آج کی رات محلے میں اصلاح معاشرہ پر تقریریں ہونے والی ہیں۔ نواب برادران کی آپسی رنجش کا شکار متنازعہ اجاڑ پلاٹ محلے کا اکلوتا میدان ہے، جس میں شادی بیاہ کی تقریبات، جشن میلاد النبی اور نوجوانوں کے ٹینس بال کرکٹ میچز ہوا کرتے ہیں۔ تاش بازی اور بیکار لوگوں کی تفریح گاہ بھی یہی ہے۔ اسے آج خوبصورتی سے سجایا گیا ہے۔ رنگین کپڑوں سے بنے ٹینٹ کی سجاوٹ دیکھنے کے قابل ہے۔ اس پروگرام کے لئے صوتیاتی آلات کا فراخدلی سے انتظام کیا گیا ہے۔ پنڈال کے سامنے اور پیچھے دو دو قد آدم سائونڈ باکس لگائے گئے ہیں۔ محلے کی سب سے اونچی عمارت پر دو لائوڈ سپیکر خاص طور سے لگائے گئے ہیں۔ جن میں سے ایک کا رُخ وارڈ نمبر سات کی جانب ہے۔ اس پڑوسی وارڈ میں زیادہ تر آبادی غیر مسلموں کی ہے جو پوجا کے مواقع پر لائوڈ سپیکر اسی محلے کی جانب گھماکر لگاتے ہیں۔ شام سے ہی فلمی طرز کے مذہبی نغموں اور قوالیوں کا کیسٹ بجایا جارہا ہے۔ جس کی پرزور جھنکار فضا میں پھیلی ہوئی ہے۔ محلے میں اس پروگرام سے ہلچل ہے مگر علیم پریشان ہے۔
مسلسل تیز آوازیں علیم کے لئے پریشانی کا سبب ہیں۔ وہ اپنی عادت کے برخلاف مین گیٹ پر کھڑا ہوکر راہ گیروں کو آتے جاتے بنا مطلب دیکھ رہا ہے۔ اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ہیں۔ چند لمحے گزرے ہوں گے کہ لائوڈ سپیکر سے رات کے لیے مدعو کیے گئے خطیب اور خوش گلو شعراء حضرات کی فہرست اس گزارش کے ساتھ سنائی جانے لگی کہ اہل ایمان اس پروگرام میں شریک ہوکر اسے کامیاب بنائیں اور ثواب دارین حاصل کریں۔ علیم اعلان کئے گئے ناموں پر مسکراتا رہا۔ ان کے اصلی نام تو اس سے تگنے چوگنے سابقہ اور لاحقہ کے درمیان دب کر رہ گئے تھے۔ ابھی اعلان ختم اور ریکارڈ بجا ہی تھا کہ اس کا دوست سنتوش آپہنچا۔ علیم اسے لے کر بیرونی کمرے میں آیا اور تمام کھڑکیاں بند کرنے لگا تو سنتوش نے مسکراتے ہوئے اشارے سے بند کرنے کی وجہ پوچھی۔ علیم نے جواب دیا۔
’’اس زور کی آوازوں میں تم سے بات کرنا مشکل ہے۔ اس لئے کھڑکیاں بند کررہا ہوں کہ باتیں کرسکوں‘‘۔
’’پہلے یہ سب تم لوگوں کے یہاں کہاں ہوتا تھا۔ اِدھر کچھ برسوں سے دیکھ رہا ہوں۔ گلا پھاڑ پھاڑکر بولتے رہتے ہیں مولانا لوگ۔ آہستہ بولنے سے بات سمجھ میں نہیں آتی کیا؟‘‘ سنتوش نے اپنی بات رکھی تو علیم نے زبردست کاٹ کرتے ہوئے کہا ’’تم لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں دوست، کچھ تو پڑوسیوں کا اثر ہوگا۔ دُرگا پوجا میں دس دنوں تک لائوڈسپیکر تمہارے یہاں بجتا ہے اور کان ہمارے خراب ہوتے ہیں‘‘۔
سنتوش جھینپ گیا، چند ساعت بعد اس نے خود بتانا شروع کیا۔ ’’نہیں یار مجھے بھی یہ سب پسند نہیں مگر کیا کریں دھرم (مذہب) کا ویرودھ (مخالفت) تو نہیں کرسکتے نا، تم تو جانتے ہو پچھلی بار پتا جی نے سمیتی والوں کے من مافق چندہ نہیں دیا تھا تو کتنی فضیحت جھیلنی پڑی۔ لیکن میں کیا کرسکتا ہوں۔ پتا جی نے کتنا سمجھایا تھا محلہ والوں کو مگر ہوا کیا، ناستک کہلانے لگے۔‘‘ اس نے لمبی سانس لی، علیم کچھ بولتا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
علیم کے ساتھ اس کا ساتھی نجیب کمرے میں داخل ہوا اس نے آتے ہی سنتوش سے اس کے والد کی خیریت پوچھی اور بیحد اُداس لہجے میں کہنے لگا ’’کیا بتائوں میری ماں کل سے بیمار ہیں۔ ڈاکٹروں نے انہیں دوا کے ساتھ آرام کرنے کو کہا ہے۔ مگر یہ لائوڈسپیکر اُف! اور تقریر کا پروگرام۔ اس شور میں، ان کو آرام نصیب کہاں؟‘‘
’’نہیں دوست ان سب لوگوں کو سیوا سے کیا مطلب۔ چندہ کرتے ہیں اور اس طرح کے پروگرام سے کافی روپیہ بچا لیتے ہیں۔ ہم لوگوں کے یہاں تو سمیتی والے اسی رقم سے پیتے بھی ہیں‘‘۔ سنتوش نے بتایا۔
’’ارے ہاں! چندہ کے نام پر یاد آیا۔ میرے منع کرنے کے باوجود والد صاحب نے پانچ سو ایک روپیہ دیا ہے اس پروگرام کے لئے۔ اور تو اور اعلان بھی کرچکے ہیں کہ وہ رات کا کھانا ذرا جلدی کھاکر جائیں گے اور تقریریں ختم ہونے کے بعد ہی لوٹیں گے۔ میں بھلا انہیں کیا سمجھائوں کہ اصلاح معاشرہ اس طرح کے پروگرام سے ہونے والا نہیں ہے یہ تو عملی طور پر اجتماعی کوششوں سے ممکن ہے۔ اس طرح کی تقریب فریب ہے، دھوکا ہے۔ بس چند لوگوں کی آمدنی کا ذریعہ اور اثر و رسوخ بڑھانے کا ہتھکنڈا‘‘۔
نجیب کی ماں بیمار تھی، علیم کو کل پیپر دینا تھا اور سنتوش اپنی گائے کے بدکنے کے خیال سے پریشان تھا۔ تینوں ایک ساتھ وہاں سے نکلے۔ نجیب اپنی ماں کو دوسرے محلے میں اپنی بہن کے یہاں لے جانے کے بارے میں سوچتا رہا۔ علیم سنتوش کے والد سے ملنے اسی کے ساتھ چل پڑا۔ سنتوش کے والد سندیپ ٹھاکر یونیورسٹی پروفیسر تھے۔ اِکانامکس کے ماہرین میں ان کا شمار ہوتاتھا۔ علیم اپنے پیپر کی تیاری میں ان سے مدد لے رہا تھا۔
ٹھاکر جی اور علیم دیر تک سوال و جواب میں مصروف رہے۔ لائوڈسپیکر کی آوازیں یہاں تک ایسے آرہی تھیں جیسے بغل کی عمارت پر بج رہی ہوں۔ قوالیوں اور فلمی طرز کے مذہبی نغموں کے درمیان پرگرام کا اعلان کیا جارہا تھا۔ یہاں تک کہ عشاء کی اذان ہوگئی۔ اس نے ٹھاکر جی سے رُخصت چاہی تو انہوں نے اجازت دیتے ہوئے افسردگی سے کہا۔
’’پتہ نہیں اب مسلمانوں میں بھی یہ کون سی وبا پھیل گئی ہے۔ اب یہ بھی اپنوں اور پڑوسیوں کا خیال نہیں رکھتے۔ دوسروں کو تکلیف دینے اور مزہ لینے والے اب مسلمانوں میں بھی رہنما ہوگئے ہیں۔ دیکھو اب رات بھر سونا محال ہے۔ اب بھگوان ہی ان سے بچائے‘‘۔
وہ راستے بھر اس طرح کے پروگرام کے انعقاد کے مقاصد پر غور کرتا رہا۔ وہ جیسے جیسے اپنے گھر کی جانب بڑھتا گیا آوازیں اتنی ہی شدت سے اس کی سماعت سے ٹکرانے لگیں۔ وہ گھر پہنچا تو والد صاحب جاچکے تھے۔ اس نے کمرے کی کھڑکیاں بند کیں اور خود کو مطالعے یں مصروف کرنے لگا، مگر لائوڈسپیکر کی آواز مسلسل اسے پریشان کرتی رہی۔ وہ جیوں ہی مطالعے میں منہمک ہوتا یکبارگی نعرہ کی آواز پر چونک جاتا۔ اسے ایسا لگتا یہ آوازیں کھڑکیاں دیواریں توڑ ڈالیں گی۔ کسی کسی وقت تو خطیب کی چنگھاڑ سے وہ لرز جاتا۔ اس طرح کتاب کا صفحہ پلٹتے ذہنی کو فت میں گیارہ بج گئے۔ اُدھر جلسہ شباب پر تھا جس خطیب کی باری تھی ان کا لہجہ اور آواز اس قدر زوردار تھی کہ لگتا تھا لائوڈسپیکر پھٹ پڑے گا۔ علیم کمرے سے باہر آیا اور چہل قدمی کرنے لگا پھر اس کا ذہن کسی خاص نکتے پر آکر ٹھہر سا گیا۔ نہ معلوم اس میں اچانک اتنی ہمت کہاں سے آگئی۔ وہ اپنے کمرے میں گیا، کاغذ کے ایک پرزے پر چند سطور لکھیں، اسے جیب میں رکھا اور میدان کی جانب چل پڑا، جہاں شعلہ بیان مقرر کا خطاب ہورہا تھا۔ وہ مسجد کے پاس سے گزرا، یہاں سناٹا پسرا تھا۔ البتہ مینار سے لگے ہوئے اسپیکر کی آواز سے کبوتروں کا غول اِدھر اُدھر منڈلا رہا تھا۔ اس نے پنڈال کے اندر کا جائزہ لیا۔ قریب ایک سو لال کرسیاں بچھی ہوئی تھیں مگر ان میں سے آدھی سے زیادہ خالی۔ البتہ ڈائس پر دس سے بارہ خطیبان اور خوش گلو شعراء متمکن تھے۔ اس وقت ایک خطیب گدے دار صوفے پر بیٹھ کر تقریر کررہا تھا اور درمیان میں اشعار لحن سے سناکر مجمع کو نعرہ زنی پر مجبور کر رہا تھا۔ علیم کچھ دیر وہاں کنارے کھڑا رہا۔ آدم قد سائونڈ باکس اپنا کمال دکھا رہا تھا۔ وہ کنارے سے ہوتا ہوا ڈائس کے قریب پہنچا۔ جیب سے پرزہ نکالا اور وہاں خدمت پر مامور ایک شخص کی مدد سے خطیب کے ہاتھ میں تھمایا۔ چند ساعت خاموشی میں گزرے، ایک عجیب خاموشی جیسے ہوا ساکت ہوگئی ہو۔ پھر وہی ہوا جس کا گمان بھی علیم کو نہ تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے خطیب کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا۔ انہوں نے اپنی آستین کہنیوں تک سمیٹ لی، نشست سے کھڑے ہوگئے اور پرزہ بھیجنے والے کو للکارا۔ اسے بداخلاق، بدعتی، بددین، کافر اور نہ جانے کیا کیا کہا۔ غصے کے مارے ان کے منھ سے تھوک نکلنے لگا۔ وہ مائک پر چیختے رہے۔ حاضرین کے ساتھ ڈائس پر موجود حضرات میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اگر پرزہ بھیجنے والا دکھائی پڑجائے یا معلوم ہو جائے کون تھا تو اس کا قتل عین ثواب اور ہر ایمان والے پر فرض ہوجائے۔
علیم کی سمجھ میں فوری طور پر کچھ نہیں آیا۔ مگر حالات اس کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ وہ چپکے سے گھر کی جانب بڑھ گیا مگر دروازے پر آکر اسے یہ خوف ستانے لگا کہ کہیں اس کی پہچان نہ ہو جائے، کہیں اس کی پکڑ نہ ہوجائے۔ تو پھر خیریت نہیں۔ ویسے بھی مسلمان نعرے پر جان لینے اور دینے لگتے ہیں۔ اس کا بدن یہ سوچ کر کپکپا گیا۔ اس نے فوری طور پر فیصلہ لیا اور اس کے قدم سنتوش کے گھر کی جانب تیزی سے اُٹھنے لگے۔ ٹھاکر جی لان میں ٹہل رہے تھے۔ پسینے سے شرابور، خوف زدہ اور پریشان حال علیم کو اتنی رات گئے دیکھ کر وہ حیرت میں پڑگئے۔ انہوں نے فوراً سنتوش کو آواز دی اور پریشانی کی وجہ پوچھنے لگے۔ علیم نے ساری باتیں بتائیں اور پرچہ پر لکھی عبارت کے بارے میں بھی۔ ٹھاکر جی مسکرانے لگے اور تسلی دی۔ اسے سنتوش کے ساتھ لان میں چھوڑکر وہ ڈرائنگ روم میں گئے اور ان کی انگلیاں ٹیلی فون پر چلنے لگیں۔
رات کے بارہ بجے ہوں گے۔ ایک پولیس جیپ جلسہ گاہ کے سامنے رُکی۔ پولیس کے ایک جوان نے جس کے کندھے پر دو ستارے روشنی میں دمک رہے تھے، اس پروگرام کے کرتا دھرتا کو بلایا۔ ان سے کچھ باتیں ہوئیں۔ اس نے ساری باتیں خطیب حضرات کو بتائیں۔ پھر کیا تھا، صدرِ جلسہ نے مائک تھام لیا۔
’’اس طرح کے جلسے پر روک ہماری مذہبی آزادی پر روک ہے۔ ہم اسے برداشت نہیں کرسکتے۔ ہمارا ملک سیکولر ہے۔ جس طرح یہاں ہندوئوں کو مذہبی رسوم ادا کرنے کی کھلی چھوٹ ہے اسی طرح ہم مسلمانوں کو بھی ہے۔ ہم قانون کے رکھوالے سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس پروگرام سے کیا قانون شکنی ہورہی ہے۔ ہم نے کس کو تکلیف پہنچائی ہے۔ پولیس والے جان لیں ہم امن پسند ضرور ہیں مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ظلم اور ناانصافی کو برداشت کرلیں گے۔ میرا ماننا ہے روحانی کیف و سرور میں ڈوبی ہوئی یہ نورانی رات تمام بنی نوع انسان کی بھلائی کے واسطے ہے۔‘‘
فلک شگاف نعرے سے فضا گونج اٹھی، جوش ایمانی شباب پر آگیا۔ عین اسی وقت پولیس آفیسر نے اپنے جوتے اتارے اور اسٹیج پر بچھی دبیز قالین پر تیز قدم اٹھاتا ہوا صدر محترم کے سامنے آیا۔ ان سے مائیک لے لیا اور مخاطب ہوئے۔
’’حضرات! میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ چاروں طرف اونچے مکانوں پر لگائے گئے لائوڈسپیکر کے کنکشن کاٹ دیئے جائیں اور رہی مسلمانوں کی مذہبی آزادی جیساکہ مولانا محترم فرما رہے تھے، تو مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آپ کیسے مسلمان ہیں۔ اس طرح کے شغل سے اسلام کا کون سا کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ یہ وائیپر لائٹز، قمقمے صرف رات کو روشن کرسکتے ہیں۔ دل و دماغ کو منور کرنے کے لئے کچھ اور چاہئے۔ یہاں کتنے لوگوں کی نگاہ ہے۔ میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ بیس تیس حاضرین کو سنانے کے لئے آپ نے کتنے تام جھام کئے ہیں‘‘۔
ڈائس پر موجود چند نوجوان خطیبان نے دبی زبان میں کچھ کہا جو پولس آفیسر کی سماعت تک آگیا۔ پھر کیا تھا۔ تحکمانہ اور کرخت آواز اُبھری۔
’’میں امان اللہ خاں۔۔۔۔۔ ہاں! میں مسلمان ہوں، قسم اللہ کی مجھے میرے فرض سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مجھے چیلنج نہ کیجئے۔ اگر آپ نے میری گزارش نہیں مانی اور اپنے اس عمل سے پڑوسیوں یہاں تک کہ دوسرے محلے والوں کو تکلیف پہنچائی، ان کی راتوں کی عبادتوں اور آرام میں خلل پہنچایا تو سخت ترین کارروائی سے گریز نہیں کروں گا‘‘۔
پولیس کے آتے ہی ممکنہ خدشات کے مدنظر زیادہ تر حاضرین جلسہ گاہ چھوڑ چکے تھے۔ باقی بچے سامعین و منتظمین پر سکتہ طاری ہوگیا۔ ڈائس پر رونق افروز قائدین کا چہرہ اُتر گیا۔ علیم، ٹھاکر جی کے یہاں سے واپس ہوا تو آوازوں کا شور تھم سا گیا تھا۔ صرف ایک سائونڈ باکس، آبادی کے سکوت اور سکون سے لڑتا ہوا جلد خاموش ہوگیا تھا۔ علیم نے آسمان کی جانب دیکھا۔ اب بادلوں کی اوٹ سے چاند نکل آیا تھا۔ نرم نرم چاندنی ہر سو بکھری ہوئی تھی۔ اس نے سوچا خواہ بدلیاں کتنی بھی گہری کیوں نہ ہوجائیں بس بادِ نو چلنے بھر کی دیر ہوتی ہے۔ چاند کو آخرکار نکھر جانا ہوتا ہے۔
——