کردار:
1- زاہد
2- امّاں (زاہدکی والدہ)
3- ندیم (زاہد کا مرید)
4- بادشاہ
5- بادشاہ کا مصاحب
(پردہ اٹھتا ہے)
(زاہد لمبی تسبیح لیے ذکر میں مشغول ہے۔ ایک طرف عود جل رہا ہے۔)
ندیم: (ادب سے حجرہ میں داخل ہوکرزاہد کے ہاتھ چومتا ہے۔ ) پیر و مرشد، بادشاہ وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہورہے ہیں۔
زاہد: (سیدھا بیٹھ کر) بادشاہِ وقت!!
ندیم: جی۔ وہ یہاں سے گذر رہے تھے، خدا کے ایک بندہ نے انھیں آپ سے فیضیاب ہونے کا مشورہ دیا۔ لہٰذا وہ خانقاہ کی طرف آرہے ہیں۔
زاہد: ٹھیک ہے۔ تم بادشاہ سلامت کا استقبال کرو اور پورے احترام سے حجرہ میں لے آؤ۔
(مرید احترام سے جھکتا ہے اور باہر چلا جاتا ہے۔ کچھ دیر بعد بادشاہ کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ ساتھ میں ایک مصاحب ہے۔ زاہد اٹھ کر بادشاہ کا استقبال کرتا ہے۔)
بادشاہ: ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ملک میں آپ جیسے نیک اور متقی افراد کا ہونا خدا کا خصوصی فضل و کرم ہے۔
زاہد: تشریف رکھیے۔
(دونوں بیٹھ جاتے ہیں۔مصاحب اور مرید بھی ایک طرف بیٹھ جاتے ہیں۔)
زاہد: میں خدا کا گناہ گار بندہ ، اس کٹیا میں بیٹھ کر توبہ و استغفار کرتا رہتا ہوں۔ آپ تو دن رات خلق خدا کی بہتری اور خوش حالی کے لیے کوشاں ہیں۔ مجھ جیسا تارک الدنیا فقیر نہیں بلکہ آپ کی مانند رعایا پرور بادشاہ خدا کی رحمت ہوتا ہے۔
مصاحب:(مچھر مارتا ہے اور ادھر ادھر کھجاتا ہے۔)
بادشاہ:دعا فرمائیے کہ ہم اپنی رعایا کے لیے فلاحی کام کرتے رہیں۔
زاہد: اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کو صحت و تندرستی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ فلاحی کام کر نے کی توفیق عطا فرمائے۔
مصاحب:(بآوازِ بلند) آمین!
بادشاہ: ہمیں نصیحت کی بھی ضرورت ہے۔
زاہد: آپ ایک عادل بادشاہ ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم فرماتے ہیں: انصاف کے ساتھ کی گئی ایک دن کی حکومت ستر سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ اور وہ شرعی حد جس کو صحیح طور پر نافذ کیا جائے اس زمین کے لیے (جہاں وہ نافذ کی گئی ہو) چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔
بادشاہ: سبحان اللہ۔ ہزار ہزار سلام اور درود ہمارے پیارے رسول پر۔
زاہد: جب آپ انصاف سے حکومت کر رہے ہیں تو میں بھلا آپ کو اور کیا نصیحت کروں۔
بادشاہ: نہیں، نہیں۔ ہر شخص کونصیحت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم آپ کی دعائیں اور نصیحتیں حاصل کرنے کے لیے ہی آئے ہیں۔
زاہد: بادشاہ سلامت، تمام تر محبت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو اور مخلوق کے لیے ہو ،عمدہ اخلاق۔ نماز، تلاوت اور ذکر چہرے کا نور، دل کا چین اور مزید نیک اعمال کی توفیق کا ذریعہ ہے۔ اسے کبھی ترک نہ کریں۔
بادشاہ:ان شاء اللہ۔
(اذان کی آواز)
زاہد: اوہ، نماز کا وقت ہوگیا۔ آئیے، نماز پڑھ لیں۔
بادشاہ: ضرور۔ آج آپ جیسے بزرگ کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقعہ ملا ہے۔ چلیے، ہم وضو سے ہیں۔
زاہد: سبحان اللہ۔
(ایک طرف مصلے بچھے ہیں، سب صفیں باندھ لیتے ہیں۔مرید اقامت پڑھتا ہے۔ زاہد بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے۔)
مصاحب:(نماز سے فارغ ہوکر اپنی پیٹھ پکڑتا ہے۔ دھیرے سے) ہاے اتنی لمبی نماز!!
بادشاہ: اب ہم اجازت چاہتے ہیں۔
مصاحب:(کراہتے ہوئے )چلیے حضور۔
زاہد: یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ حضوروالا، کھانے کا وقت ہوچکا ہے۔ کھانا کھا کر ہی جائیں۔ فقیر کی کٹیا میں جو روکھا سوکھا موجود ہے پیش ہے۔
بادشاہ: بہتر۔
مصاحب:(سرپکڑ کر دھیرے سے) بہت بہتر۔
زاہد: ندیم میاں دیکھو امّاں نے کیا بنایا ہے۔ فوراً لے آؤ۔
(ندیم جاکر کھانا لاتا ہے۔ سب مل کر کھاتے ہیں۔ )
زاہد: (بادشاہ کو روٹی دیتے ہوئے)یہ جَو کی روٹی ہے۔ نبیوں کی غذا رہی ہے۔ لیجیے۔ (بادشاہ کی رکابی میں شوربہ ڈالتا ہے۔) چھوٹے جانور کا گوشت ہے۔
بادشاہ: سبحان اللہ۔ بہت لذیذ کھانا ہے۔
زاہد: (مصاحب سے) آپ بھی لیجیے۔
مصاحب:کیوں نہیں، کیوں نہیں۔ (خود ہی اپنے برتن میں گوشت اتارتا ہے۔)
(کھانے سے فارغ ہوکر مریدسب کے ہاتھ دھلاتا ہے۔)
بادشاہ: (ہاتھ پونچھنے کے بعد مصاحب کو اشارہ کرتا ہے۔مصاحب ایک تھیلی بادشاہ کو پیش کرتا ہے۔بادشاہ وہ تھیلی زاہد کو دیتا ہے۔) ہماری جانب سے نذرانہ …
زاہد: (تھیلی لے کر مرید کو دیتا ہے۔)ندیم میاں یہ رقم اس بستی کے غرباء و مساکین میں تقسیم کردو۔
بادشاہ: ہمیں آپ سے مل کر دلی سکون حاصل ہوا۔ ہمیں اپنی دعاؤں میں شامل رکھیں۔
زاہد: یہ میری خوش قسمتی ہے کہ ایک عادل بادشاہ کے ساتھ کچھ وقت گذرا۔ یہ وقت ہمارے لیے توشہء آخرت ہوگا۔
بادشاہ: ان شاء اللہ۔
(زاہد بادشاہ کو دروازے تک چھوڑنے جاتا ہے اور خدا حافظ کہتا ہے۔)
زاہد: (واپس آکر اپنی جگہ بیٹھ جاتا ہے۔) ندیم میاں، امّاں سے کہنا بادشاہ سلامت چلے گئے۔ وہ یہاں آ سکتی ہیں۔
ندیم: جی پیر و مرشد۔ (کمرے سے چلا جاتا ہے۔)
امّاں: (کچھ دیر بعد لکڑی ٹیکتے ہوئے کمرے میں داخل ہوتی ہے اور لکڑی ایک طرف رکھ کر بیٹھ جاتی ہے۔)ماشاء اللہ حکمراں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔
زاہد: جی امّاں۔ بہت نیک بادشاہ ہے۔
امّاں: تم نے آج نماز بہت لمبی پڑھائی، بیٹا۔ میںکھانا تیار کر کے انتظار کرتی رہی۔
زاہد: دراصل امّاں، بادشاہ مقتدی تھے اس لیے بڑی سورتیں پڑھ لیں۔اور ذرا اطمینان سے ہی نماز پڑھائی۔ اچھا آپ نے کھانا کھایا؟
امّاں: نہیں بیٹا۔ اب کھاتی ہوں۔
زاہد: اچھا، یہیں کھا لیتے ہیں۔
امّاں: میں باورچی خانہ میں کھالوں گی۔
زاہد: امّاں میں بھی کچھ کھالوں گا۔ بادشاہ ساتھ تھے اس لیے کھانا کم کھایا۔
امّاں: (حیرت سے) اوہ _____!! اس لیے کھانا دوبارہ کھاؤگے؟
زاہد: جی۔
امّاں: (لکڑی لے کر کھڑی ہوجاتی ہے، بلند آواز میں کہتی ہے)بیٹا، پھر تم نماز بھی دوبارہ پڑھ لو۔
زاہد: (حیرت سے ماں کو دیکھتا ہے اور شرمندگی سے سر جھکا لیتا ہے۔)
(پردہ گرتا ہے۔)