کئی مہینوں کی لڑائی کے بعد دشمن نے دریا کے مغربی کنارے کے پار اپنے مورچے بنا لیے۔ اس مغربی علاقے میں وہ لوگ بھی آباد تھے جو اپنے آپ کو دشمن کی موجودگی میں محفوظ نہ سمجھتے تھے۔ ان کی چھوٹی چھوٹی کھیتیاں اور باغ دریا کے مشرق کی طرف تھے۔ ان کی دیکھ بھال کے لیے وہ ہر روز یہاں چلے آتے۔ کچھ لوگ مشرق کی طرف رہنے والے اپنے عزیزوں کے پاس چلے آئے۔
ایک صبح کا ذکر ہے، بہت سے لوگ دریا کے مشرقی کنارے کی طرف جانے کے لیے دریا کے گھاٹ پر بیٹھے تھے۔ جنگ کی وجہ سے کشتیوں کی کمی تھی۔ زیادہ تر کشتیاں دونوں طرف سے فوجیوں نے لے لی تھیں۔ صرف ایک کشتی مسافروں کو دریا پر آنے جانے کے لیے موجود تھی۔ آج یہ کشتی بھی فوجی سامان کو لے کر مشرقی گھاٹ کی طرف گئی ہوئی تھی۔ اس کی واپسی کے انتظار میں لوگ تھک ہار کے جھاڑیوں اور چھوٹے چھوٹے درختوں کے نیچے بیٹھ گئے تھے۔
لوگوں کے ہجوم سے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایک عورت کے بین کرنے کی آواز سنائی دیتی، اس آواز میں کبھی ایک مردانہ آواز بھی شامل ہوجاتی۔ یہ آواز یہاں کے لوگوں اور گھاٹ پر موجود فوجیوں کے لیے کوئی نئی نہ تھی۔ گزشتہ کئی سالوں کی لڑائی کے دوران بے شمار انسانوں کی موت ہوئی۔ ان میں زیادہ تر نوجوان تھے۔ کوئی گھر ایسا نہ بچا تھا، جس کا بیٹا یا باپ مارا نہ گیا ہو۔
کشتی واپس مغربی گھاٹ پر آگئی۔ کشتی کے ملاح کے برابر ایک فوجی حوالدار بیٹھا تھا۔ گھاٹ پر موجود کیپٹن نے سو مسافروں کو مشرقی گھاٹ کی طرف لے جانے کا حکم دیا۔ حکم سنتے ہی لوگ کشتی پر سوار ہونے لگے۔ بین کرنے کی آوازیں، جو کچھ دیر کے لیے رک گئی تھیں، اچانک پھر سے بلند ہونے لگیں۔ کسانوں کا ایک ہجوم کشتی پر سوار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہجوم میں عورتیں، مرد اور ان کے ڈھور ڈنگر بھی شامل تھے۔ اس ہجوم میں ایک ادھیڑ عمر کسان اور اس کی بیوی کافی نمایاں تھے۔ یہ دونوں وہی تھے، جو صبح سے بین کر رہے تھے۔ کسان کا قد لمبا اور جسم دبلا تھا، داڑھی کافی لمبی اور گھنی تھی۔ اس نے صاف ستھرا لباس پہن رکھا تھا۔ اس نے گھوڑے کی لگام تھام رکھی تھی۔ گھوڑا ایک چھوٹے سے چھکڑے کے ساتھ جتا ہوا تھا۔ کسان کی خواہش تھی کہ کشتی پر اس گھوڑا گاڑی کو لاد کر دریا کے پار جائے۔ ایک کپتان لوگوں کو کشتی پر سوار کر رہا تھا۔ کسان نے اس کے سامنے بڑے اد اس لہجے میں گھوڑا گاڑی کو دریا کے اس پار لے جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اداسی کی وجہ گھوڑا گاڑی پر رکھا تابوت تھا۔ یہ تابوت بالکل نیا تھا۔ تابوت کے ساتھ کسان کی ادھیڑ عمر بیوی، سر اور منہ لپیٹے بیٹھی تھی۔ اس نے اپنا بازو تابوت کے اوپر رکھا ہوا تھا، جیسے اسے خوف ہو کہ کوئی اس سے تابوت چھین نہ لے۔ عورت کچھ دیر کے بعد بین کرنا شروع کردیتی اور بین کرتے ہوئے اپنا ہاتھ آہستہ آہستہ تابوت پر پھیرنے لگتی۔ ’’ بیٹے میرے دکھ کے اس بوجھ کو کم کرنے میں میری مدد کرو۔‘‘ کسان نے کیپٹن سے کہا۔ عورت نے جب اپنے خاوند کو کیپٹن سے بات کرتے دیکھا، تو پھر بین شروع کردیے۔ کیپٹن نے ہمدردی میں سر ہلایا۔ کسان آہستہ آہستہ گھوڑا گاڑی کو کشتی کے قریب لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ کیپٹن نے نرمی سے کہا:
’’چچا، یہ کام مجھ پر چھوڑ دو، مجھے گھوڑوں کو سنبھالنے کا طریقہ آتا ہے… ان ہی گھوڑوں میں پلا بڑھا ہوں۔‘‘ کیپٹن نے گھوڑے کی باگیں کسان کے ہاتھ سے پکڑیں، اونچی آواز میں لوگوں کو گھوڑا گاڑی کے لیے جگہ بنانے کو کہا اور نہایت تیزی کے ساتھ گھوڑ اگاڑی کشتی کے اوپر لے آیا۔ کسان نے کیپٹن کا شکریہ ادا کیا۔ کیپٹن نے باگیں کسان کے سپرد کیں اور ساتھ ہی پوچھا:
’’چچا، اس تابوت میں تمہارا کون ہے؟‘‘
’’کیا بتاؤں‘‘ کسان نے دکھ بھرے لہجے میں کہا: ’’پہلے اس جنگ نے میرے دو بیٹے کھالیے، یہی ایک رہ گیا تھا، بڑھاپے کا سہارا، سو یہ بھی چلتا بنا، موت… اور یہ جنگ کس قدر ظالم ہیں۔‘‘
’’جنگ زیادہ تر جوانوں کا خون ہی پسند کرتی ہے۔ ابھی جانے کتنی ماؤں کی گود اجڑنی باقی ہے۔‘‘ کیپٹن نے کہا اور اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
ایک شخص بڑے غور سے گھوڑا گاڑی پر رکھے تابوت کو دیکھ رہا تھا، اس نے کسان سے مخاطب ہوکر کہا: ’’کیا تم بیٹے کی لاش محاذ سے لائے ہو۔‘‘
’’ہاں، دو روز پہلے محاذ پر بیٹے سے ملنے گیا تھا، اس کے لیے صاف کپڑے، کھانا اور سگریٹ وغیرہ لے گیا تھا۔‘‘ اسی دوران وہ کچھ دیر کے لیے رکا۔ اس کی بیوی اچانک پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ کسان نے نظریں اپنی بیوی پر جما رکھی تھیں۔ اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
’’محاذ پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ میرا اکلوتا بیٹا… جو صرف بیس برس کا تھا، سر میں گولی لگنے سے مارا گیا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے کسان کی آواز ڈوب گئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ ’’ہمارا آخری سہارا بھی گیا۔‘‘
کشتی پر سب لوگ چپ چاپ اپنے اپنے خیالوں میں گم بیٹھے تھے، ماحول میں اداسی سی تھی۔ صرف کشتی چلانے والی موٹر کی پھٹ پھٹ اور پانی کی آواز آرہی تھی۔ ’’ہم بوڑھے، کسی کو کیا بتائیں کہ ہم لٹ گئے ہیں یہ… جنگ۔‘‘ کسان نے آنکھوں کو اپنی ہتھیلی کی پشت سے ملتے ہوئے کہا۔
’’میرا بیٹا بھی ایک ماہ پہلے مارا گیا تھا۔ میں اسے واپس نہیں لایا تھا۔ میں نے اسے اس کے ساتھیوں کے پہلو میں ہی دفن کر دیا تھا۔ فوجیوں کا یہی طریقہ ہے محاذ پر تابوت بھی تو نہیں ملتا، تم کو نہ جانے کہاں سے مل گیا؟‘‘ … سوال کرنے والے شخص نے کہا۔ کسان نے یہ بات نہ سنی کیوں کہ وہ اپنے پہلو میں بیٹھے ایک دوسرے شخص سے گفتگو کر رہا تھا، وہ کہہ رہا تھا:
’’مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ میں تابوت لے کر کہاں جاؤں گا۔ ادھر ہمارے دوست ہیں، سوچا ان ہی کے قبرستان میں دفن کر دیں گے۔
اسی دوران کشتی کنارے پر آپہنچی۔ لوگ اترنے کے لیے بے تاب ہو رہے تھے۔ کیپٹن سب سے پہلے گھوڑا گاڑی کے پاس آیا اور گھوڑے کی باگیں پکڑ کر اسے زمین پر لے آیا۔ کشتی سے اترنے والے سب لوگ ایک قطار میں کھڑے ہوگئے۔ گھاٹ پر ایک میجر، ایک میز کے سامنے بیٹھا تھا۔ کشتی سے اترنے والے ہر مسافر کو اپنے اجازت نامے اور ضروری شناختی کاغذات میجر کو دکھانے تھے۔ کیپٹن تابوت کے احترام کے لیے گھوڑا گاڑی کو میجر کی میز کے برابر لے آیا۔
’’اس میں کیا ہے؟‘‘ میجر نے پوچھا۔
’’میرا جوان بیٹا، جو جنگ میں مر گیا، اس کی لاش ہے۔‘‘ کسان نے کہا۔
’’اوہ ۔۔۔۔کتنی عمر تھی، اس کی؟‘‘ میجر نے پوچھا۔
’’بس ابھی جوان ہوا تھا۔‘‘ کسان نے کہا۔
’’مجھے سخت افسوس ہے کہ آپ کا بیٹا (سپاہیوں… سے مخاطب ہوکر) تابوت کو کھولو… جنگ کے زمانے میں پڑتال تو کرنا ہوگی۔ کہیں اسلحہ وغیرہ نہ ہو۔‘‘ میجر نے کہا۔
’’میجر صاحب، دیکھئے، ہم غم زدہ لوگ ہیں، ہم نے پہلے بھی دو بیٹے جنگ میں قربان کردیے… آپ کو ہم پر شبہ نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
’’یہ بات نہیں، ہم تابوت کی صرف ایک تختی کھول کر تسلی کرلیں یہ… ہماری ڈیوٹی ہے۔ اس میں آپ ہی کا بھلا ہے آپ کو پتہ ہے کہ دشمن کس طرح کے حربے اختیار کر کے ہمارا نقصان کرتا ہے۔‘‘ میجر نے نرمی سے کہا۔ سپاہیوں نے تیزی سے تابوت کو نیچے اتارا، کسان کی بیوی یہ دیکھ کر بہت بڑی طرح رونے لگی۔ کسان نے پھر میجر کی منت سماجت شروع کر دی اور اسے تابوت کھولنے سے باز رکھنے کی کوشش کرنے لگی۔ میجر نے کسان کی باتوں پر کوئی توجہ نہ دی اور لوگوں کے کاغذات کی پڑتال میں مصروف رہا۔ سپاہیوں نے سر کی طرف سے تابوت کی ایک تختی اکھیڑ دی۔ اسے تابوت سے ہٹایا گیا۔ سب … سپاہی، کیپٹن اور میجر یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ تابوت کے اندر کوئی لاش نہیں بلکہ ایک جیتا جاگتا، زندہ نوجوان لیٹا ہوا تھا۔ سب لوگ کچھ لمحوں کے لیے حیرت سے کھڑے رہے۔ تابوت کے اندر نوجوان کا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ اس کے سنہری بال بھیگ کر اس کے ماتھے سے چپک گئے تھے۔ وہ انیس بیس برس کا سرخ و سفید اور خوب صورت نوجوان تھا۔ تابوت میں روشنی کے داخل ہوتے ہی اس نے اپنی سبز آنکھیں بند کرلیں۔ میجر اور کیپٹن کو دیکھ کر اس نے اٹھنے کی کوشش کی اور شرمساری سے مسکرایا۔ میجر نے بڑے غصے میں کسان اور اس کی بیوی کی طرف دیکھا اور کہنے لگا:
’’یہی ہے وہ تمہارا سپاہی بیٹا!‘‘
’’ہاں‘‘… کسان نے سر ہلایا۔ ’’یہ میرا واحد بیٹا ہے، جو بچا ہے۔ میرے دو نوجوان بیٹے پہلے ہی جنگ میں مارے جاچکے ہیں۔‘‘
’’بھگوڑا۔۔۔!‘‘ میجر نے اپنے جبڑے کستے ہوئے کہا۔
…’’ نہیں، میں اسے مرنے نہیں دوں گا۔ یہی ہمارے برھاپے کا سہارا ہے اسی … سے ہماری نسل آگے بڑھنی ہے۔‘‘ کسان نے اونچی آواز میں بڑے یقین سے کہا۔ اسی دوران بہت سے مسافر تابوت کے گرد اکٹھے ہوگئے۔ میجر نے سپاہیوں سے کہا کہ وہ انہیں پیچھے ہٹا دیں۔ ماں تابوت کے پاس کھسک آئی اور جھک کر اپنے نوجوان بیٹے کی پیشانی سے پسینہ پونچھنے لگی۔ وہ اس کا حوصلہ بڑھا رہی تھی۔
’’میرے بچے، تو مت ڈر! میجر بہت مہربان ہے، وہ ہم میں سے ہے۔ ہمارا دشمن نہیں وہ ۔۔۔ ہمیں جانے دے گا۔‘‘ حوصلہ پاکر نوجوان تابوت میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ میجر نے اسے دوبارہ لیٹنے کا اشارہ کیا تو وہ گھبرا کر لیٹ گیا۔ میجر نے دائیں طرف کھڑے کیپٹن کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’اپنا فرض ادا کرو!‘‘
کیپٹن نے پھرتی سے اپنا پستول نکالا۔ اسی دوران دو سپاہی آگے آئے اور انہوں نے نوجوان کے باپ اور ماں کو تابوت سے الگ کر کے دور لے جاکر کھڑا کر دیا۔ کیپٹن نے جھک کر پستول کی نالی نوجوان کے دل پر رکھی اور گولی چلا دی۔ سب کچھ اتنی جلدی میں ہوا کہ ماں باپ کو کچھ سمجھ ہی نہ آئی۔ تابوت میں لیٹے نوجوان کو اس وقت معلوم ہوا، جب گولی اس کے دل سے گزر چکی تھی۔ اس کے حلق سے ایک بھیانک سی چیخ نکلی۔ اس کا جسم کمان کی طرح اوپر اٹھا، بازو اور ٹانگیں تڑپ تڑپ کر تابوت سے ٹکرائے اور پھر خاموش ہوگیا۔ اس کی سبز آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
ادھیڑ عمر کسان اور اس کی بیوی اپنے بچے کی چیخ سن کر تابوت کی طرف بھاگے، پھیلی پھیلی آنکھوں سے بیٹے کی لاش کو دیکھا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ میجر، کیپٹن اور دوسرے سپاہی، تابوت سے پیچھے ہٹ گئے۔ اسی طرح چند منٹ گزرے۔ میجر نے سر ہلا کر سپاہیوں کو اشارہ کیا۔ دو سپاہیوں نے کسان اور اس کی بیوی کو تابوت سے الگ کیا۔ تابوت کا ڈھکنا رکھ کر پھر سے کیل ٹھونک دی گئی۔ تابوت کو دو بارہ گھوڑا گاڑی پر رکھ دیا گیا۔
… ’’اب لے جاؤ اسے یہ تب بھی ایک لاش تھی اور اب بھی ایک لاش۔‘‘
ایک سپاہی نے گھوڑے کی باگیں، کسان کے ہاتھ میں دے دیں۔ وہ اور اس کی بیوی گھوڑا گاڑی کے ساتھ گھسٹتے چلے جا رہے تھے۔ دونوں بین کر رہے تھے۔ ان کو دیکھ کر کیپٹن نے کہا:
’’اب بھی اسی طرح رو رہے ہیں، جیسے پہلے رو رہے تھے…!lll