کلکتہ کے فائیواسٹار ہوٹل میں ایک کمرے کی گھنٹی کی آواز سن کر امریکی ڈاکٹر دروازہ کھولنے لگا۔
’’کون؟‘‘
’’میں رام دین ہوں صاحب!‘‘
’’تم آگئے؟ آئو میں تمھارا ہی انتظار کر رہا تھا۔‘‘
’’اگر آپ تیار ہیں تو چلیے۔‘‘
’’ہاں چلو، کیا پورے ۵۰ کا انتظام ہو گیا؟‘‘
’’ہاں، صاحب۔ سو یا ہزار بھی ہوتے تو یہاں کیا کمی ہے؟‘‘
’’تو چلو۔‘‘
وہ دونوں کمرے سے نکل کر باہر ہوٹل کے پورچ میں پہنچے تو امریکی ڈاکٹر کا ڈرائیور اسے دیکھ کر کار وہیں لے آیا۔ امریکی ڈاکٹر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا اور رام دین آگے ڈرائیور کے ساتھ۔
’’کہاں چلنا ہے؟‘‘
’’چائو رنگی۔‘‘
’’کیا یہ نام کسی بہت بڑے مردہ خانے کا ہے؟‘‘
’’نہیں… ہاں، یہی سمجھ لیجیے صاحب۔‘‘
’’چلو، ڈرائیور۔‘‘
ڈرائیور نے گاڑی کو اسٹارٹ کیا تو وہ پہلے تو کسی روح کے مانند کھی کھی ہنس پڑی اور پھر گویا کھڑے کھڑے ہوٹل کے باہر آگے سڑک پر اْڑنے لگی۔
’’تم نے واقعی کمال کردیا رام دین، ایک دم پورے ۵۰ کا انتظام کردیا۔‘‘
’’ہمارے دیس میں بڑی سے بڑی ضرورت کا بھی ایک دم انتظام ہو جاتا ہے، بس آپ کی جیب میں پیسے ہوں۔‘‘
’’فکر مت کرو، مال ملتے ہی دام چکا دیے جائیں گے۔‘‘
’’نہیں صاحب، پیسوں کی مجھے فکر نہیں، آپ کے ملک سے میرا پرانا لین دین ہے۔ مجھے معلوم ہے امریکی بڑے کھرے اور زندہ لوگ ہوتے ہیں۔‘‘
’’یہی تو ہم ڈاکٹروں کی مصیبت ہے، ہمارے دیس میں کسی کے مرنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔‘‘
’’لیکن مرنے والے تو مرتے ہی ہوں گے؟‘‘
’’نہیں مرنے کا ارادہ کرکے بھول جاتے ہیں۔‘‘
’’ہہ…ہہ… ہا… ہہ… ہمارے ڈاکٹر تو ہر وزٹ کی فیس ساتھ ساتھ چارج کرلیتے ہیں کہ اگلے وزٹ سے پہلے ہی مریض چلتا نہ بنے۔‘‘ ’’ہاں جہاں اموات اتنی عام ہوں وہاں ڈاکٹر کیا کریں؟ چھوٹے چھوٹے بل وصول کرنے کے لیے کیا وہ مُردوں کے پیچھے ہو لیا کریں؟‘‘ امریکی ڈاکٹر کی نگاہ باہر کے لوگوں کے سیلاب پر اْٹھ گئی اور وہ جھرجھری سی لے کر رہ گیا۔ کسی کے چہرے پر شخصی زندگی کے آثار نہ تھے۔ سب ہی اپنے آپ اِدھر اْدھر آ جا رہے تھے۔ ایک دوسرے سے بے خبر و بے نیاز، لیکن نہ جانے کہاں… اُن کی آنکھیں انھیں کچھ بتائے بغیر دیکھ رہی تھیں۔ پائوں اَز خود اُٹھ رہے تھے۔ اتنا شوروشغب تھا مگر انھیں کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ ڈاکٹر نوٹ بک اور قلم نکال کر لکھنے لگا۔
۱۵ جون۱۹۷۵ء کلکتہ کی ایک سڑک ، سڑک پر لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ ہیں مگر تعجب ہے کہ کسی میں بھی زندگی کے آثار نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ قبروں میں ان کا دَم گھٹنے لگا اور سب کے سب باہر نکل آئے یا باہر آکر تھک ہار گئے اور اب قبروں کی طرف لوٹ رہے ہیں… وہ لکھتے ہوئے رْک گیا اور کار کے باہر گھورنے لگا۔ کیا یہ لوگ واقعی زندہ ہیں؟ اس سانحہ کی طبی نوعیت تک پہنچنے کے لیے وہ بڑی جوش آفریں متانت سے سوچ رہا تھا۔ ہاں، کیوں نہیں؟ اگلے مہینے میں اپنے یہاں ڈاکٹروں کی کانفرنس میں بڑی سنجیدگی سے یہ سوال اٹھائوں گا… عین ممکن ہے کہ… نہیں، نہیں کیوں؟ ہو سکتا ہے کہ انسانی مشین بدستور چلتی رہے مگر انسان مر چکا ہو۔
ہاں… اسے ثابت کیا جا سکے تو… نہیں، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ پھر باہر دیکھنے لگا… نہیں، جب ہو ہی گیا ہے تو کیسے نہیں ہو سکتاَ… وہ مسکرانے لگا۔ سامنے چوک میں وہ میکانیکی سرخ بتی آجانے پر ڈرائیور نے پٹری کی جانب اپنی قطار میں گاڑی روک لی اور ڈاکٹر چہروں کی بھیڑ میں کسی ایک پر نظر جمانے کی کوشش کرنے لگا مگر طغیانی میں آنکھیں کہاں ٹِک پاتی ہیں؟ اسی اثنا میں اس کی گاڑی کے قریب سے چند لوگ گزرنے لگے۔ اس نے اپنا سر کھڑکی کی طرف بڑھا کر ان کی طرف مسکرا کر دیکھا مگر وہ اس سے، ایک دوسرے سے، اپنے آپ سے بھی قطعی بے خبر چلتے گئے… گرین لائٹ آتے ہی کار حرکت میں آگئی۔ ’’ان لوگوں میں سے کوئی شخص مجھ سے اپنی موت کا سرٹیفکیٹ طلب کرے تو؟ ہاں کیوں نہیں تو اسے اپنی موت کا سرٹیفکیٹ طلب کرنے کا حق حاصل ہے یا پھر کسی موت کا قانونیسرٹیفکیٹ دینے سے پہلے کسی طرح کا طبی معا ینہ صحیح ہوگا؟‘‘
ڈاکٹر نے اپنے خطیبانہ سوال سے بے چین ہو کر سگریٹ سلگا لیا، لیکن شاید سگریٹ نوشی کے خطرناک نتائج پر کسی مقالے کا اچانک خیال آجانے پر اْسے فوراً بجھا دیا اور سیٹ پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
’’صاحب… !‘‘
’’ہاں۔ !‘‘ ڈاکٹر نے اپنے خیالات سے چونک کر جواب دیا۔
’’وہ… اُدھر… وہ پٹڑی ہے نا، کوئی پون گھنٹہ پہلے کی بات ہے کہ میں یہاں سے گزر رہا تھا… وہ … وہاں اُس ستون کے پاس پڑی ہوئی ایک لاش یک بارگی اْٹھ کھڑی ہوئی اور چلانے لگی۔ سنو! ارے بھئی! مگر کسی نے اْس کی طرف دھیان نہ دیا اور وہ زور سے چلانے لگی۔ ایک لاش تم سے مخاطب ہے لوگو! سنو، لوگ اس کی طرف دیکھے بغیر اپنی اپنی راہ چلتے رہے۔‘‘
’کیا یہ نہیں ہو سکتا رام دین، جسے تم لاش کہہ رہے ہو ساری بھیڑ بھاڑ میں صرف وہی زندہ ہو اور باقی سارے کے سارے مُردہ؟‘‘ ’’مگر صاحب، ان باقی سب میں تو میں بھی تھا، اگر آپ میرا فری میڈیکل ٹیسٹ کرنے پر رضامند ہیں تو بے شک اطمینان کر لیجیے، میں تو زندہ ہوں۔‘‘ ’’تو پھر تم ہی اس لاش کی مدد کرنے کے لیے رک گئے ہوتے۔‘‘
’’کیسے رُک جاتا؟ مجھے عین وقت پر آپ سے ہوٹل میں ملنا جو تھا۔‘‘
’’پورے ۵۰کا انتظام کرکے آئے ہو نا؟‘‘
’’ہاں صاحب، کہہ دیا ناں پورے۵۰ کا۔ آپ چاہیں تو پورے ۱۰۰ بھی خرید سکتے ہیں۔‘‘
’’ویری گڈ!… اچھا بتائو، بھلا وہ لاش کہنا کیا چاہ رہی تھی؟‘‘
’’صرف یہ کہ مجھے دم توڑے ۶ گھنٹے سے بھی اوپر ہو لیے ہیں، کوئی خدا کا بندہ مجھ پر رحم کھائے اور کسی قبرستان کی راہ پر ڈال آئے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر کیا؟ کسی نے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ بے چاری مایوس ہو کر آپ ہی اپنے لیے کوئی قبرستان ڈھونڈنے کہیں نکل گئی ہوگی۔‘‘
’’مگر کیا وہ لاش سچ مچ کی لاش تھی؟‘‘
رام دین ہنسنے لگا ’’آپ اتنے پہنچے ہوئے ڈاکٹر ہیں صاحب۔ آپ کو کیسے سمجھائوں کہ لاش ہوگی تو سچ مْچ کی ہی ہوگی۔‘‘
’’ہاں… ہاں، اس میں کیا شک ہے؟‘‘
امریکی ڈاکٹر کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ کیا سوچے، اس لیے سوچے بغیر وہ رام دین سے پوچھنے لگا، ’’کیا تمھارے یہاں موت کا سرٹیفکیٹ لینا ضروری نہیں۔‘‘
رام دین پھر ہنس پڑا ’’آپ امریکی لوگ اتنے سمجھدار ہوتے ہیں صاحب پھر بھی بھولے کے بھولے۔ اس لاش کو کوئی قبرستان کے راستے پر بھی نہیں ڈال رہا تھا۔ غریب موت کے سرٹیفکیٹ کے لیے دفتروں کے چکر کہاں کاٹتی پھرتی، یا پھر رشوت دے کر زندگی میں ہی سرٹیفکیٹ حاصل کرلیتی مگر رشوت کے پیسے ہوتے تو ان سے دوا دارو کرلیتی، اس کو مرنا ہی کیوں ہوتا؟‘‘
رام دین کے مذاق کا لہجہ ڈاکٹر کو بھونڈا بھی لگ رہا تھا اور دلچسپ بھی۔ ’’آپ شاید سوچ رہے ہیں صاحب! کہ سرٹیفکیٹ کے بغیر بھلے آدمی کو پتا کیسے چل گیا کہ اس کی موت واقع ہو چکی ہے۔‘‘ ’’ہاں، ہمیں تو کسی کے مرنے کا یقین اْسی وقت آتا ہے جب اْس کی موت کی ڈاکٹری تصدیق ہوجائے۔‘‘ ’’آپ کی بات اور ہے صاحب! ہمارے سارے سرٹیفکیٹ جعلی ہوتے ہیں، اس لیے ہمیں اپنی موت پر اسی وقت یقین آتا ہے جب ہم آپ ہی محسوس کرنے لگیں کہ ہم مر چکے ہیں… ڈرائیور، اب یہاں سے بائیں مڑجائو، ہمیں اس گلی میں آنا تھا۔‘‘
’’تم لوگ اپنے ہسپتال اتنی تنگ اور گندی گلیوں میں کیوں بنواتے ہو؟‘‘
’’یہاں ہسپتال نہیں ہے۔‘‘
’’مگر مردہ خانہ تو ہسپتال کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔‘‘
’’آپ آئیے تو صاحب، ہمارے غریبوں کو دواخانے اور مردہ خانے کہاں نصیب ہوتے ہیں؟‘‘
ٹھہر جائو، ڈرائیور! بس یہیں!‘‘
گاڑی رک گئی۔
امریکی ڈاکٹر نے دیکھا کہ کئی پھٹے حال بوڑھے، جوان اور بچے گلی میں ایک طرف قطار باندھے کھڑے ہیں۔
’’یہاں کہاں لے آئے ہو؟‘‘
’’جہاں ہمیں آنا چاہیے تھا۔‘‘ رام دین گاڑی سے نکلتے نکلتے بات پوری کرنے کے لیے رْک گیا۔
’’آپ کے پاس آنے سے پہلے میں ہی انھیں یہاں کھڑا کرگیا تھا۔‘‘
’’مگر میں نے تو مُردوں کا آرڈر دیا تھا۔‘‘
’’غور سے دیکھیں صاحب، کیا یہ لوگ آپ کو زندہ معلوم ہوتے ہیں؟‘‘
’’مجھے یہ مذاق پسند نہیں، رام دین۔‘‘
’’میں مذاق نہیں کر رہا صاحب! مردوں کو تو اپنے مر چکنے کا احساس بھی نہیںہوتا مگر انھیں غور سے دیکھیں، ہر ایک کو پورا احساس ہے کہ وہ مر چکا ہے۔‘‘
امریکی ڈاکٹر گھبرا کر ان مفلوک الحال لوگوں کی طرف دیکھنے لگا۔
‘’’عجیب آدمی ہو! میں نے تو کہا تھا ہمیں اپنے ملک میں طبی تجربوں کے لیے ۵۰ مُردوں کی ضرورت ہے۔‘‘ رام دین ہنسنے لگا ’’نہیں صاحب! مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ اتنی دور سے قبریں کھدوانے کے لیے آئے ہیں۔ میں نے تو سوچا تھا ساری دنیا کے لوگ ہمارے دیس سے آدمی لے جاتے ہیں، آپ کو بھی ان سے کوئی ایسا کام لینا ہوگا جو صرف مرے کھپے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔‘‘ رام دین اپنی ململ کی ٹوپی اتار کر سر کھجانے لگا۔
’’ایک بات کہوں صاحب؟… ان سب کو آج کل میں مر ہی جانا ہے۔ بہت سے تو راستے میں جہاز پر ہی دم توڑ دیں گے، ان کی شکلیں دیکھیں اور بتائیں، کیا میں غلط کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’تم کہنا کیا چاہ رہے ہو؟‘‘
’’میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ چپکے سے ان ہی کو لے جائیے۔‘‘
’’بکواس بند کرو اور صاف صاف بتائو کیا تم ۵۰ مُردے… سچ مْچ کے مردے مہیا کر سکتے ہو؟‘‘
رام دین نے سر کھجا کر اپنی ٹوپی پھر اْسی جگہ پر سجا لی۔
’’آپ کی میڈیکل سائنس تو ہماری سائنس سے بہت آگے نکل چکی ہے صاحب! آپ خود ہی ان سب کو ٹھونک بجا کر معاینہ کر لیجیے، آپ کو یقین آجائے گا کہ یہی سچ مْچ کے مُردے ہیں۔ ٹھہریے میں آپ کو موٹے طریقے سے سمجھاتا ہوں۔‘‘ رام دین گاڑی سے نکل کر اْس قطار کی طرف آگیا اور کچھ بولے بغیر اس نے ایک آدمی کے منہ پر زور سے تھپڑ دے مارا۔ اُس آدمی نے نہ مدافعت کی نہ گالی بکی، بس چْپ چاپ جوں کا توں کھڑا رہا، گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
رام دین فاتحانہ چال چل کر واپس امریکی ڈاکٹر کے پاس آکھڑا ہوا۔
’’کیا اب بھی آپ کو یقین نہیں آیا کہ یہ سب کے سب ۱۰۰ فیصد مردے ہیں۔‘‘
امریکی ڈاکٹر نے سراسیمہ خفگی کے ساتھ اپنے ڈرائیور کو مخاطب کیا ’’واپس چلو، ڈرائیور!‘‘
’’ٹھہرئیے صاحب! میری مانیں اور انھیں لے جائیں۔ آپ جیسا تجربہ کرنا چاہتے ہیں، اطمینان سے ان ہی پر کر لیجیے۔ ٹھہرو ڈرائیور! پیسے چاہیں تو اپنی تسلی کے بعد ادا کیجیے صاحب۔‘‘
’’چلو ڈرائیور!‘‘
’’اس میں آپ ہی کا فائدہ ہے صاحب، ویسے مُردے ہوتے تو آپ کا کارٹیج کا خرچ الگ ہوتا۔ یہ بے چارے تو آپ ہی اپنا سارا بوجھ اْٹھا کر جہاز پر سوار ہو جائیں گے۔‘‘
’’چلو ڈرائیور!‘‘
امریکی ڈاکٹر کی گاڑی آگے بڑھ گئی تو رام دین ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’بڑے بدقسمت ہو، اگر تم واقعی مرچکے ہوتے تو بڑے ٹھاٹ سے امریکہ جا پہنچتے۔
——