لندن میں برطانیہ کی عدالت نے ایک باحجاب مسلم خاتون کونقاب کی وجہ سے جیوری میں شامل کرنے سے انکار کردیا ہے گزشتہ دنوں لندن میں کراؤن کورٹ نے باحجاب مسلم خاتون کو حکم دیا کہ وہ قتل کے مقدمے کی سماعت میں نہیں بیٹھ سکتی۔ کیونکہ اس کے چہرے کے تاثرات نہیں دیکھے جاسکتے۔ جب خاتون حلف لینے کٹہرے میں آئیں تو جج ایڈون میرون نے کہا کہ آپ نقاب اتاردیں۔ خاتون نے انکا رکیا تو جج نے انھیں حکم دیا کہ پھر آپ کٹہرا چھوڑ دیں۔ برطانوی عدالت نے باحجاب خاتون کو جیوری کا رکن نہ بناکر برطانوی عدالتی نظام کو بے حجاب کردیا۔ یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ حجاب صرف فرانس یا کسی اور ملک کا مسئلہ نہیں رہا ہے بلکہ تمام مغربی ممالک اور مغرب کے دلدادہ مسلم حکمرانوں کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر نے ۲۰۰۶ء میں جب یہ قرار دیا کہ یہ مسلمانوں کی شناخت کے طور پر ہے اس کے بعد سے برطانیہ میں یہ بحث بڑی حد تک ختم ہوگئی تھی، لیکن جس عدالتی نظام پر چرچل کو ناز تھا، آج ایک ماتحت عدالت نے اس کے زوال کا اعلان کردیا ہے۔
حجاب کے خلاف دنیا کا پہلا ملک فرانس ثابت ہوا، جس نے ۱۰؍اپریل ۲۰۱۱ء کو ایک قانون نافذ کردیا، جس کے تحت پبلک مقامات پر چہرے کو ڈھانپ کر خواتین نہیں جاسکتیں۔ ۲۰۰۴ء میں فرانسیسی حکومت نے اسکولوں میں اسکارف پر بھی پابندی لگادی تھی۔ بیلجئیم نے بھی ۲۰۱۰ء میں پارلیمنٹ کے ذریعہ نقاب پر پابندی لگادی تھی لیکن فی الحال بیلجیئم میں نئی حکومت سازی کا عمل جاری ہے اور یہ معاملہ اس وقت لٹکا ہوا ہے جبکہ ایک میئر نے تو ۲۰۰۴ء میں ہی نقاب پر پابندی عائد کردی تھی۔ اٹلی میں برسوں سے یہ قانون نافذ ہے کہ تمام لوگ پبلک میں اپنا چہرہ کھلا رکھیں گے۔ اطالوی مسلمانوں کی تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ قانون صرف مسلمان باحجاب خواتین کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ ہالینڈ کی مخلوط حکومت بھی گزشتہ ایک سال سے یہ عزائم ظاہر کررہی ہے کہ وہ برقعے اور نقاب پر پابندی لگادے گی۔ ۲۰۰۶ء میں ہالینڈ کی حکومت نے قانون سازی کرلی تھی لیکن اس وقت ان کے اپنے وکلاء نے انتباہ دیا کہ یہ ہالینڈ کے آئین کی خلاف ورزی ہوگی، لہٰذا وہ اس سے باز رہے ،لیکن اب پھر ہالینڈ کی حکومت اس جانب عزائم ظاہر کررہی ہے۔ امریکہ میں جہاں انسانی حقوق اور آزادیوں کی سب سے زیادہ بات ہوتی ہے مرکزی طور پر تو وہاں کوئی قانون نافذ نہیں ہے لیکن کئی ریاستوں میں شرعی قوانین کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے۔ اوکلاہاما میں اس قسم کے قانون کے حامیوں نے خواتین کے لیے ڈرائیونگ لائسنس کی تصویر میں اسکارف کے بغیر تصویر کا مطالبہ کیا تھا لیکن مسلمانوں کے دباؤ کے بعد مسلم خواتین کے لیے رعایت دینے پر مجبور ہوگئے۔ جرمنی میں کئی ریاستوں میں مسلمان ہیں لیکن وہاں بھی اسکول ٹیچرز کو پبلک مقامات پر اسکارف پہننے سے منع کردیا گیا ہے۔ جرمن ریاست میں سرکاری ملازمین کے اسکارف پہننے پر پابندی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے کالے دھن کو نقاب پہنا کر اپنے ملک میں جمع کرنے والے سوئٹزرلینڈ میں جسٹس منٹر یعنی وزیرِانصاف لیولانن ودمیر شلمپ نے کہا کہ اگر زیادہ مسلمان خواتین نے چہرے ڈھانپنے شروع کردیے تو ہم نقاب پر پابندی لگادیں گے۔ کیونکہ مسلمان عورتوںکے نقاب سے مجھے بے چینی ہوتی ہے۔ اسپین کے کئی شہروں میں سرکاری عمارتوں کے اندر نقاب کی ممانعت کردی گئی ہے تاہم اسکولوں میں کسی قانون کے تحت ابھی تک پابندی نہیں لگائی جاسکی ہے۔ آسٹریا میں پابندی تو نہیں لیکن امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی تنظیم کا کہنا ہے کہ آسٹریا میں مسلم خاتون حجاب لے لے تو اسے ملازمت اور دیگر امور میں امتیازی برتاؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ سال انتہائی دائیں بازو کی فریڈم پارٹی نے حجاب پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا، اس کا کہنا تھا کہ اس سے عورتوں کے استحصال کو فروغ ملتا ہے، اس لیے اس موضوع پر ریفرنڈم ہونا چاہیے۔
جب مغرب کے آقا ایسے کام کررہے ہوں تو مسلمان غلام کیوں کر پیچھے رہیں۔ لیکن مسلم ممالک میں گنگا اب الٹی بہنے لگی ہے۔ ترکی میں طویل عرصے سے یہ پابندی تھی لیکن اب یونیورسٹی سے یہ پابندی ختم ہوگئی ہے، اسکولوں میں اب بھی ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی ہے لیکن ترک خاتون اول نے اس پابندی کے خلاف احتجاج کرکے پارلیمنٹ میں اس مسئلہ پر ہلچل مچادی تھی، اب پارلیمنٹ اس پابندی کو ختم کرنے پر پھر غور کررہی ہے۔ مصر میں قانون پسندی سے زیادہ امتیازی سلوک اور خواتین کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور داڑھی والے مردوں پر زندگی تنگ کردی جاتی تھی، لیکن حسنی مبارک کی بے دخلی کے بعد سے معاملات بہتر ہورہے ہیں۔ تاہم اب بھی قانوناً تحفظ حاصل نہیں ہے۔ شام میں حافذ الاسد اور بعد میں ان کے بیٹے نے اسلامی خواتین کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا تھا، لیکن اب عوامی مزاحمت اور اسلام سے لوگوں کی محبت کے تناظر میں بشار الاسد ایسے اقدامات کررہے ہیں جن کے نتیجے میں شام میں پردہ پر پابندی ختم ہورہی ہے۔ اب انھوں نے خاتون اساتذہ کے نقاب پر پابندی کا قانون ختم کردیا ہے۔ ۲۰۱۰ء میں بشار الاسد نے نقاب پر پابندی لگادی تھی۔ پاکستان میں جنرل پرویز نے داڑھی، برقعہ اور اسلامی عقائد کا مذاق اڑانے کی کوشش کی تھی لیکن پاکستان میں برقعہ اور حجاب نے زیادہ پذیرائی حاصل کی۔ دنیا بھر میں حجاب سے خوف یہ بتارہا ہے کہ مغرب کہیں بھی اسلامی اقدار و شعائر کو زندہ نہیں رہنے دینا چاہتا ہے۔ برطانوی عدالت بھی اپنے زوال کے سفر کا آغاز کرچکی ہے۔
——