تھے۔‘‘

’’نہیں تم تو اس وقت کی بات کررہے ہو جب ہم نئے جہانوں کی تلاش میں نکلے تھے۔ میں تو اُس وقت کے متعلق پوچھ رہاہوں جب ہم نئے جہانوں سے نکلے تھے۔‘‘ پہلے نے سوال کی وضاحت کی۔

’’مجھے ٹھیک طرح یاد نہیں کہ وہ ہسپانیہ تھا۔ سسلی تھا۔ سمر قند یا جلال آباد، مگر اتنا یاد ہے ہمیں وہاں سے نکال دیا گیا تھا۔‘‘ دوسرے نے اپنے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا۔

’’تمہیں سب یاد ہے لیکن تمہاری زبان حق گوئی سے محروم ہے۔‘‘ انہی میں سے کسی نے طنزاً کہا۔

’’نہیں میرا گمان ہے کہ ایسا ہی ہوا تھا۔‘‘

’’میرے خیال میں ہم ہراتؔ سے نکلے تھے یا پھر غرناطہ سے ، یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارا انخلاء مرشدآباد سے شروع ہوا ہو۔‘‘ تیسرے نے بات چلائی۔

’’تم یہ سوچو کہ ہمیں سب سے پہلے شکست کہاں ہوئی تھی۔ جہاں ہم اپنی جنگ ہارے تھے۔ بس وہیں سے سب سے نکالے گئے تھے۔‘‘ کسی ایک نے زور دے کر کہا۔

’’تم کیوں چپ ہو۔ تاریخ تو تمہارا پسندیدہ مضمون ہے۔‘‘ انھوں نے چپ سادھے ہوئے شخص سے دریافت کیا۔

’’میں تو اب تک قبروں کے نشان گن رہا ہوں۔ یہ نشان مجھے کبھی بیت المقدس لے جاتے ہیں کبھی قرطبہ، کبھی سسلی اور کبھی قندھار، مجھے کیا معلوم کہ ہماری پہلی قبر کسی جگہ بنی تھی۔‘‘

’’تم سب بھول رہے ہو مگر مجھے ایک نشان یا دہے۔ جب ہم نکلے تھے تو ہمارے کندھوں پر صلیبیں تھیں۔ وہ شاید ہم اپنے ساتھ اٹھا لائے تھے یا ہمارے کندھوں سے باندھ دی گئی تھیں۔ ہم چلے جارہے تھے اور ہمارے تعاقب میں ریت کے بگولوں میں چھپے چمڑا زیب تن کیے گھڑ سوار تھے اور اُن لمبی ٹوپیوں اور سفید چمڑی والوں کو بھول گئے ہو جنھوں نے ہم کو توپوں کے دہانوں کے ساتھ باندھ کر اپنے تئیں ختم کردیا تھا؟‘‘

’’تم تو ہر بات اپنی ڈائری میں لکھا کرتے تھے۔ اسے نکالو۔‘‘

’’کہاں کھوگئی ڈائری؟ ہماری تاریخ کہاں گئی؟‘‘

سب تلاش میں جٹ گئے۔

’’کیا اس کے بغیر ہم اپنی منزل کی طرف نہیں بڑھ سکتے؟‘‘ کسی نے سوال کیا۔

’’نہیں! اس لیے کہ ہم تو بھاگ رہے ہیں بے سمت۔‘‘

’’کوئی نہیں جانتا کہ ڈائری کہاں ہے۔ تاریخ کہاں کھوگئی۔ صدیاں کہاں گم ہوگئیں۔ بس اتنا یاد ہے کہ جب وہ الحمراء سے چلے تھے تو ان کے تعاقب میں فلپائن کی کشتیاں تھیں۔‘‘

’’بس اتنا یاد رہ گیا کہ ان کے کنوئیں سونا اگلتے تھے اور وہ اس سونے کو کلبوں اور جوئے خانوں میں منتقل کردیا کرتے تھے۔‘‘

وہ ویٹر جو دس دس ڈالر بخششیں لے کر کل انہیں جھک کر سلام کرتا تھا آج انہیں مارنے والوں میں سب سے آگے تھا۔

یہ آج کی بات ہے کہ اس نے کسی بات پر برہم ہوکر کہا:

’’دیکھو! یہ پستول میں نے اسی بخشش سے خریدا تھا۔‘‘

رات گزرتی جارہی ہے۔ چاروں اور پھیلے اندھیرے کے چھٹنے میں تھوڑا سا وقت ہی باقی ہے جلدی سے فیصلہ کرو کہ اب کیا کرنا ہے۔

فیصلہ تو با اختیارلوگ کرتے ہیں۔ ہمیں تو صرف اتنا اختیار ہے کہ اپنا بوجھ اپنی کمروں پر اٹھائے چلتے رہیں۔ اس وقت تک کہ جب تک ہمارا سانس چلتا ہے۔

تو کیا کسی جگہ بھی قیام ہمارا مقدر نہیں۔

قیام تو گھر بار والے کرتے ہیں۔ ہمیں کیا خبر کہ ہمارے گھر کہاں رہ گئے ہیں۔

سفر، کیا سفر ہی ہماری منزل ہے۔ کبھی آگے کی طرف اور کبھی پیچھے کی جانب۔ ایک بے جہت سفر!

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں