بے کفن لاشیں

رضوان اللہ

دوسری عالمی جنگ اگست ۱۹۴۵ء میں ختم ہوگئی تھی اس کے تقریباً ایک سال بعد یعنی اپنے وطن کی شفق رنگ آزادی سے کوئی ایک برس پہلے میں ضلع دیوریا، مشرقی یوپی کے ڈسٹرکٹ سپلائی آفس میں کلاتھ کلرک تھا یعنی اس نو تشکیل ضلع کی چار تحصیلوں میں تقریباً آٹھ سو کپڑے کے ہول سیل ڈیلروں کے پاس ایک سوت کپڑا بھی ملوں سے نہیں آسکتا تھا تاآنکہ وہ ریلوے کی بلٹی کا ہمارے آفس میں اندراج نہ کرائیں۔ اس پر ڈسٹرکٹ سپلائی آفیسر کے دستخط نہ کرائیں اور اس آفس کی مہر نہ لگوائیں جس کا کلید بردار میں تھا۔ جس کسی کو کپڑے کی ضرورت ہوتی وہ ایک فریادی کی طرح اپنی درخواست لے کر مقامی پٹواری سے اپنی شدید ضرورت کی تصدیق کے بعد تحصیل یا ضلع کے صدر مقام پر جاتا پیشکار کو اس کا محنتانہ یعنی درخواست کو افسر مجاز کے سامنے پیش کرنے کی فیس ادا کرتا جو شاید دو روپیہ ہوا کرتی تھی، پھر صاحب کے آفس آنے کا اور اجلاس برپا کرنے کا اور اپنی باری آنے کا انتظار کرتا۔ گرمی جاڑے، برسات میں ، خواہ کوئی موسم ہو، گھنٹوں پیشانی سے پسینہ پوچھنے کے بعد اس کی باری آتی تو اسے پانچ، سات یا دس گز کپڑا خریدنے کا پرمٹ مل جاتا جسے لے کر وہ اپنے گاؤں یا شہر کے بازار میں اس دوکاندار کے پاس واپس جاتا جو پرمٹ پر کپڑا فروخت کرنے کا مجاز ہوتا۔ اس کے بعد اسے مردہ لپیٹنے کے لیے کفن یا شادی کرنے والے بیٹے یا بیٹی کے لیے لباس میسر آتا۔

ہرلائسنس یافتہ ڈیلر کو ضلع حکام کی طرف سے ایک کوٹا یعنی کپڑے کی معینہ مقدار درآمد کرنے کا اجازت نامہ دیا جاتا۔ اس مقدار کا انحصار کچھ تو آبادی اور لوگوں کی ضرورتوں اور اس سے زیادہ ان رقوم پر ہوتا جو نامعلوم ہاتھوں سے گزرتی ہوئی نامعلوم ہاتھوں تک پہنچا کرتی تھیں۔ اس کے بعد اسٹامپ پیپر کی شکل میں سرکاری فیس ادا کرنی ہوتی۔ اسی عمل کو پرمٹ کوٹا راج کہتے تھے جو انگریزوں کی حکمرانی میں رائج تھا اور آزادی کے بعد قائم ہونے والی حکومتوں کو ورثہ میں ملا۔ اس نظام کی وسعتیں اتھاہ تھیں۔ ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز اس کے زیرِ اثر تھی۔ شکر، نمک، غذائی روغن، جلانے کے تیل غرض کہ ہر چیز حتیٰ کہ شہروں میں بنیادی غذا گیہوں اور چاول تک۔ جو اس نظام سے نالاں اور متنفر ہو اس کو اس سے گریز اور اس کے سائے سے دور ننگے بھوکے مرنے کی پوری آزادی تھی۔ ہر آزادی کے ساتھ کچھ ضمانتیں ہوتی ہیں، لیکن اس آزادی کے ساتھ مرنے والے کے لیے کفن کی بھی ضمانت نہیں تھی۔ وارثوں کو اختیار تھا کہ جیسے چاہیں جیسے کپڑوں میں چاہیں اس کی آخری رسوم ادا کردیں یا یونہی مقدس آگ یا مقدس دریا کے حوالے کردیں۔

جس زمانے کا ذکر کررہا ہوں اس سے دو تین سال پہلے بنگال میں بھیانک قحط پڑچکا تھا، جسے قحط کہنا قدرتی حالات پر تہمت ہوگی۔ دراصل وہ سزا تھی بنگال میںانقلاب کی صدا بلند کرنے کی جس کا پرچم سبھاش چندر بوس کی زیرِ قیادت آزاد ہند فوج نے اٹھا رکھا تھا۔ اس قحط میں مرنے والوں کی صحیح تعداد تو درکنار اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا تھا۔ میں نے اس کو جاننے کی اپنی بساط بھر کوششیں کیں۔ اس وقت انٹرنیٹ تو تھا نہیں کہ بٹن دبایا اور جو چاہا معلوم کرلیا نہ اس وقت تک حصولِ اطلاعات کا قانون وضع ہوا تھا۔ خبریں وہی ملتی تھیں جو حکومت فراہم کرتی تھی۔ چنانچہ میںنے پرانے اخباروں کی رپورٹیں وغیرہ کھنگالیں۔ اس زمانے کے معتبر رپورٹروں کی، جو اب زمانے کی گرد میں دب چکے ہیں، تحریریں دیکھیں لیکن بس ہر جگہ اتنا ہی ملا کہ اس قحط میں لاکھوں جاں بحق ہوئے۔ میں نے خود قیاس کے گھوڑے دوڑائے تو پندرہ لاکھ کے قریب ہلاکتوں کا اندازہ کرسکا، لیکن میرا تجسس جاری تھا میں کپڑے کی کمیابی اور کفن کی نایابی کے بارے میں سوچتا تو گھبرا جاتا کہ ہوگلی اور پدما میں کتنی بے کفن لاشیں سیراب کی گئی ہوں گی۔ میرے دیوریا میں قیام کے زمانے میں ہی شہر میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی تھی، لوگ شہر چھوڑ کر اطراف کے کھیتوں میں ڈیرے ڈال کر پڑے تھے۔ ہم ایک ساتھی کلرک اور ایک باورچی کے ساتھ اپنے آفس کی بلڈنگ کی بالائی منزل میں گوشہ گیر تھے۔ تب سنتے تھے کہ شہر اور اطراف میں مرنے والوں کو لوگ چٹائی میں لپیٹ کر گھاگھرا ندی کے حوالے کردیتے تھے، جو اپنے تیز دھارے اور گھڑیالوں کی کثرت کے لیے مشہور تھی۔

قحط بنگال میں ہلاک شدگان کی تعداد کے متعلق تجسس میرا تعاقب کرتا رہا۔ بالآخر ابھی چند سال پہلے نوبل انعام یافتہ بنگالی ماہرِ اقتصادیات پروفیسر امرتا سین کا وہ بیان دیکھنے کو ملا جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ بنگال کے قحط کے زمانے میں ۳۰؍لاکھ لوگ مرگئے تھے۔ وہ ایک معتبر و مستند ماہرِ اقتصادیات کا بیان تھا اس لیے اس پر یقین کیا جاسکتا ہے۔ اس سانحہ کے تقریباً دو سال بعد ۱۹۴۵ء کی گرمیوں میں کلکتہ گیا تھا تو لوگوں سے میں نے پوچھا کہ اس قحط کے زمانے میں چاول کا کیا نرخ تھا۔ لوگوں نے بتایا تھا کہ ۱۳؍آنے سیر یعنی آج کے حساب سے ۸۰؍پیسے سیر۔ اس کو سو سے ضرب کیجیے تو بھی آٹھ روپئے سیر ہوا، لیکن اس زمانے میں آٹھ روپے کی قیمت کتنی تھی، جب بابو لوگوں کی زیادہ سے زیادہ ماہانہ تنخواہ ۵۰؍روپیہ اور اساتذہ کی تنخواہ ۳۰، ۴۰؍ روپیہ ماہانہ تھی۔ تاہم اس قحط کے اسباب مصنوعی تھے۔ بڑی وجہ تو یہ تھی کہ جنگ برما کی طرف سے مشرقی ہند کی طرف بڑھی آرہی تھی۔ ایک دن جاپانی کلکتہ کے ایک بازار پر بھی چند بم گرا گئے تھے۔ چنانچہ ہر چیز کی فراہمی کے معاملے میں فوجی ضرورتوں کو اولیت دی جاتی تھی حتیٰ کہ اشیائے صرف کی نقل و حمل کے لیے درکار ریلوے ویگن بھی نہیں ملتے تھے۔ ان کے لیے بھی پرمٹ کی ضرورت ہوتی تھی۔ ٹرینوں میں جو یونہی پانچ سات ڈبوں کی ہوتی تھیں آج کی ٹرینوں کی طرح ایک شہر سے دوسرے شہر کی حدوں تک لمبائی والی نہیں ہوتی تھیں۔ ان میں بھی کئی ڈبے فوجیوں کے لیے ریزرو ہوا کرتے تھے، جن کے قریب عام مسافروں کا جانا بھی جان جوکھوں میں ڈالنے کے برابر تھا۔ ایسے میں عین ممکن ہے کہ چاول کی سپلائی اور تقسیم میں کمی آئی ہو اس پرپاداش کا پہلو بھی رہا ہوگا۔ غرض یہ کہ مار بنگال کے لوگوں پر پڑی۔

جب ضروری اشیاء کی قلت اور نایابی کا یہ عالم ہو تو رشوت یعنی کرپشن کی گرم بازاری ایک یقینی امر ہے۔ اس زمانے میں رشوت ستانی کے لیے صرف پولیس کا محکمہ بدنام تھا اور جو داروغہ دس روپیہ قبول کرلیتا تھا اس کے بارے میں لوگ کہتے کہ بڑا راشی ہے۔ اس کے بعد عدالتوں کا نمبر تھا جہاں پیشکار صاحب مقدمے کی فائل صاحب کی میز پر رکھنے کے محنتانے کے طور پر دو تین روپئے قبول کرلیتے تھے۔ ریلوے کے ٹی ٹی بھی عام طور سے بلا ٹکٹ مسافروں سے ٹکٹ کا دام لے کر ان کو رسید دے دیتے۔ شاید و باید کہیں ایسا ہوتا کہ دوچار روپئے لے کر کسی مسافر کو گیٹ پار کرادیتے۔

تو ان حالات میں نوزائیدہ ضلع دیوریا کے راشننگ اور سپلائی آفس کا یہ عالم تھا کہ سپلائی آفس میں ریلوے کی بلٹی پر مہر لگانے کے لیے کپڑے کے تاجر دس روپیہ فی بلٹی زبردستی جیب میں ڈال دیتے، آٹھ دس بلٹی تو روز آہی جاتی تھیں، جبکہ بابو کی ماہانہ تنخواہ ۵۲؍روپئے مہینہ تھی، وہ بابو جو کہ میں ہی تھا، بیچارہ دسمبر جنوری کے جاڑوں میں قمیص پاجامے پر ایک سوتی کوٹ پہن کر اپنے کمرے میں دروازہ بند کرکے بیٹھتا تاکہ نہ سردی گھسنے پائے نہ کوئی بندہ۔ کمرے کے باہر اسٹول پر ایک چپراسی گرم سوٹ میں ملبوس بیٹھا ہوتا، جو نہ معلوم کتنا حق المحنت ہر آنے والے سے وصول کرتا۔ اس نے میرا رویہ دیکھ کر شروع میں ہی ہاتھ جوڑ کر گزارش کی تھی کہ بابو آپ جو چاہیں کریں لیکن کمرے کے باہر ہمارا حق تو نہ ماریں۔ مجھے معلوم تھا کہ وصول ہونے والی رقم بڑے بابو اور دوسرے کلرکوں کے کھان پان کے کام آتی تھی اور وہ لوگ میرا مذاق اڑاتے تھے اور بیوقوف سمجھتے۔ جو کلرک میرے ساتھ کمرے میں رہتے ان کی یومیہ آمدنی کا سو روپیہ ہونا معمولی بات تھی۔

پہلی رشوت

ان حالات میں مجھے گھٹن کا احساس ہوتا۔ آمدنی بہت ناکافی تھی میرا ذاتی خرچ برائے نام تھا، لیکن گھر پر والدین اور چھوٹے بھائی بہنوں کی ذمہ داری کا احساس تو تھا ہی ایسے میں کسی بہتر ملازمت کا متمنی اور متلاشی رہنا فطری بات تھی۔ اسی اثنا میں ریلوے میں خالی جگہوں کے لیے درخواست طلبی کی خبر ملی۔ دراصل وہ پہلا موقع تھا کہ چھوٹی لائن میں ڈرائیور کی ٹریننگ کے لیے ’’اے‘‘ گریڈ میں جو یوروپین گریڈ کہلاتا تھا دس اپرنٹسوں کو لیا جانے والا تھا۔ میں نے بھی درخواست دے دی۔ انٹرویو اور ضابطے کی دیگر کارروائیوں کے بعد میرا سلیکشن ہوگیا۔ دس امیدواروں میں میرا دوسرا نمبر تھا۔ امتحانوںمیں بھی میں سکنڈ ڈیرویز ن میں پاس ہوا کرتا تھا۔ خیر ریلوے کی دلچسپ کہانی پھر کبھی۔ فی الحال تذکرہ دیوریا سپلائی آفس کا۔ جہاں ڈپٹی صاحب نے خود مجھے رشوت دی لیکن اس خوبصورتی سے کہ میں سوچ ہی نہیں سکتا تھا کہ یہ بھی رشوت ہوگی اور اس زمانے میں رشوت کی بیشمار قسمیں ایجاد بھی نہیں ہوئی تھیں۔

جب ریلوے میں میرا سلیکشن ہوگیا تو میں نے دیوریا سپلائی آفس کی ملازمت سے استعفا کی درخواست لکھی اور اسے لے کر سپلائی افسر کے پاس گیا وہ بنگالی مسٹر چٹرجی تھے اور ڈپٹی کلکٹر کے درجے کے افسر تھے، ان کو میری کارکردگی کا علم رہا ہوگا۔ انھوں نے مجھے منانے اور خوش کرنے کی غرض سے کہا کہ جاؤ کام کرتے رہو، کپڑے کی ضرورت ہو تو درخواست لکھ کر لاؤ۔ میں نے کہا کہ کوئی خاص ضرورت نہیں ہے تو کہنے لگے کہ چچیرے بھائیوں وغیرہ کی شادی بیاہ تو ہوتا ہی رہتا ہے تب میںنے کہاکہ ہاں وہ تو ہے تو کہنے لگے کہ وہی لکھ کر لاؤ۔ میں سمجھتا تھا کہ دس گز کپڑے کا پرمٹ ملتا ہے لاؤ پندرہ گز لکھ دوں چنانچہ میں۱۵؍گز کپڑے کی درخواست لے کر ان کے پاس گیا۔ انھوں نے مجھے قطعی سادہ لوح سمجھتے ہوئے 15 کے 1 میں ایک Lجوڑ دیا بس وہ 45ہوگیا پھر انھوں نے چالیس گز کا پرمٹ دے دیا۔ میری مشکل یہ تھا کہ وہ کپڑا خریدینے کے لیے پیسے کہاں سے لاؤں چنانچہ بازار میں گیا کپڑے کے دکانداروں سے دید شنید تھی ہی ان میں سے ایک مارواڑی لڑکا تقریباً میرا ہی ہم عمر تھا ، اس سے بستر کی چادروں کے لیے پانچ گز معمولی کپڑا لیا اور قمیص پاجانے کا پانچ گز۔ اس طرح دس گز کپڑا لے کر اس کی قیمت دے دی اور تیس گز کا پرمٹ اس کے حق میں چھوڑ کر چلا آیا۔

دیوریا میں قیام کا پہلا مہینہ میں نے شمس الہدیٰ فاروقی کے ساتھ گزارا جو ہمارے چچا زاد بھائی عبداللہ بھائی مرحوم کے بڑے صاحبزادے تھے اور دیوریا میں تحصیلدار تھے انہی کے مشورہ پر میں دیوریا گیا تھا۔ ایک ماہ بعد سپلائی آفس کی لق و دق چار منزلہ عمارت کے ایک بالائی کمرے میں منتقل ہوگیا اور ایک کلرک کامل خاں کے ساتھ رہنے لگا جو دیوریا کی تحصیل ہاٹا کے رہنے والے تھے، وہ سنیچر کی شام کو آفس سے نکل کر بس میں بیٹھتے اور گھر چلے جاتے، ان کے ساتھ وہ باروچی بھی چلا جاتا جو انہی کے گاؤں کا رہنے والا تھا، فوج کا ریٹائرڈ بوڑھا سپاہی تھا، کھانا اچھا پکاتا تھا ممکن ہے فوج میں باورچی رہا ہو۔ ہم بھی شام کو مئو جانے والی ٹرین پکڑتے اور صبح سویرے اپنے گاؤں کوریا پار پہنچ جاتے، دن بھر رہ کر رات کی ٹرین سے واپس ہوتے صبح کو ہم دیوریا پہنچ جاتے۔ وہ دونوں بھی صبح کی بس سے آجاتے۔

کامل خان بڑے خوش مزاج اور نفاست پسند تھے۔ اوسط قد و قامت کے چھریرے بدن کے آدمی تھے۔ بہت نفیس کپڑے کا کرتا اور دھوتی پہنتے۔ خالص گھی، آٹا دال، بہترین چاول ساری چیزیں وہ گھر سے ہفتے کے ہفتے ضرورت کے مطابق لاتے۔ وہی باورچی گٹھڑیاں لاد کر لاتا ، ہم اپنے حصے کی رقم ادا کردیتے۔ پان کا خاص اہتمام کرتے ایک حکیم صاحب بستی کے کسی بریٹھے سے ان کے لیے ان کے پسندیدہ پان کی ٹوکریاں لایا کرتے تھے۔ اس کی قیمت نہیں معلوم۔ چونے کتھے کا اہتمام کامل خان خود کرتے۔ ایک دن ان کی چونے کی ہانڈی میں ان کے کسی عزیز نے یہ دیکھ کر کہ چونا سوکھ رہا ہے پانی ڈال دیا اگلے دن صبح کو جب خانصاحب نے اس کو دیکھا تو اس ہانڈی کو اٹھا کر سڑک پر پھینک دیا۔ وہ سویرے اٹھنے کے بعد ٹوکری میں سے ایک ایک پان کو چن کر پرکھ کر الگ کرتے پھر اس کی ڈنڈی کو توڑ کر پتے کی رگوں پر رگڑ کر اس کو گرد کے ذرات سے پاک کرنے کے بعد ہر پتے پر کتھا چونا لگا کر دوہرا موڑ کر اپنے حسا ب اور ضرورت کے مطابق ڈبے میں بند کرکے آفس لے جاتے۔ بعض لوگ ان سے پان مانگ لیتے تو وہ انھیں ناگوار ہوتا۔

پُر اسرار نواب صاحب

دو تین ماہ بعد ہم لوگ آفس کا کمرہ چھوڑ کر اسٹیشن کے قریب واقع ایک بند شوگر مل کے خالی کوارٹروں میں سے ایک کوارٹر میں منتقل ہوگئے اور دیوریا چھوڑنے تک وہیں رہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے کمروں اور برآمدوں کا ایک سلسلہ تھا جو خالی پڑا ہوا تھا، برائے نام کرائے پر مل گیا تھا۔ ضروری سہولتیں موجود تھیں، ہماری ضرورتیں بھی بہت کم اور محدود تھیں۔ اسی سے ملحق فیکٹری کا ایک مہمان خانہ بھی تھا، جو بند پڑا تھا، اس میں صرف اس کا نگراں رہا کرتا تھا وہ بنگلے نما تھا، اطراف میں آم کے بڑے بڑے باغ تھے جو اس پورے کیمپس کا حصہ تھے۔ گرمیاں شروع ہوچکی تھیں، ایک دن کیا دیکھتے ہیں کہ ایک قافلہ وہاں وارد ہوکر اس مہمان خانے میں فروکش ہوا۔ ایک کار میں سے ایک بزرگ انگریزوں کے زمانے والا خاکی ہیٹ لگائے ہوئے ایک کار میں سے اترے اور بنگلے کے اندر چلے گئے۔ خدام ان کے آگے پیچھے تھے، بالکل نوابوں کا سا انداز تھا، کوئی مالی، کوئی باورچی، کوئی خادم خاص معلوم ہوتا۔ ان میں سے ایک صاحب باریش مولوی صاحب بھی معلوم ہوتے تھے۔ ہم نے کچھ جاننے کی کوشش نہیں کی۔ نواب صاحب کے علاوہ بقیہ لوگ اندر باہر آتے جاتے نظر آتے۔ پھر دیکھا کہ بازار میں مختلف دکانوں پر مولوی صاحب کی نشست و برخاست بڑھنے لگی۔ میرا آنا جانا گورکھپور بھی تھا تو دیکھا کہ انہی لوگوں میں سے کوئی ان ٹرینوں میں بھی چلا کرتا لیکن ہر اسٹیشن پر ایک ڈبے سے اتر کر دوسرے ڈبے میں جاتا اور لوگوں سے بے تکلفانہ بات چیت کرتا رہتا۔ پھر کچھ دنوں بعد دیکھا کہ بازار کا ایک بڑا کاروباری جو پنجابی تھا اور سردار کہلاتا تھا وہاں آنے جانے لگا۔ مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے ۔ لمبا چوڑا آدمی تھا، پنجابی اسٹائل کا کرتا، اور لنگی پہنتا۔ بازار میں لوگوں سے ہنسی ٹھٹھا کرتے میں نے اس کو اکثر دیکھا تھا۔ پھر ایک دن یہ خبر اڑی کہ سردار گرفتار ہوگیا۔ چھوٹے سے قصبے میں ایک مشہور کاروباری کی گرفتاری بڑی خبر تھی لیکن اگلے دن صبح کو دیکھا کہ نواب صاحب ایک پولیس افسر کی پوری وردی میں ملبوس بنگلے سے نکلے اور گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے پھر پورا طائفہ غائب ہوگیا۔

قصہ یہ تھا کہ دیوریا بازار میں ایک رکشے والا تھا اس کے ماں باپ مرچکے تھے۔ اس کی ایک چھوٹی بہن تھی یہ دونوں بھائی بہن ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں رہا کرتے تھے، کچھ دنوں سے سردار نے ان سے ربط ضبط بڑھا لیا تھا۔ اور رکشے والے کی مالی مدد بھی کرنے لگے تھے۔ ایک روز اس نے اپنی بہن سے کہا کہ ایک کام کی تلاش میں باہر جارہا ہوں دو روز میں آؤں گا لیکن وہ پھر کبھی واپس نہیں آیا۔ اس کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ سردار نے اس دکھیاری بہن کی دلجوئی کی اور بہت مہربان ہوگیا۔ کوئی دوہفتے بعد اسٹیشن سے کچھ دور ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع ایک اندھے کنویں کے پاس کچھ بچے کھیلتے ہوئے پہنچ گئے تو انھیں بڑی بدبو معلوم ہوئی جھانک کر دیکھا تو اس میں کسی آدمی کی لاش معلوم ہوئی۔ان بچوں نے بھاگ کر اپنے گاؤں کے لوگوں کو بتایا۔ لوگوں نے آکر لاش نکالی جو بہت خراب ہوچکی تھی۔ اس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے اور چہرے پر تارکول ملی ہوئی تھی۔ پولیس کواطلاع ہوئی لاش کی شناخت کی گئی وہ اس رکشتے والے کی لاش تھی، جو اپنی بہن سے دو روز بعد واپسی کا وعدہ کرکے کسی کام کی تلاش میں چلا گیا تھا۔ پولیس نے تفتیش شروع کی۔ غالباً خفیہ محکمہ کا وہ عملہ تھا جو نواب صاحب اور ان کے طائفے کی شکل میں وارد ہوا تھا۔ انہی دنوں میں نے دیوریا چھوڑ دیا معلوم نہیں سردار کا کیا ہوا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146