علم انسان کا طرئہ امتیاز ہے۔ علم کے فروغ، سرپرستی اور اہلِ علم کی فضیلت کو اسلامی تعلیمات میں بہت اہمیت دی گئی ہے۔ سب سے پہلی وحی جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی آیت’’اقرأ‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔ جس سے تعلیم و تعلّم کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ’’ن۔ والقلم ومایسطرون‘‘ (ن۔قسم ہے قلم کی اور جو کچھ وہ لکھے۔) علم کے مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہیں۔ اہلِ علم کی فضیلت اور ان کا مقام بھی علم ہی کا مرہونِ منت ہے۔ نبیؐ کا اپنے آپ کو معلّمانہ حیثیت سے متعارف کروانا نیز ساری زندگی تعلیم و تعلّم کی مشقت برداشت کرنا، اس بات پر شاہد ہے کہ ’’علم اسلام کاایک طرئہ امتیاز ہے۔‘‘
امتِ مسلمہ جب تک علم کا دامن تھامے رہی قوموں کی امامت و قیادت کرتی رہی اور جب سے اس پر جہل طاری ہوا یہ پسماندگی و درماندگی کا شکار ہوکر محکوم و غلام بن گئی۔ آج جب کہ علم کے دھماکے کی وجہ سے دنیا کی دوڑ میں دوڑنے اور اپنے تشخص اور انفرادیت کا لوہا منوانے کاواحد ذریعہ علم ہی ہے۔ اس لیے امت کے اندر تعلیمی بیداری پیدا کی جائے۔ اس کے لیے چند مندرجہ ذیل باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
(۱) منفی سوچ کا خاتمہ: ملتِ اسلامیہ میں تعلیمی پسماندگی کا ایک سبب منفی سوچ ہے۔ اسے ختم کرکے عزم وحوصلہ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے، ہمت و محنت سے میدان سر کیا جاسکتا ہے۔
(۲) عدم وسائل کی قلت: تعلیم کو عام کرنے کی راہ میں ذرائع و سائل کی قلت کا شکوہ نہ کیا جائے کیونکہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ نامساعد حالات میں اور ذرائع و وسائل کی قلت کے باوجود مسجدِ نبویؐ کے باہر ایک چبوترہ نے اسلامی یونیورسٹی کا آغاز کیا تھا۔ کیونکہ صحابہ ؓ کے اندر حصولِ علم کا جذبہ بیدار ہوا تھا۔
(۳) معاشی لحاظ سے ملت کے پسماندہ طبقات پر توجہ دینا نہایت ضروری ہے۔اس کے لیے متمول طبقے کو آگے بڑھ کر تعلیمی میدان میں حصہ لینا چاہیے۔
(۴) آج ہمارا تعلیمی معیار گرتا جارہا ہے اس کی طرف خاص توجہ دی جائے اور تعلیمی اداروں کی اخلاقی گراوٹ اور برائیوں کو دور کیا جائے۔
(۵) ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ تعلیم کو امت کے اندر بلا امتیاز جنس عام اور مروج کیا جائے۔ ہماری خواتین آج بھی تعلیم میں کافی پیچھے ہیں۔ واضح رہے کہ اسلامی حدود پامال نہ ہوں۔
تعلیم کا مقصد انسان کو انسان بنانا ہے۔ اگر ملت ان امور پر غوروفکر کرے تو تعلیمی پسماندگی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ملت کا قدم ’’تاریکی سے روشنی کی طرف‘‘ ہوگا۔ آج ملت کے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ اجالوں کی تلاش میں نکل پڑے۔
——