میرے خدا تیرا شکر ہے، ہمارا بھی کوئی چاہنے والا ہے۔ میں سمجھتی تھی کہ ہم غریبوں کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہوتا۔ صحافیوں، ٹی وی چینلوں کے نمائندوں اور سوشل ورکروں کے درمیان گھری ریشما دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کررہی تھی۔
ریشما ہر دن کی طرح آج بھی کچرے کی ٹوکری اٹھائے کوڑے گھر کی طرف بڑھ رہی تھی کہ اچانک چند افراد کا گروپ اس کے پیچھے ہولیا۔ کوڑے دان میں کوڑا انڈیل کر واپس ہونے لگی تو مرد و خواتین کے گروپ نے اسے گھیر لیا۔ ایک خاتون اسے گود میں اٹھائے درخت کے سائے میں لے آئی اور پیار سے پیشانی کو چوما۔ یکایک چندھیا دینے والی روشنی اس کے چہرے پر پڑی تو اس کا چہرہ دمک اٹھا۔ اخباری نمائندوں کے مائیک اس کے سامنے لہرانے لگے۔
بیٹا! تم کب سے یہاں کام کررہی ہو؟ ایک شخص نے اس کے ہاتھ میں فائیو اسٹار چاکلیٹ تھماتے ہوئے کہا۔
دو سال سے۔ چاکلیٹ کو دیکھ کر اس کے منہ میں پانی آگیا اور اس نے کہا۔
تمہیں یہاں ماہانہ کتنے روپے تنخواہ ملتی ہے؟ تم کہاں کی رہنے والی ہو؟ تمہارے ماں باپ کون ہیں؟ اور کیا کام کرتے ہیں؟ تمہارے ساتھ تمہاری مالکن کا رویہ کیسا ہے؟ وہ تم پر ظلم کرتی ہے، مار پیٹ کرتی ہے؟ وہ اس غیر متوقع صورتحال سے پریشان ہوگئی۔ اس پر ایک کے بعدایک سوالات کی بوچھار ہورہی تھی۔
وہ …… وہ بیچاری اپنے دائیں گال پر موجود زخم کو چھپانے لگی۔ اس نے اپنے ہاتھ کو زخم کے اوپر کرلیا۔ زخم کو چھپانے کی ناکام کوشش کے دوران ایک رپورٹر کی نظر پڑگئی۔ بے بی! یہ زخم کیسا ہے؟ اس اخبار کے رپورٹر نے پوچھا۔
نہیں، کچھ بھی تو نہیں ہے؟ وہ خوف سے کانپتی رہی۔
زخم کا تازہ نشان اپنی خاموش زبان سے ریشما کی مجبوری و بے کسی کی کئی داستانیں بیان کررہا تھا۔ کل ہی اس کی مالکن نے جلتی لکڑی سے اس کے ملائم نازک گال کو جلا دیا تھا۔ ظالم کو تو دیکھو۔ چھوٹی سی بچی پر کتنا بڑا ظلم ڈھایا ہے۔ کم بخت کو اپنی اولاد یاد نہیں آئی۔ ایک رپورٹر نے اپنے ساتھی سے کہا۔
حکومت مجبور اور بے سہارا غریب بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تعلیم کی ذمہ داری اپنے سر لے، سماج میں غریب بچوں کا جو استحصال ہورہا ہے اس کی طرف حکومت توجہ دے۔ ا ور بے سہارا بچوں کو آسرا دینے کے لیے حکومت ہر گاؤں ا ور ٹاؤن میں ہاسٹل قائم کرے۔ ایک نامہ نگار نے ٹی وی کے کیمرہ کے سامنے زور دار بیان بازی کی۔
ریشما یہ سب حیران و پریشان ہوکر دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ اب اس کی مفلسی اور بھوک مری کے دن ختم ہونے والے ہیں۔ ظلم کے بادل چھٹ جائیں گے اور اس کی زندگی میں بچپن کی مست و مدھر برسات ہوگی۔ خیالات کی دنیا سے جاگی تو اس کے ہمدرد غائب تھے، وہ اپنی قسمت کو کوستی مالکن کے گھر کی طرف قدم بڑھانے لگی۔
ریشما رام پور کی رہنے والی تھی۔ وہ ایک سال کی تھی کہ اس کا باپ دق کے مرض میں خون تھوک تھوک کر مرگیا۔ تھوڑی بہت زمین تھی۔ جس کو باپ کے علاج کے لیے رہن رکھا گیا تھا۔ باپ کی موت کے بعد ساہوکار نے زمین واپس کرنے سے انکار کردیا۔ علاقہ میں پھیلی خشک سالی نے مرے پہ سو درے کے مصداق غریبوں کی غریبی کو نقطۂ عروج پر پہنچا دیا تھا۔ موضع رام پور میں بھی بھوک مری اور فاقہ کشی سے اموات کے واقعات ہونے لگے تھے۔ ریشما کی ماں جب بھی فاقہ کشی کی اموات کو دیکھتی تو فوراً اپنی سوکھی چھاتیوں سے اپنی بیٹیوں کو لگا لیتی۔ ریشماں کی ماں جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتی اور شہر میں فروخت کرکے آٹا دال لے آتی۔ آئے دن کی فاقہ کشی نے اس کے بدن کی طاقت نچوڑ لی تھی اور دن بہ دن اس کے جوارح جواب دے رہے تھے۔ پہلے وزنی لکڑیوں کا گٹھا بھی آسانی سے اٹھالیا کرتی تھی مگر اب وزن اٹھانا محال ہوتا جارہا تھا۔ اس کے بدن کی طاقت گھٹتی جارہی تھی۔ وہ اس صورتحال سے پریشان تھی۔ کبھی آسمان کو تکتی تو کبھی اپنی ننھی منی بچیوں کی صورت کو تکتی رہ جاتی، اپنی حالت کو دیکھتی تو موت پیاری لگنے لگتی اور ننھی بچیوں کے چہروں پر نظر پڑتی تو زندگی کی روح اس کے بدن میں دوڑ جاتی۔
ایک دن اس کے دور کے رشتہ دار گاؤں آئے۔ ریشما کی ماںنے ان سے منت سماجت کی کہ اس کے دن پورے ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اس نے اپنی زندگی جی لی ہے۔ مگر اب فکر ان بچیوں کی ہے کہ اس کے بعد ان کاپرسانِ حال کون ہوگا۔ ریشما کی ماں نے اپنے قریبی رشتہ دار منا بھائی سے کہا کہ وہ ان کی بچی کو کسی گھر میں کام کاج دلوائے تاکہ اس کا پیٹ بھر سکے۔
ریشما شہر پہنچی اور تین وقت کی روٹی کے عوض اخترآنٹی کے مکان میں کام پر لگ گئی۔ وہ گھر میں صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح کام کرتی۔ فرش صاف کرنا، برتن دھونا، کپڑے دھونا، جھاڑو لگانا، ترکاری لانا، بچوں کو اسکول کے لیے تیار کرنا اور رات دیر گئے تک مالکن کے پیر دبانا اس کے فرائض میں سے تھا۔
اختر آنٹی ایک سخت گیر خاتون تھی۔ کوئی برتن ٹوٹ جائے یا کسی کام میں دیر ہوجائے تو وہ اس کی کومل پیٹھ پر بید برساتی۔ جب اس کا غصہ بڑھ جاتا تو جسم کو جلتی ہوئی لکڑی سے بھی داغ دیتی۔
ریشما درد کے مارے چیختی چلاتی مگر اس کی چیخیں کنکر پتھر کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس لوٹ آتیں اور وہ دیر تک خلاؤں میں گھورتی اور آنسو بہاتی رہتی۔
ریشما خیالات سے جاگی جب اس کی مالکن کا زنّاٹے دار تھپٹر اس کے گال پر پڑا۔ وہ غضب ناک اور خونخوار نظروں سے اسے گھورے جارہی تھی۔
کم بخت! تونے آج ہماری عزت کو خاک میں ملا دیا۔ اور ہماری نیک نامی کو پریس کے چوراہے پر نیلام کردیا۔ اب تیرا اس گھر میں کیا کام ہے۔
چلی جا ہماری نظروں سے دور۔ اس گھر کے دروازے تجھ پر ہمیشہ کے لیے بند ہیں – وہ چیختی رہی، اور دھڑام سے دروازہ بند کردیا گیا۔
ریشما کی آنکھیں پھر ایک بار آسمان کی طرف اٹھیں اور اس کے چہرہ پر آنسوؤں کی لڑیاں لگ گئیں۔ اس کے آگے اندھیرا چھا گیا اور وہ زمین پر گر گئی۔
شاید خالق کائنات نے اسے تمام سہاروں سے بے نیاز کردیا تھا۔