دنیا میں ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی، ایران، ہند، مصر اور یورپ میں عالمگیر اندھیرا تھا۔ اس وسیع خطہ خاک پر گز بھر زمین نہیں ملتی تھی جہاں کوئی شخص خالص خدائے واحد کا نام لے سکتا۔ حضرت ابراہیم نے جب کلدان میں یہ صدا بلند کرنی چاہی تو آگ کے شعلوں سے سابقہ پڑا۔ مصر آئے تو ناموس کو خطرہ کا سامنا ہوا، فلسطین پہنچے، کسی نے بات تک نہ پوچھی۔ خدا کا جہاں نام لیتے تھے وہیں شرک اور بت پرستی کے غلغلہ میں آواز دب جاتی تھی۔ حضرت ابراہیم، حضرت ہاجرہ اور اسماعیل کو عرب میں لائے اور ان کو یہیں آباد کیا۔ حضرت اسمعیل علیہ السلام جوان ہوچکے تھے۔ اعلان حق میں ایک ہم آواز ہاتھ آیا۔ دونوں مل کر ایک چھوٹے سے چو کھونٹے گھر کی بنیاد ڈالی۔
ترجمہ: ’’ٍاور جب کہ ابراہیم و اسمعیل خانہ خدا کی دیواریں اٹھا رہے تھے۔‘‘ (بقرہ:۱۵) گھر بن چکا تو وحی الٰہی نے آواز دی: ’’اور جب کہ ابراہیم و اسمعیل خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے۔ ہمارا گھر طواف کرنے والوں، نماز میں قیام کرنے والوں، رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک کرو پکارو کہ حج کو آئیں۔‘‘ (حج:۴)
اس وقت اعلان و اشتہار کے وسائل نہیں تھے۔ ویران جگہ تھی اور آدمی کا کوسوں تک پتہ نہ تھا۔ ابراہیم علیہ السلام کی آواز حدود حرم سے باہر نہیں جاسکتی تھی۔ لیکن وہی معمولی آواز کہاں کہاں پہنچی، مشرق سے مغرب تک، شمال سے جنوب تک اور زمین سے آسمان تک۔
عمارت بن چکی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل سے کہا کہ ایک پتھر لاؤ تاکہ ایسے مقام پر لگا دیں جہاں سے طواف شروع کیا جائے۔
خدا کا یہ گھر ایسا سارہ تعمیر ہوا تھا کہ نہ چھت تھی، نہ کواڑ اور نہ چوکھٹ جب قصی بن کلاب کو کعبہ کی تولیت حاصل ہوئی تو انہوں نے قدیم عمارت گر اکر نئے سرے سے تعمیر کی اور کھجور کے تختوں کی چھت پڑی۔
کعبہ کی برکت اور کشش سے لوگ آس پاس آباد ہونے لگے، چناں چہ سب سے پہلے قبیلہ جرہم آکر آباد ہوا۔ اس قبیلہ میں مضاض بن عمرو جرہمی ایک ممتاز شخص تھے۔ حضرت اسمٰعیل نے ان کی لڑکی سے شادی کی ان سے بارہ اولاد ہوئی۔ حضرت اسمٰعیل کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے نابت کعبہ کے متولی ہوئے۔ ان کے مرنے کے بعد ان کے نانا مضاض نے یہ منصب حاصل کیا۔ اور کعبہ کی تولیت خاندان اسمٰعیل سے نکل کر جرہم کے خاندان میں آگئی۔ پھر ایک قبیلہ خزاعہ نے کعبہ پر قبضہ کرلیا اور مدت تک اسی خاندان میں یہ منصب رہا۔ حضرت اسمٰعیل کا خاندان موجود تھا۔ لیکن اس نے کچھ مزاحمت نہیں کی، قصی بن کلاب کا زمانہ آیا تو انہوں نے اپنا آبائی حق حاصل کیا۔
حرم کعبہ پر سب سے پہلے جس نے پردہ چڑھایا وہ یمن کا حمیری بادشاہ اسعد تبع تھا۔ یمن میں خاص قسم کی چادریں بنائی جاتی ہیں، جن کو برد یمانی کہتے ہیں۔ یہ پردہ انہی چادروں سے تیار کیا گیا تھا۔ قصی بن کلاب کے زمانے سے تمام قبائل پر ایک محصول لگا دیا گیا جس سے پردہ تیار کیا جاتا تھا۔ علامہ ازرقی نے لکھا ہے کہ آں حضرتؐ نے بھی یمنی پردہ چڑھایا تھا۔
خدا کا گھر سیم و زر کی نقش آرائیوں کا محتاج نہ تھا۔ لیکن دولت اور ملک کی ترقی کے یہ لوازم ہیں۔ اس لیے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے کعبہ کے ستونوں پر سونے کے پتر چڑھائے۔ عبد الملک بن مروان نے اپنے زمانہ میں (۳۶) ہزار اشرفیاں اس کام کے لیے بھیجیں امین الرشید نے (۱۸) ہزار اشرفیاں نذر کیں کہ دروازہ کی چوکھٹ وغیرہ طلائی بنوا دی جائے۔ تاریخ مکہ میں عہد بہ عہد کی طلائی کاریوں کی تفصیل لکھی ہے۔ لیکن یہ واقعات عہد نبوت کے بعد کے ہیں۔
خدا کا گھر بن چکا تو ضرورت تھی کہ اس کی تولیت اور خدمت کے لیے کوئی نفس قدسی تمام مشاغل سے الگ ہوکر اپنی زندگی اس پر نذر کر دے اس قسم کی نذر کو ابراہیمی شریعت میں قربانی سے تعبیر کرتے تھے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ آں حضرتﷺ پر وحی کی ابتدا خواب سے ہوئی۔ یہ خواب کبھی تمثیلی ہوتا ہے، جس طرح حضرت یوسف نے آفتاب و ماہتاب اور ستاروں کو سجدہ کرتے دیکھا تھا۔ بہرحال حضرت ابراہیم نے خواب میں بیٹے کی قربانی دیتے ہوئے دیکھا۔ اور انہوں نے اس کو حکم الٰہی سمجھا اور بعینہٖ اس کی تعمیل پر آمادہ ہوئے۔ بیٹے سے مخاطب ہوکر کہا: ’’بیٹا میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھ کو ذبح کر رہا ہوں بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے، بیٹے نے نہایت استقلال سے جواب دیا۔ ابا جان، ااپ کو جو حکم ہوا ہے وہ کر گزرئیے خدا نے چاہا تو میں ثابت قدم رہوں گا۔ (الصفت:۳)
بیٹے نے جس استقلال جس عزم اور جس حیرت خیز ایثار سے اپنے آپ کو قربانی کے لیے پیش کیا۔ اس کا صلہ یہی تھا کہ یہ رسم قربانی قیامت تک دنیا میں اس کی یادگار رہ جائے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی دنیا تک کے لیے قائم کر دیا۔ اس لیے اے مسلمانو! اپنے جانوروں کے گلوں پر چھری چلاتے ہوئے ذرا اسوۂ ابراہیمی پر بھی غور کیا کرو کہ اس موقعے پر خلیل اللہ کا اخلاص تھوڑا سا ہمیں بھی حاصل ہوجائے۔lll