بے نفسی کی ایک حیرت انگیز مثال

مولانا عبدالسلام قدوائی، ندوی

اسلام نے اپنے پیروؤں کو خدا کی مخلوق کے ساتھ نیکی اور حسن وسلوک کی ایسی تعلیم دی ہے جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں کہیں اور مشکل ہی سے ملے گی، اس بارے میں اسلامی قانون نے اس قدر زور دیا ہے کہ خود غرضی سخت جرم قرار پائی اور خدا کے بندوں کی خیرخواہی کے بغیر خدا پرستی میں کوئی خوبی باقی نہیں رہی۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں سے صاف کہہ دیا کہ:
لا یومن احدکم حتی یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ۔
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی یہ کیفیت نہ ہوجائے کہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘
ایک اور موقع پر اس سے بھی زیادہ واشگاف الفاظ میں اس جانب توجہ دلائی اور صاف صاف کہہ دیا:
الدین النصیحۃ۔
’’دین خیرخواہی ہی کا نام ہے۔‘‘
اس تعلیم نے مسلمانوں کے دلوں میں دوسروں کی خدمت کا غیر معمولی جذبہ پیدا کردیا تھا، وہ دوسروں کو نظر انداز کرکے اپنی ذات یا اپنے اعزہ و اقربا کو فائدہ پہنچانا بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے، اس بارے میں ان کا احساس اتنا نازک تھا کہ آج اس خود غرضی اور مفاد پرستی کے دور میں اس کا تصور بھی دشوار ہے۔
اس سلسلہ میں حضرت شیخ سری سقطی کاایک واقعہ بہت ہی حیرت انگیز ہے۔ دنیا میں عرصہ ہوا یہ واقعہ نظر سے گزرا تھا۔ اسے پڑھ کر اس وقت بھی سخت حیرت ہوئی تھی اوراس کے بعد بھی جب میں نے خیال کیا تو تعجب ہوا اور دل نے کہا کہ اللہ کے کیسے کیسے پاک اور بے نفس بندے تھے، جنھیں ذاتی مفاد کے حصول کا کیا ذکر ہے، اس کے ادنیٰ سے شائبہ سے بھی اس قدر شدید بیزاری تھی کہ اگر کہیں دوسروں کے مقابلہ میں اپنا خیال آگیا تو ساری زندگی اس کی تکلیف محسوس کرتے رہے اور ہزار بار توبہ و استغفار کے بعد بھی مرتے دم تک دل اس کی یاد سے بے چین ہوتا رہا اور جب کبھی اس کا خیال آجاتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ کلیجہ میں تیر لگ گیا۔
حضرت سری سقطی تیسری صدی ہجری کے مشہور صوفی برزگ تھے۔ (حضرت جنید بغدادی کے ماموں اور حضرت معروف کرخی کے شاگرد ہیں۔ بغداد میں قیام تھا، ۲۵۱ھ میں وہیں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔‘
طبیعت میں بے نفسی اور بنی نوع انسان کے ساتھ غیر معمولی محبت تھی۔ دوسروں کے مقابلے میں اپنی کوئی اہمیت نہ سمجھتے تھے اور ان کو فائدہ پہنچانے کے لیے اپنے بڑے سے بڑے مفاد کو قربان کردیتے تھے، زندگی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور مخلوق کی خدمت میں گزار دی۔ اس بارے میں ذرا سی لغزش کو بھی گناہِ عظیم خیال کرتے تھے۔
ایک مرتبہ ان کی مجلس میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کا ذکر تھا۔ لوگ ’الحمدللہ‘ کے فضائل و مناقب بیان کررہے تھے اور ان درجات و مراتب عالیہ کا ذکر کر رہے تھے جو ’الحمدللہ‘ کہنے سے انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ لوگوں کی یہ گفتگو سن کر شیخ پر ایک عجیب حسرت و ندامت کی کیفیت طاری ہوئی بڑے درد و غم کے ساتھ ٹھنڈی سانس لی، کچھ دیر خاموش رہے پھر رقت آمیز لہجہ میں فرمایا، ہاں بھائی ان فضائل و مناقب میں کسے کلام ہوسکتا ہے ، اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف پر جو بھی ثواب حاصل ہو کم ہے اور اس کے صلے میں درجات و مراتب میں جو بھی ترقی ہو تھوڑی ہے۔
شیخ نے فرمایا ’الحمدللہ‘ واقعی ایسا کلمہ ہے جس کے کہنے والے کو دنیا و آخرت میں سرخروئی اور سرفرازی نصیب ہوتی ہے، لیکن میں ایسا بدنصیب ہوں کہ مراتب و درجات میں ترقی کا کیا ذکر ہے ’الحمدللہ‘ کہہ کر الٹا ایسی سخت پریشانی میں مبتلا ہوگیا ہوں کہ برسوں سے اس کی تلافی کے لیے جدوجہد کررہا ہوں لیکن طبیعت کی بے چینی میں ہنوز کوئی کمی نظر نہیں آتی۔
بیس برس کی بات ہے ایک مرتبہ بغداد میں سخت آتش زدگی کا واقعہ پیش آیا جس محلہ میں میری دوکان تھی، اس پر آگ کا غیر معمولی اثر ہوا لوگوں نے آگ پر قابو پانے کی بہتیری کوششیں کیں۔ لیکن شعلے بڑھتے ہی گئے، نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑی دیر میں تقریباً سارا بازار جل کر راکھ کا ڈھیر ہوگیا اور جہاں چند گھنٹے پہلے کروڑوں روپیہ کا سامان بھرا تھا اب وہاں تباہی و بربادی کی خاک اڑ رہی تھی جو لوگ لاکھوں روپئے کے مالک تھے، اب نان شبینہ کو محتاج ہوگئے۔
جس وقت آتش زدگی کا یہ واقعہ پیش آیا میں بازار کے اس حصے سے بہت دور تھا، اس لیے مجھے بروقت کوئی اطلاع نہ ہوسکی، جب آگ بجھ گئی اور لوگوں کو اس طرف سے فرصت ہوئی تومیرے بعض احباب کو میرا خیال آیا، معلوم نہیں کیا بات تھی کہ اتنی سخت آتش زدگی کے باوجود میری دکان ایسی محفوظ تھی کہ اگر کوئی اس کو دیکھتا تو اسے خیال بھی نہ ہوتا کہ یہاں آگ لگی ہے۔ میرے دوستوں اور ہمدردوں کو اس سے بڑی خوشی ہوئی اور انھوں نے اسے میرے حال پر اللہ تعالیٰ کی بڑی مہربانی سمجھا، ایک شخص دوڑا ہوا میرے پاس آیا اور مجھ سے آگ لگنے کا سارا واقعہ بیان کیا، جس وقت وہ یہ حالات سنا رہا تھا، مجھے سخت پریشانی اور بے چینی محسوس ہورہی تھی آگ کا لگنا، اس کا پھیلنا، بازار کا اس کی زد میں آجانا، دوکانوں کا جلنا، سب اس نے تفصیل سے بیان کیا۔ میں اضطراب اور تکلیف کے ساتھ یہ ساری خبر سنتا رہا آخر میں اس نے میری دوکان کا حال سنایا اور کہا لیکن اللہ تعالیٰ نے بڑی مہربانی کی آپ کی دوکان کے قریب شعلے پہنچ چکے تھے اور معلوم ہوتا تھا کہ کوئی دم میں یہ بھی جل کر خاک سیاہ ہوجائے گی، لیکن خداکا شکر ہے کہ آپ کی دوکان بال بال بچ گئی۔ یہ اطلاع سن کر فرطِ مسرت میں میرے منھ سے نکلا ’الحمدللہ‘۔ اس وقت اپنی دوکان اور املاک کے بچ جانے کی خبر سے میرے منھ سے یہ الفاظ نکل تو گئے لیکن فوراً ہی مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا، دل میں کہا سقطی! تم بھی کتنے خود غرض ہو، اسلام تو ایثار اور بے غرض خدمت کی تعلیم دیتا ہے اور یہ تاکید کرتا ہے کہ دوسروں کی تھوڑی تکلیف کو بھی بہت سمجھو لیکن تمہارا یہ حال ہے کہ دوسروں کی تباہی پر رنجیدہ اور غمگین ہونے کے بجائے تم اپنی سلامتی پر خوش ہورہے ہو، سارا بازار جل گیا۔ بڑے بڑے تاجر محتاج ہوگئے اور وہ لوگ جن کے یہاں لاکھوں کا ڈھیر رہتا تھا، اب دوسروں کے دست نگر ہیں چاہیے تھا کہ تمھیں ان کی حالت پر ترس آتا اور اس مصیبت کا حال سن کر تم تڑپ جاتے، لیکن افسوس تمہاری قساوت قلبی کا یہ حال ہے کہ اپنی ایک دوکان کے بچ جانے پر خوش ہوا اور انا للہ کے بجائے تمہاری زبان الحمدللہ کہہ رہی ہے۔
دل کی اس سرزنش سے میں بے حد متاثر ہوا، وہ دن ہے کہ آج کی تاریخ اس طویل عرصے میں مجھے کبھی اطمینان نہ ہوا، اس وقت کا ’الحمدللہ‘ کہنا ہر وقت میرے دل میں پھانس کی طرح چبھتا رہتا ہے تیس برس سے میں برابر توبہ کرتا رہتا ہوں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر کی درخواست کرتا رہتاہوں اور اس کی بخشش کا طالب ہوں، لیکن اب تک اطمینان نہیں ہوا، جب اپنی اس غفلت کی یا دآجاتی ہے تو دل بے چین ہوجاتا ہے اور رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ قیامت میں خدا کو کیا جواب دوں گا اور رسول اللہ ﷺ سے کس طرح آنکھیں چار کروں گا۔
مذکورہ بالا واقعہ کسی مزید تشریح کا محتاج نہیں نہ اس پر کسی حاشیے کی ضرورت ہے لیکن اس قدر کہنا شاید نامناسب نہ ہو کہ اسلاف کی اسی بلند نظری، سیرت کی پاکیزگی، اخلاق کی خوبی، بے غرضی بے نفسی اور مخلوق الٰہی کی خدمت کی لگن اور اپنے جذبات و مفاد کی قربانی کا اثر تھا، جس نے تیزی سے اسلام کو ساری دنیا میں پھیلادیا۔ اور مسلمانوں کو تمام انسانوں کی نظر میں ایسا محبوب بنادیا تھا کہ انہی کی محبوبیت کے صدقے میں ہم اس وقت زندگی کی سانس لے رہے ہیں، ورنہ اگر اسلاف کے یہ شاندار اور حیرت انگیز ایثار و خدمت کے تذکرے نہ ہوتے اور ہمیں ان بے غرض و بے نفس بزرگوں سے نام کی نسبت نہ ہوتی تو شاید کوئی آج ہماری صورت بھی دیکھنے کا روادار نہ ہوتا۔
خدا کرے یہ تذکرے مجلسی دلچسپی ہی تک محدود نہ رہیں، بلکہ ہمارے دلوں کو متاثر کریں اور ہم بھی اپنے ان مقدس اور پرخلوص بزرگوں کے نقشِ قدم پر زندگی بسر کرنے لگیں تاکہ ایک طرف ہمیں عزت و سرخروائی حاصل ہو، اور دوسری طرف اسلام کا پیام لوگوں کے دلوں میں گھر کرے۔
——

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146