امیر المومنین حضرت عمر ابن خطابؓ کا معمول تھا کہ رات جب تاریکی کی چادر پھیلا دیتی تو اندھیرے میں رعایا کے حالات معلوم کرنے کے لیے گشت کیا کرتے تھے۔
ایک روز دورانِ گشت چلتے چلتے آپ بہت دور نکل گئے۔ ویرانے میں آپ کو ایک خیمہ نظر آیا جس کے سامنے آگ جل رہی تھی اور ایک بدو سر کو جھکائے نہایت غم زدہ بیٹھا ہوا تھا، حضرت عمرؓ اس بدو کے قریب گئے۔ اور جاکر سلام کیا مگر بدو ایسا خاموش بیٹھا تھا کہ اس نے سلام کا جواب تک نہ دیا۔ حضرت عمرؓ نے سوچا کہ شاید اس نے میرے سلام کو ڈھنگ سے سنا نہیں۔ اس لیے پھر سلام کیا مگر بدو کی طرف سے دوسری اور تیسری دفعہ بھی خاموشی ہی رہی۔ آخر حضرت عمرؓ اس کی طرف بڑھے اور بدو سے پوچھا کہ آخر تم اس قدر پریشان کیوں ہو؟ بدو نے حضرت عمرؓ سے غصہ میں کہا کہ تم مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ اس لیے کہ میں تمہیں نہیں جانتا۔ اگر تم زیادہ بولو گے تو میں اسی وقت اپنی تلوار سے تمہاری گردن اڑادوں گا۔ حضرت عمرؓ نے بدو کو جب اس قدر طیش میں دیکھا تو بہت ہی نرمی سے فرمایا کہ اے میرے بھائی میں نے اس ویرانے میں جب آگ جلتے دیکھی تو تمہارے قریب آگیا تاکہ میں تمہاری کچھ مدد کرسکوں۔ آخر بدو کچھ نرم پڑا اور اس نے حضرت عمرؓ سے سوال کیا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو اور کیا کرتے ہو؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ میں مدینے کا رہنے والا ہوں اور میرا کام اللہ کے بندوں کی خدمت کرنا ہے پھر بدو نے حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ تم کس کے غلام ہو؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ میں صرف اور صرف مسلمانوں کا غلام ہوں۔ بدو اور امیر المومنین حضرت عمرؓ کے درمیان یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ خیمے سے کسی عورت کی کراہنے کی آواز آئی تو حضرت عمرؓ نے بدو سے پوچھا کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ کس کے کراہنے کی آواز آرہی ہے۔ بدو نے کہا کہ یہ میری بیوی ہے۔ ہم لوگ بہت دور سے آرہے ہیں ہماری منزل بہت دور ہے۔ یکایک میری بیوی کو دردِ زہ شروع ہوا ہے اور وہ تکلیف سے کراہ رہی ہے۔ ہم یہاں کسی کو جانتے بھی نہیں ہیں اس لیے میں بے حد پریشان ہوں۔
حضرت عمرؓ نے بدو کی یہ باتیں سنیں اور اس سے کہا کہ مجھے اجازت دو کہ میں کسی دائی کا انتظام کر کے آؤں۔ فوراً انہوں نے گھر جاکر اپنی بیوی کو حقیقت حال سے آگاہ کیا اور انہیں کچھ ضروری چیزوں کے ساتھ لے کر وہاں پہنچ گئے۔
حضرت عمرؓ کی بیوی خیمہ میں اندر چلی گئیں۔ پھر کیا تھا بدو ان سے بے تکلف ہوکر باتیں کرنے لگا۔ حضرت عمرؓ نے اسے کھانا پیش کیا۔ کھانے کے دوران بدو حضرت عمر سے سوال کرتا ہے کہ آپ کا اصلی وطن کون سا ہے؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ میرا اصلی وطن مکہ تھا۔ پھر دوسرا سوال کرتا ہے کہ کیا آپ کو رسول اللہؐ کی صحبت بھی حاصل ہوئی؟ حضرت عمرؓ نے مسکرا کر کہا کہ یہ شرف تو مجھے ہزاروں بار ہوا ہے۔ پھر بدو حضرت عمرؓ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ پھر تو آپ بڑے ہی خوش قسمت انسان ہو۔
آخر میں اس نے پوچھا کہ کیا آپ مدینے کے عمر کو جانتے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مزاج کے بڑے سخت آدمی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بدو سے کہتے ہیں ہاں اس میں ایک بڑا نقص ہے کہ وہ مزاج کا سخت ہے۔ آپ جو کہہ رہے ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے۔ بدو حضرت عمرؓ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ ایسے سخت دل آدمی کو لوگوں نے آخر اپنا خلیفہ کیسے چنا مجھے تو یہ بات بڑی کھٹکتی ہے۔ دونوں میں یہ باتیں ہو ہی رہی تھی کہ اندر خیمہ سے آواز آئی۔ امیر المومنین، امیر المومنین مبارک ہو! اپنے دوست کو مبارک باد دیجئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں لڑکا عنایت فرمایا ہے۔ بدو یکایک حیران و پریشان ہو جاتا ہے اور اپنے سخت رویہ پر معافی کا طلب گار ہوتا ہے۔
امیر المومنین حضرت عمرؓ اسے دلاسہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے کہ میں تمہارے کام آیا ورنہ کل خدا کو کیا منہ دکھاتا اور اس بدو کو مدینہ آنے کا کہہ کر چلے گئے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا تھا:
’’ تم میں سے ہر شخص راعی (ذمہ دار) ہے اور اس سے اس کے زیر دست لوگوں کے بارے میں سوال ہوگا۔ مرد ذمہ دار ہے اہل خانہ اور ان کی تربیت کا اور عورت ذمہ دار ہے شوہر کے مال اور اس کی اولاد کے سلسلے میں اور قیامت کے دن اس سے اس بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔‘‘
اس حدیث اور حضرت عمرؓ کے رویہ کی روشنی میں ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ اس لیے کہ ہم سے بھی قیامت کے دن سوال ہوگا۔ ہم میں کا ہر فرد اگر اپنی زندگی میں اپنی اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھائے تو خدا بھی خوش اور اس کے بندے بھی خوش۔ پھر یہ دنیا آن کی آن میں امن و سکون اور راحت و اطمینان کا گہوارہ بن جائے گی۔ کاش ہم اس پر سوچیں اور اپنی زندگی کو ویسا بنانے کی فکر کریں۔